خالد محمود
مقتدر قوتوں کو جب بھی اپنی بدانتظامی ،نااہلی اور ناانصافی پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے توعوامی اجتماعی یاداشت سے ’’اصلی اور وڈّے مسائل‘‘ کو فی الفور الیکٹرانک میڈیا کے’’ ریموٹ کنٹرول‘‘ سے محو کرنے کے لئے اسلام کو خطرے میں ڈال کر وہ سائرن اور گھنٹیاں بجائی جاتی ہیں جس سے ایک جُز وقتی قومی طاقِ نسیان کی جگہ بن جاتی ہے۔
صرف دیہات کے کچھ سیانے بزرگ (جن کا گزارہ دو بیگھہ زمین پر ہے )ہی اس میڈیاکی یلغار سے بچ پاتے ہیں جنہوں نے بعد از خرابی بسیار ٹیلی ویژن پر خبریں دیکھنا بند کر رکھی ہیں اور جن کی جانچنے کی صلاحیتیں دن بدن تیز اور عمل کرنے کی صلاحیتیں روز بروز سست ہو رہی ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ حکومتوں کے پاس دھیان بٹانے اور وقت گزاری کے 36 راستے ہیں۔ ریاستوں کے’’ چاؤ چونچلوں‘‘ سے دور رہنے میں ہی بھلا ہے۔وقت ضائع کرنے والی مشینیں چھوڑ چھاڑ کر اپنی اپنی گائے ،بھینس یا بکریوں کو وقت پر چارا ڈالیں ورنہ جو تھوڑا سا گھر کا دودھ میسر ہے اس سے بھی جاتے رہیں گے۔اس طرح کے بابے اب بھی پرانے چوپالوں میں چارپائیوں پر براجمان،حقّے کے کش لگا کر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں،’’انیائے کا روپ حکومت، جوں رنڈی کی ٹور ‘‘۔
جب ان سے اس محاورے کا مطلب پوچھا گیا تو بہت لال پیلے ہوئے ۔پھربولے کہ جب ریاست ایک عام آدمی سے 100 روپے کے ایزی لوڈ سے بلا جھجک اور شرم کے پیشگی کٹوتی کر لیتی ہے تو اس کا سیدھا مطلب یہی کہ عام شہری اور’’ہماتڑ‘‘ کو بھی انہوں نے آمدن کے حساب سے میاں منشاء،جہانگیر ترین یا راحیل شریف کے برابر کھڑا کر دیا ہے اور یہ نتیجہ نکال رکھا ہے کہ یہ سالا بھی سالانہ 4 لاکھ سے کہیں اوپر کماتا ہے۔
اور جب،ہر سال، کسی اور کے برتے ہوئے بجلی کے یونٹ بھی ہم غریبوں کے کھاتے میں ،ایڈوانس ریڈنگ کی شکل ڈال کر جبری وصولی کی جاتی ہے، تو اس پر نہ تو وزیر انصاف کچھ بولتا ہے ،نہ کسی جج کا فیصلہ بولتا ہے نہ وہ خود بولتے ہیں۔حالانکہ وہ اپنی ذاتی جذباتی اور نمائشی ایمانی تسکین کے لئے بولتے چلے جاتے ہیں اور ان کی نمائشی ایمانی اشتعال انگیزی کی وجہ سے کئی معصوم جاتکوں کی جان چلی جاتی ہے۔
ابھی گاؤں کے کچھ لڑکوں نے سرکاری نوکری کے لئے درخواست دینی تھی تو متعلقہ محکمے نے فی درخواست 3 ہزار کے بینک ڈرافٹ بھی لگوائے اور’’ انٹرویو‘‘ کے لئے آنے جانے کاکرایہ، گاؤں والوں سے ادھار مانگ کے گئے تھے۔اب جب ریاست نے بے روزگار لونڈوں سے بھی دن دیہاڑے پرسسنگ فیس کی وصولی شروع کر دی ہے اور وہ بھی کسی خود ساختہ خادم یا مخدوم کی عین ناک کے نیچے! اب فرض کرو کہ 10 اسامیوں کی’’ اندر کھاتے ‘‘ بھرتی کے عوض متعلقہ محکمے نے 500 درخواستیں جمع کرنے پر 15لاکھ توبے روزگاروں(پاکستان کے علاوہ بے روزگاروں کی غریب اور مسکین سمجھ کر ہی کفالت یا مالی مدد کی جاتی ہے) سے بٹورلئے ،تو یہ رنڈی کی چال نہیں تو پھر اور کیا ہے؟
کیا زمانہ آ گیا ہے سرکار کو کام کے لئے بندے درکار نہیں بلکہ بندوں کو سرکاری کام کی غرض ہے۔ان دلبرداشتہ اور سنکی بابوں کا دماغ چل گیا ہے شاید! ؤان میں سے ایک بابا جھانا ہے جو نہایت ہی بے لحاظ اور کورا آدمی ہے وہ تو برملا چوپال میں کہہ دیتا ہے کہ چاہے سارا ملک نمازی ہو جائے یا کافر اس سے مسئلے حل نہیں ہونے۔مسائل کے حل کے لئے تو صاف نیت سے کام میں جُتنا پڑتا ہے۔ایمان یا انکار کا’’ بھونپو‘‘ بجانے سے کوئی بگڑا کام نہیں سنورا آج تک!۔
ملک بھر میں جاری بجلی کی لوڈ شیڈنگ تو ایک طرف کسی بھی شہر اور نگر میں پینے کا صاف پانی میّسر نہیں ہے ۔خود واسا کا محکمہ اس بات کی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ ان کے زیرِ انتظام پانی کی ترسیل میں جراثیم موجود نہیں ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات میں ملاوٹ سے نمائشی ایمان پر کوئی حرف نہیں آتا۔
بلکہ ملاوٹ والی اشیاء صرف بیچنے والے اور ناجائز منافع خور،دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کے سفر پر گامزن ہیں۔انکے حج اور عمروں میں لگاتار اضافے سے نمائشی ایمان اور مضبوط ہوتا جا رہا ہے اور بے چارہ عام مزدور اور کسان جو اس ملک کا اصلی باشندہ ہے،دن بدن ذلیل و خوار ہو رہا ہے۔کسی بھی نمائشی ایمان والے معذرت خواہ سے پوچھ کر دیکھ لیجئے، وہ ترنت جواب دے گا کہ عدل اور صاف پانی کی ترسیل میں تاخیر محض اتفاقی ہے نہ کہ حکمرانوں کی بد نیّتی اور بد انتظامی!۔
♠
One Comment