بھارت میں گائے کی سیاست مرکزی موضوع بن چکا ہے۔ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں ساری توجہ صرف اس بات پر مرکوز کی جا رہی ہے کہ گائے کشی روکنے کیلئے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے ۔ اس کیلئے ایسے ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں جیسے دہشت گردوں سے نمٹنے کیلئے بنائے جاتے ہیں۔
یہ سب کچھ اترپردیش میں بی جے پی کی انتخابی کامیابی کے بعد تیز تر ہوگیا ہے ۔ بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں گجرات ‘ مدھیہ پردیش ‘ چھتیس گڑھ وغیرہ میں ایسے قوانین بنائے جانے کا عندیہ ہے جن کے ذریعہ گائے کشی میں ملوث افراد کو نہ صرف عمرقید کی سزا ہوگی بلکہ انہیں سزائے موت بھی دی جائیگی ۔
اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کے بحیثیت چیف منسٹر حلف لیتے ہی وہاں غیرقانونی مذبحہ خانوں کو بند کرنے کے نام پر اس سارے کاروبار کو عملا ختم کرنے اقدامات کئے گئے جس سے لاکھوں افراد کا کاروبار اور روزگار مربوط ہے ۔ گاؤ رکھشکوں کی سرگرمیاں پھر سے شدت اختیار کرچکی ہیں۔
دوسری طرف مسلمانوں کی کئی تنظیمیں گائے کے ذبیحہ پر پابندی کا مطالبہ بھی کررہی ہیں۔لکھنو میں شیعہ پرسنل لاء بورڈ نے منگل کے روز رام جنم بھومی کے تنازع کے موثر حل اور قومی سطح پر گائے ذبیحہ کوروکنے قانونی امتناع کا مطالبہ کیا۔
پانچویں عاملہ کے اجلاس میں باڈی کے اراکین نے گائے ذبیحہ کے مسائل کوموضوع بحث لایااور اس پردو گروہوں کے درمیان کشیدگی کے پیش نظر اتفاق رائے سے فیصلہ لیاگیاکہ حکومت کی جانب سے امتناع تمام مسلمانوں کے مفاد میں ہوگا۔
اراکین نے کہاکہ قرآن میں گائے ذبیحہ کو اسلامی تعلیمات کے خلاف قراردیا گیا ہے جس پر امتناع ضروری ہے۔خواجہ معین الدین چشتی ؒ کی بارگاہ کے ایک مشائخ زین العابدین خان نے برسرعام گائے ذبیحہ پر بحث کی جو تنازع کا موضوع بنا او رانہوں نے کہاکہ اس کو ختم کردیناچاہئے۔
انہوں نے کہاکہ’’ بڑھتی کشیدگی کے پیش اورقرآن کے مطابق ہمیں گائے کے ذبیحہ اورگوشت کی فروخت پر امتناع عائد کردینا چاہئے‘‘۔
انہوں نے مزید کہاکہ آج کے عصری دور میں تین طلاق کاعمل غیرواجبی اورقرآن کی روح کے عین خلا ف ہوگا۔دیگر اسپیکرزنے بھی اس بات کو تسلیم کیاکہ اگر شادی دولہا او ردلہن کی مرضی کے مطابق ہوتی ہےتو ویسے ہی طلاق کا مسئلہ بھی دونوں سے مشاورت کے بعد ہونا چاہئے۔
روزنامہ سیاست، حیدر آباد، انڈیا