ہمارے ہاں مغربی تہذیب کے بارے میں کئی فکری مغالطے پائے جاتے ہیں۔ان میں سے کچھ مغالطے لا علمی کی وجہ سے ہیں۔ کچھ شعوری بد دیانتی کی وجہ سے ۔ یہ مغالطے با قاعدہ منصوبہ بندی سے پھیلائے جاتے ہیں۔یہ مغالطے ہمارے کچھ خود ساختہ سماجی دانشور اور شدت پسندپھیلا رہے ہیں جو مغرب کی اندھی نفرت میں مبتلا ہیں۔
اس نفرت کی بنیادیں مغرب کے بارے میں کم علمی اور جھوٹے تصوارات پر کھڑی ہیں۔ یہ لوگ آج بھی ذ ہنی طور پر صلیبی جنگوں کے زمانے میں کھڑے ہیں۔ ان کے اذہان اسی زمانے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ آج بھی مغربی سماج چرچ کی رہنمائی اور اخلاقیات کے تابع ہے۔حالانکہ اب مغربی سماج میں چرچ کا کردار نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ بیشتر تا ریخ دان اور سماجی سائنس دان اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔
عیسائیت نے صدیوں سے انسانی تشخص کا ا یک مغربی نظریہ وضع کر رکھا تھا۔ مگررفتہ رفتہ افراد کے مذہبی عقائدسماجی عقائد میں بدلتے چلے گئے۔مذہبی نظریات اور اخلاقیات بہت کم ہو گئیں۔یہاں تک کہ باقاعدہ چرچ میں جانے والے لوگوں میں بھی اس طرح کی کٹر عقیدہ پرستی نہیں رہی۔ مذہب یہاں بطورسماجی نظام کے ختم ہو گیا۔نٹشے نے اسی کیفیت کو خدا کی موت سے تعبیر کیا تھا۔عیسائی دانشوروں نے اس صورت حال کوایک عظیم تاریکی کا نام دیا۔اور اس بات پر زور دیا کہ عقیدے سے نکل کر انسان خالی ہو گیا ہے۔ سماج میں اخلاقی اعتبار سے ایک قسم کا خلا پیدا ہو گیاہے۔
یہ قدامت پرست لوگ گزشتہ ڈیڑھ سو سال سے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حقیقت میں سماج کے اندر کوئی اخلاقی خلا نہیں۔ قدامت پسندوں کو یہ خلا لگتا ہے۔ مغربی سماج نے پرانی مذہبی اخلاقیات کی جگہ ایک جدید اخلاقی نظام اپنا لیا ہے۔مذاہب ، تہذیبوں اور علاقوں سے بالا نظام۔ یہ نظام انسان کوآزادی دیتا ہے۔خوف ،ڈر اور لالچ سے آزادی۔ پہلے جو کام انسان خوف ڈر اور لالچ کی وجہ سے کرتا تھا وہ اب اس کی زندگی اور اخلاقیات کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ اس کا لائف سٹائل ہے۔
مغرب کے ترقی یافتہ سماج میں انسان نے رشوت کا لین دین اس لیے کم نہیں کیا کہ اسے دوزخ میں جانے کاڈر ہے۔اس نے ایسا اس لیے کیا کہ وہ اسے برا تصور کرتا ہے۔ یا پھر اسے قانون کا ڈر ہے۔ اب یہ ایک اخلاقی قدر بن گئی ہے۔ اس اخلاقی قدر کے پس منظر میں جہنم کی آگ یا جنت کا لالچ نہیں ہے۔اسی بات کا اطلاق دوسری اخلاقی اقدار پر بھی ہوتا ہے۔ جن میں سچائی، دیانت داری وغیرہ شامل ہیں۔ مغربی سماج ظاہر ہے کوئی مکمل مثالی سماج نہیں ہے۔ یہاں بھی بہت ساری قباحتیں ہیں۔ کئی ناہمواریاں ہیں۔ مگر اگرہم اس کا تقا بلی جائزہ اپنے سماج سے لیں توحیرت انگیز صورت حال سامنے آتی ہے۔
رشوت،شفارس اور کرپشن ہماری نسبت سینکڑوں نہیں ہزاروں گنا کم ہے۔ جھوٹ اور منافقت کا تو تقابل کیا ہی نہیں جا سکتا۔یہاں انصاف کا خون ہوتے نظر نہیں آتا۔ کوئی کسی کی جائداد پر قابض ہوتا ہے نہ کسی کا حق مار سکتا ہے۔کوئی کسی کی عزت نفس پرحملہ نہیں کرتا۔مال پٹوار کا یہاں رواج نہیں۔نوکر شاہی اور سرکاری افسر سے عام لوگوں کو کوئی کام، کوئی سروکار نہیں۔ ظاہر ہے یہ ایک طبقاتی سماج ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق ہے۔ مگریہ معاشی تضادکبھی سماجی تضاد کی شکل میں سامنے نہیں آتا۔ بلکہ بسا اوقات کروڑپتی اور عام فیکٹری مزدور ایک ہی طرح کی خوراک،پوشاک اور رہائش رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
سماج کی ایک پرت میں غربت بھی ہے۔مگر یہ صرف غربت ہے روگ نہیں ،ذلت نہیں۔اس غربت کی وجہ سے کوئی بھوکھا نہیں سوتا۔کوئی ننگے پاوں نہیں چلتا۔کوئی سردی سے نہیں مرتا۔کوئی بیمار دوا نہ ہونے کی وجہ سے دم نہیں توڑتا۔کسی کو کینسر کے مہنگے علاج کے لیے چندے کی اپیلیں نہیں کرنی پڑتیں۔کوئی بچہ غربت کی وجہ سے تعلیم سے محروم نہیں ہوتا۔ انصاف ہر ایک کو میسر ہے۔ جو ملزم جو اپنی صفائی کے لیے اسطاعت نہیں رکھتے سرکاران کی صفائی پر کھربوں خرچ کرتی ہے۔
یہ جو پورا نظام زندگی قائم ہے اس میں عیسائیت کا یا چرچ کا کوئی عمل دخل نہیں۔ ریاستیں مکمل طور پرسیکولر ہیں۔ قوانین سیکولرہیں۔ اس کے بر عکس ہمارے نظام ہیں جس میں ہر چیز مذہب سے شروع ہو کر مذہب پر ختم ہو تی ہے۔ملکوں کے نام مذہبی ہیں۔آ ئین و قوانین مذہبی ہیں۔ تعلیم اور ثقافت سمیت زندگی کے ہر شعبے پر مذہب کی گہری چھاپ ہے۔ہماری ہر سماجی اور اخلاقی قدر مذہبی ہے۔ لوگ جھوٹ سے اس لیے اجتناب نہیں برتتے کے جھوٹ بولنابری بات ہے۔وہ جھوٹ بولنے سے اس لیے اجتناب کرتے ہیں کہ جھوٹ بولنا گناہ ہے۔ اور گناہ کی اگلے جہاں میں سزا ہو گی۔
یہ بات ہر برائی ہر جرم پر صادق آتی ہے۔ گویا ہمارے ہاں اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی وجہ مذہب ہے۔ گناہ و ثواب کا تصور ہے۔دوزخ کا خوف ہے۔جنت کا لالچ ہے۔ اس قدر گہری مذہبی اخلاقیات رکھنے کے باوجود ہم جب نتائج کے اعتبار سے مغرب سے اپنا موازنہ کرتے ہیں تو سر چکرا دینے والے اعداد و شمار سامنے آتے ہیں۔ہمارے ہاں عام سماجی اور معاشی لین دین میں جھوٹ،منافقت،بددیانتی کی شرح کیا ہے ؟
ہمارے ہاں نا انصافی کی کیا کیا شکلیں ہیں۔ موت و پیدا ئش کے سرٹیفیکیٹ لینے سے لیکر بیمارکوہسپتال میں داخلے کے لیے رشوت اورشفارس کی ضرورت پڑتی ہے۔ غریب اپنے گردے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔لاکھوں بچوں کو قلم اور کتاب تک رسائی نہیں۔ امیر اور غریب کے درمیاں فرق صرف معاشی نہیں۔یہ سماجی اور نفسیاتی بھی ہے۔
امیر کاغرور و تکبرچھپائے نہیں چھپتا۔ غریب کے لیے حقارت اس کے چہرے سے ٹپکتی ہے۔ اخلاقی اقدارروبہ زوال ہیں۔ اس کے باوجود ہم اپنے اپ کو مغرب سے برتر سمجھنے پر بضد ہیں۔ اور اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ مغرب میں سب کچھ غیر اخلاقی اور شیطانی ہے۔اور اگر کچھ اچھا ہے تو بس وہ اقدار جو اس نے ہم سے چرائی ہیں۔ مگر اب جدید ڈیجیٹل دور اور نت نئے زرائع ابلاغ روزانہ ہمارے ان مغالطوں کو بے نقاب کر تے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم احساس برتری کے خبط سے نکل کر سچائی کا سامنا کریں۔
♥