آصف جاوید
اسلامی دہشت گردتنظیم تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان اور سرکردہ رکن، احسان اللہّ احسان کے احسانات کو پاکستانی قوم کبھی نہیں بھو ل سکے گی۔ طالبان نے کسی کو محروم نہیں رکھا، طالبان کے احسانات پوری پاکستانی قوم پر ہیں۔
طالبان نے ملالہ جیسی ملعونہ اور کفّار کی ایجنٹ اور خواتین کی تعلیم کی طرفدار بدبخت کافر لڑکی پر گولی چلا کر اسلام کی عظمت کا بول بالا کیا ۔ طالبان نے عید میلاد النبی کے جلوسوں، محرم میں عزا داری کے جلوسوں ، ہندوؤں کے مندروں، مسیحی برادری کی عبادت گاہوں ، خیبر پختون خواہ کے بازاروں میں بم حملے کرکے معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیل کر اسلام کی عظمت کو بحال کیا۔
طالبان نے شیعہ فرقے کے پروفیشنلز کی ٹارگٹ کلنگ کرکے، ایم کیو ایم جیسی سیکولر سیاسی جماعت کے عہدیداروں کو سرِ عام قتل کرکے ، معصوم شہریوں کو تاوان کے لئے اغوا کرکے اور اربوں روپے کما کر اپنے آپ کو مالا مال اور قوم کو اپنے احسانوں سے سرفراز کیا ہے۔
اسلامی دہشت گردتنظیم تحریکِ طالبان پاکستان نے ایک بڑا احسان پاکستانی ماؤں پر بھی کیاہے، اس تنظیم نے آرمی پبلک اسکول پشاور میں ڈیڑھ سو سے زائد معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی، انہیں تڑپا تڑپا کر مارا، آج بھی جب ان بچّوں کی مائیں جب اپنے معصوم بچّوں کو یاد کرتی ہیں تو دھاڑیں مار مار کر روتی ہیں اور تحریکِ طالبان پاکستان کے احسانات کو یاد کرتی ہیں۔
تحریکِ طالبان پاکستان کے احسانات پاک فوج پر بھی ہیں، یہ اعزاز تحریکِ طالبان پاکستان کو ہی جاتا ہے کہ جس نےاپنے سرپرستوں کو بھی نہیں بخشا اور احسان کا بدلہ احسان سے دے کر چکایا، وہ فوج جس نے دفاعی اخراجات کے بہانے تمام قومی وسائل اپنے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ستّر سالوں سے قوم کو پینے کے صاف پانی ، تعلیم اور صحت جیسی سہولتوں سے محروم رکھا ہوا ہے، اور پیشہ ور قاتلوں ،دہشت گرد تنظیموں کو کو تزویراتی اثاثوں کے نام پر پال رہی ہے انہیں پراکسی جنگ لڑنے کی تربیت دے رہی ہے، اس تنظیم نے اس ہی فوج کے فوجیوں کے گلے کاٹ کر فٹ بال کھیلی ہے۔
فٹ بال کا کھیل طالبان کا پسندیدہ کھیل ہے، طالبان کو جنگی تربیتی مشقوں سے جب بھی فراغت ملتی ہے، طالبان فٹ بال ہی کھیلتے ہیں۔ اگر طالبان نے غصّے کے عالم میں پاکستانی فوجیوں کے گلے کاٹ کر فٹبال کھیلی تو اس میں قصور طالبان کا نہیں بلکہ پاک فوج کے شعبہ سپلائی اور لاجسٹک کا ہے، اگر پاک فوج طالبان کو سیالکوٹ کی بنی ہوئی چمڑے کی فٹ بالیں بروقت سپلائی کردیتی تو، طالبان کو کبھی بھی غصّہ نہ آتا اور طالبان غصّے کے عالم میں پاکستانی فوج کے گلے کاٹ کر کبھی بھی فٹ بال نہیں کھیلتے۔
اب احسان اللہّ احسان اپنے احسانات کی گٹھڑی اٹھا کر واپس آگئے ہیں، قوم سے معافی مانگ لی ہے، انکے سرپرستوں یعنی پاک فوج نے ان کی معافی قبول کرکے انہیں میڈیا ٹرائل کے ذریعے ڈرائی کلیننگ کی سہولت بھی فراہم کردی ہے۔ سابق جہادی اور پشتون قوم پرست صحافی کو خوشگوار ماحول میں ائرکنڈیشنڈ کمرے میں بٹھا کر ٹی وی انٹرویو بھی ریکارڈ کروادیا ہے۔
سلیم صافی صرف نام کے صافی نہیں ہیں بلکہ صحافت کے شعبے کے باقاعدہ دھوبی بھی ہیں۔ دھلائی صفائی کا فن جانتے ہیں۔ سلیم صافی نے انٹرویو کے بعد احسان اللہّ احسان کو باقاعدہ کلین چٹ دے کر اعلان کردیا ہے کہ “احسان اللہ احسان پڑھے لکھے، شاعراور ادیب ہیں ، میڈیا مینجمنٹ جانتے ہیں ، ابلاغ کا کام کرتے ہیں“۔ عسکری امور کے ماہر، غزوہِ ہند کے خالق اور دانشور زید حامد عرف لال ٹوپی بندر نے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر ارشاد فرمایا ہے کہ “ہمیں احسان اللہّ احسان کے پاس سے حب الوطنی کی خوشبو آتی“۔
اوریاء مقبول جان، مجیب الرحمان شامی، ہارون الرشید ، انصار عباسی جیسے میڈیا ٹرائل کے تجربہ کار جج صاحبان ابھی میڈیا ٹرائیل شروع ہونے کا انتظار کررہے ہیں۔ جیسے ہی گرین سگنل (معقول معاوضہ) ملے گا ، وہ بھی فورا” ان خونخوار درندوں کو حب الوطنی اور قومی مفاد کے نام پر عفو و درگزر کی پیکنگ میں لپیٹ کر انسانی روپ میں پیش کرکے قومی دھارے میں شامل کرنے کی تجاویز پیش کریں گے۔ خونخوار درندوں کی “ہیومنائزیشن” کا یہ عمل عسکری اسٹیبلشمنٹ کے منصوبے کا ایک حصّہ ہے، جس کا مقصد آنے والے انتخابات میں طالبان کو قانون سازی اور حکومت سازی میں اشتراک عمل کی گنجائش فراہم کرنا ہے۔
خون خوار درندوں کو انسان بنا کر انسانی روپ میں پیش کرنے کا یہ منصوبہ بہت ہی ہوشیاری اور سمجھداری کے ساتھ تیّار کیا گیا ہے۔ آنے والے دنوں میں قوم دیکھے گی کہ پے رول صحافیوں، لفافہ دانشوروں کی فوجِ ظفر موج ، میڈیا پر بیٹھ کر قوم کو راگ دے رہی ہوگی کے ” اے 22 کروڑ نادان انسانوں، جنہیں تم خونخوار درندے اور معصوم انسانوں کا قاتل سمجھ رہے ہو، یہ تو ہمارے گمراہ بھائی ہیں، جو اَب راہِ راست پر آگئے ہیں۔
اے نادان انسانوں! یہ بدبخت لوگ جن سے تُم نفرت کرتے ہو، یہ بھی تُم جیسے جیتےجاگتے انسان ہیں، لوگوں کا درد رکھتے ہیں، محب وطن ہیں، دینی تعلیم سے آراستہ ہیں، دین دار ہیں، پابندِ صوم و صلو‘ۃ ہیں ، شعر و شاعری سے شوق اور ادب سے لگاؤ رکھتے ہیں، بچّوں، پھولوں اور تتلیوں سے پیار کرتے ہیں۔ ہمیں ان سے حب الوطنی کی خوشبو آتی ہے۔ ۔ تا کہ لوگوں کے دلوں سے ان کے لئے نفرت ختم ہو اور یہ خون خوار درندے بغیر کسی سزا اور منطقی انجام کے قومی دھارے میں شامل ہوکر اسمبلیوں کا الیکشن لڑ سکیں، قانون سازی کرسکیں، حکومت سازی کرسکیں ، پھر ان کا ہاتھ ہوگا اور قوم کا نرخرہ، اے نادان لوگوں ہمیں کوئی الزام نہ دو، ہم سے تو جو کہا جارہا ہے ہم وہی کررہے ہیں۔ معبودِ زمینی کا حکم ہے، اور ہم حکم کے غلام ہیں“۔
♠
One Comment