ایمل خٹک
مردان میں معصوم طالب علم مشال خان کی بہیمانہ ہلاکت جیسے واقعات پورے معاشرے کو جنجھوڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔ ویسے تو اس واقعے کا ذمہ دار پورا معاشرہ ہے مگر اس میں زیادہ دوش ریاست کو دی جاسکتی ہے ۔ حالات کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ تین ہفتوں میں توہین رسالت کے نام پر چار قتل ہوچکے ہیں ۔ مشال خان کے علاوہ ننکانہ صاحب میں ملک سلیم لطیف ایڈوکیٹ ، لاہور میں ڈاکٹر اشفاق احمد اورڈاکٹر طاہرہ عبداللہ، مذہبی تنگ نظری کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ملک کو انتہاپسندی اور تنگ نظری کا گرھن لگ چکا ہے اور اس کا منحوس سایہ زندگی کے تمام شعبوں میں محسوس کیا جاسکتا ہے ۔
اس واقعے نے سسٹم میں موجود کئی سٹرکچرل کمزوریوں کو بے نقاب کیا ہے۔ قانونی سقم ایک طرف اس واقعے نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا کہ ہماری ریاست اور ریاستی ادارے کتنے کمزور اور بے حس ہوچکے ہیں ۔ ریاست اپنی ا ہم ذمہ داروں مثلا تحفظ جان و مال اور انصاف کی فراہمی میں ناکام ہوچکی ہے۔ ملک میں سماجی انصاف نام کی کوئی چیز نہیں ۔ حکمران طبقے کی ناعاقبت اندیش بیانیوں اور ریاستی مشینری کی نظریاتی ذہن سازی نے اس مشینری کو شدید نظریاتی تذبذب اور خلفشار میں مبتلا کردیا ہے۔ وہ بجائے اس کے کہ مذہبی معاملات میں ایک غیرجانبدار فریق کے جو انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مظلوموں کی فریاد سنے اس کی مناسب چھان بیان کرے دادرسی کرے اور میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ کرے وہ خود ایک فریق بن گیا ہے ۔ اور مذہب کے نام پر برپا کسی بھی فساد کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے ۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے یا تو خاموش سہولت کار یا تماشائی کا رول ادا کرتے ہیں۔ اس وجہ سے مشال خان جیسے بیگناہ اور معصوم شہری جنونیت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ الزام تو بے بنیاد تھا ۔ عقیدے کی بناء پر بیگناہ لوگ مارے جاتے ہیں ۔ خداوند تعالی تو خود اپنے بندوں کو مختلف عقائد اور نظریات کے ساتھ برداشت کر رہا ہے ان کو مختلف سوچ اور فکر کے ساتھ پیدا کیا مگر اس کی مخلوق اس کے نام پر اس کے بندوں کو قتل کررہی ہے۔
پاکستانی ریاست انتہائی کمزور اور کھوکھلی ہوچکی ہے ۔ اور اس کو کمزور کرنے میں سب سے زیادہ رول خود ریاست کا ہے ۔ یہاں ریاست کی کمزوری کی تین علامات کا ذکر ضروری ہے ۔ ریاست کی کمزوری کی پہلی علامت ریاست کی روایتی گرفت کی کمزوری ہے۔ لاقانونیت ، جرائم میں اضافہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے بسی وغیرہ ریاست کی گرفت کی کمزوری کی علامات ہیں ۔ طاقت کا بیجا، نامناسب اور غیر ضروری استعمال کی وجہ سےکنٹرول کے روایتی طریقے غیرموثر ہوتے جارہے ہیں۔ عوام میں بیداری اور شعور کی وجہ سے بھی روایتی طاقت کے طریقےاب زیادہ موثر نہیں۔
پاکستانی ریاست کے موجودہ انحطاط اور شکست وریخت کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اور یہ شکست و ریخت سالوں کی غلط ریاستی پالیسیوں اور ریاستی بیانیوں کا نتیجہ ہے ۔ اس عمل کو پورے سیاق و سباق میں سمجھے بغیر موجودہ بحران کی نوعیت اور شدت کو سمجھنا مشکل اور اس کا دیرپا اور مناسب حل ناممکن ہے ۔ غلط اور ناموزوں نسخےاکثر مرض کی علاج کے بجائے اس کو مزید بگاڑ دیتی ہے ۔ پاکستان میں بحران کی شدت اور سنگینی کی ایک وجہ اسکا نامناسب اور غلط طریقے سے حل کرنا بھی ہے ۔
ریاستی کنٹرول کی کمزوری کے کئی وجوھات ہیں۔ ایک تو ریاست کی طاقت کے استعمال کا قانونی جواز یا تو ختم ہوچکاہے یا متنازعہ بن گیا۔ طاقت کا استعمال عموماً ریاست کا ایک جائز عمل ہوتا ہے اور ریاست کو اس پر ایک طرح سے اجارہ داری حاصل ہوتی ہے مگر بہت سی وجوھات کی بناء پر یہ عمل متنازعہ بن گیا ہے اور ریاست نے طاقت کے استعمال کا قانونی جواز کھو دیا ہے ۔ دوسرا پاکستانی ریاست نے بہت سی وجوھات کی بناء پر اس میں غیر ریاستی عناصر کو بھی طاقت کے استعمال کا اختیار دیا۔
پاکستانی طالبان کو فاٹا اور خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں عملداری قائم کرنے کیلئے ڈ ھیل دینا اس کی واضح مثال ہے۔ اگر ریاستی بیانیوں اور میڈیا میں ان علاقوں کے بارے میں کنٹرول رپورٹنگ کو ایک طرف رکھ کر وہاں کے عوام سے پوچھا جائے تو یہ حقیقت آشکارا ہوجائیگی کہ کس طرح انتہائی منظم انداز میں طالبان کو ابھرنے اور عملداری قائم کرنے دیا گیا۔ غیر ریاستی عناصر نے نہ صرف اس کو ریاستی پالیسیوں کے فروغ بلکہ اپنے ذاتی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے بھی استعمال کیا۔ بہت سے کیسوں میں غیر ریاستی عناصر ریاست کی کنٹرول سے با ہر ہو چکے ہیں اور حتی کہ ریاست کی رٹ کو بھی چیلنج کرنے سے گریز نہیں کیا۔
تیسرا ریاست کی معاشرے کو کنٹرول اور ماتحت کرنے کے دیگر طریقوں کی نسبت جبر اور تشدد کی بیجا اور غیر ضروری استعمال نے بھی ریاست کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ۔ چوتھا ، ریاست کی بیرونی قوتوں پر حد سے زیادہ انحصار اور ان کی خوشنودی کی پالیسی نے بھی ریاست کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ بعض اوقات بیرونی اور اندرونی ایجنڈے یا عوامی خواہشات یا بیانیوں اور بیرونی قوتوں کے زیر اثر ریاستی بیانیوں میں بہت خلیج رہا اور اکثر متصادم رہے جس کی وجہ سے ریاست اور اس کے اداروں کو بیرونی قوتوں سے مماثل ٹھہرایا گیا ۔ اور ریاستی پالیسیوں کو عوام نے غیرملکی ایجنڈا سمجھا اور اس کو پزیرائی نہیں ملی ۔
آٹھویں اور کسی حد تک نوے کی دھائی میں سیاسی صف بندی کی بنیاد ریاست کی مخالفت یا حمایت تھی ۔ اس طرح ایک طرف ریاست کی پروردہ جماعتیں جس کو عام اصطلاح میں ایسٹبلشمنٹ نواز اور دوسری طرف ریاستی پالیسیوں کو چیلنج کرنے والی قوتیں یعنی اسٹبلشمنٹ مخالف قوتیں ہوتی تھیں ۔ یہ نظریاتی صف بندی وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ کمزور ہوئی ۔ اور اسٹبلشمنٹ نواز اور اسٹبلشمنٹ مخالف تفریق مبہم ہوئی یا مدہم پڑگئی۔ ریاست نے سیاسی مخالفت اور چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کی اندرونی کمزوریوں اور مسائل سے فائدہ اٹھایا۔
پاکستان میں ریاست کی ارتقاء دیگر ترقی پزیر ممالک کی نسبت بہت سے مشترک پہلووں کے ساتھ ساتھ کچھ انفرادی پہلو بھی رکھتا ہے ۔ اور یہی انفرادی پہلو اس کو دیگر جدید نوآبادیاتی ریاستوں سے ممیز کرتی ہے ۔ تاریخی طور پر پاکستانی ریاست کی ارتقاء میں داخلی کے ساتھ ساتھ بیرونی قوتوں کا بھی زیادہ عمل دخل رہا ہے ۔ پاکستانی ریاست کو مضبوط کرنے میں بیرونی عوامل کا رول بھی بہت اہم ہے ۔ بیرونی قوتوں نے سامراجی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے ریاستی جبر کی مشینری جیسے انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط کیا ۔ بعض اوقات وقت جب بھی سویلین ادارے ناکام ہوتے یا انکی ناکامی کا خطرہ ہوتا تو فوجی ادارے حرکت میں لائے جاتے تھے۔ اور سویلین قیادت کی نسبت فوجی قیادت کو ترجیح دی ۔
مغربی قوتوں اور ایسٹبلشمنٹ کی ایک قدر مشترک یہ تھی کہ جمہوری ادارے مستحکم نہ ہوں اور جمہوری کلچر اور اقدار مضبوط نہ ہوں ۔ مغربی قوتیں جمہوری قوتوں کی واضح سامراج دشمن کردار سے خائف تھیں جبکہ اسٹبلمشمنٹ کو اقتدار کا چسکا لگا تھا اور اقتدار کسی کے ساتھ شریک کرنے کیلئے تیار نہیں تھی۔ اس کے علاوہ مغربی قوتوں کیلئے عوامی حمایت سے محروم غیر جمہوری قوتوں سے ڈیل کرنا آسان تھا جبکہ غیر جمہوری قوتیں اقتدار کو دوام دینے کیلئے بیرونی قوتوں کی آلہ کار بننے کیلئے آمادہ رہتی تھی ۔ اور جمہوری قوتوں کو دبانے اور کمزور کرنے کیلئے سیاسی ، اقتصادی اور فوجی حمایت کی ضرورت تھی۔
اب وہی بیرونی ادارے جو ریاستی جبر کے اداروں کی مضبوطی اور سخت کنٹرول میں دلچسپی رکھتے تھی اور ریاستی اداروں کے جبر اور تشدد کو نظرانداز کرتے اس پر خاموش رہتے اب وہ اس کو کمزور کر رہے ہیں۔ ایک طرف ریاستی جبر اور شہری حقوق تصادم میں ہیں تو دوسری طرف بیرونی ایجنڈا اور داخلی ایجنڈا تضاد میں آگے ہیں ۔ مغربی قوتوں کی ترجیحات بدل رہی ہے اور پاکستان اب ان کی پہلی تر جیح نہیں رہا ۔ اس وجہ سے اب انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے حوالے سے عالمی انسانی حقوق اداروں کی پاکستان کے انسانی حقوق صورتحال کی نگرانی اور اس میں بہتری لانے کیلئے بیرونی دباؤ بڑھ رہا ہے ۔ بیرونی اداروں کی رپورٹوں میں پاکستان پر تنقید بڑھ رہی ہےاور تنقید کا لہجہ بھی سخت ہو رہا ہے ۔
اب وقت آگیا ہے کہ پاکستانی معاشرے کی مکمل اورہالنگ ہو اور انتہاپسندی کے خاتمے کیلئے زندگی کے تمام شعبوں میں بنیادی اصلاحات کا آغاز کیا جائے ۔ تمام قسم کے نصاب چاہے مدرسوں کا ہے یا سرکاری اور غیرسرکاری تعلیمی ادارے چاہے وہ سول اور فوجی اکیڈیمیاں ہوں کو ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ نفرت انگیز مواد پر کی مستقل اور کڑی نگرانی کی ضرورت ہے ۔ سماجی انصاف پر مبنی اقتصادی پالیساں وضع کرنے کی ضرورت ہے اور قانون کے احترام اور بالادستی کو یقینی بنانا ہے ۔ تمام ریاستی اداروں کو اپنے اپنے آئینی مینڈیٹ کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے کا پابند بنانا ہوگا اور بہتر طرز حکمرانی کو رائج کرنا ہے ۔ ورنہ موجودہ روش اور فرسودہ نظام کے ساتھ چلتے ہوئے تباہی اور بربادی کو ٹالنا ناممکن ہے ۔
♣