ارشد بٹ
ساری دنیا انتہا پسندی اور شدت پسندی کی لہر کی لپیٹ میں ہے۔ کرہ ارض کا کوئی حصہ اس مرض سے محفوظ نہیں رہا۔ ایشیا ہو یا یورپ، امریکہ ہو یا افریقہ کوئی خطہ بھی انتہا پسندی کی غیر انسانی ہواوں سے محفوظ نہیں۔ مختلف ممالک میں انتہا پسندی کا جنون الگ الگ اشکال میں ظاہرہو رہا ہے۔ کہیں یہ جنون مذہبی شدت پسندی کی صورت میں ابھرتا ہے تو کہیں کٹر قوم پرستی اور تنگ نظر نسل پرستی کا روپ اختیار کر لیتا ہے۔
انتہا پسندانہ سوچ کی وجوہات، اسکے ابھرنے اور پنپنے کے پس منظر سے اختلاف ہو سکتا ہے مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دنیا بھر میں مختلف اقسام کی انتہا پسندی کا زیادہ تر نشانہ مذہبی یا لسانی اقلیتیں ہی بن رہی ہیں۔ عمومی طورپر اقلیتیں کسی سماج کا زیردست، کمزوراور پسماندہ طبقہ سمجھی جاتیں ہیں۔ اقلیتوں کو نفرت، تضحیک آمیز رویوں، جارحانہ فکری اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنا کر نہ صرف انسانی قدروں کا مذاق اڑیا جا رہا ہے بلکہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کےنئے ریکارڈ قائم کئے جا رہے ہیں۔
معاشی اور سماجی ترقی میں پیچھے رہ جانے والے ممالک کی تو بات ایک طرف، نام نہاد ترقی یافتہ اور تہذیبی ترقی کی اعلیٰ سطح پر فائز سمجھے جانے والے مغربی ممالک بھی شدت پسندی کے مرض میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور دیگر مغربی ممالک میں مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے خلاف نفرت، عدم برداشت، تنگ نظری بڑھنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اس کےعلاوہ جسمانی تشدد کے واقعات میں بھی نمایاں اضافہ کی رپورٹیں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔
ایشیائی اور افریقی پس منظر رکھنے والے مسلمان اورانکی نسلیں کئی دہائیوں سے مغربی ممالک کے قانونی شہری اور ان معاشروں کا حصہ بن چکے ہیں۔ مگر آج مسلمان عقیدہ کی بنیاد پر مغربی معاشروں میں سفید فام نسل پرست اور کٹر قوم پرست گروہوں کے نفرت اور امتیازی برتاؤ کی زد میں ہیں۔
اقلیتوں کے خلاف نفرت کی لہر کی نمایاں ترین کامیابی میں ٹرمپ کا وائٹ ہاؤس تک پہنچنا بھی تصور کیا جاتا ہے۔ ٹرمپ کی طاقت کا نزلہ امریکہ میں لسانی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے، مسلم ممالک پر ویزوں کی پابندی لگا نے اور امریکہ کے کمزور ہمسایہ ملک میکسیکو پر گرتا نظر آرہا ہے۔
یورپی ممالک میں انتہا پسندوں کی الیکشن مہم کا ایجنڈا لسانی اقلیتوں اور مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد پرپیگنڈا پر مشتمل ہوتا ہے۔ نسل پرست گروہ انسانی اقدار، بنیادی انسانی حقوق، انسانی برابری اور رواداری جیسی جمہوری روایات کو روندتے ہوئے نفرت، عدم برداشت اور سفید فام اقوام کی نسلی برتری جیسےغیرانسانی اورغیر جمہوری افکار کی تشہیر کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ انسانی برابری اورانسانی حقوق کے علمبردار مغربی ممالک میں لسانی اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے منفی رحجان نے دنیا پر ان ممالک کی نام نہاد تہذیبی برتری کا پردہ چاک کردیا ہے ۔ زیردست اورمعاشی سطح پر کمزور طبقوں، خواتین اور لسانی و مذہبی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھا گیا سلوک کسی بھی معاشرے کی تہذیبی اور ثقافتی برتری یا پستی کی نشاندہی کر تا ہے۔
مغربی سرمایہ دار ممالک کومعاشی ترقی جاری رکھنے کے لئے افرادی قوت کی کمی ایشیا، افریقہ اورلاطینی امریکہ کے ممالک کے محنت کشوں کو درآمد کر کے پوری کرنی پڑتی ہے۔ گذشتہ صدی سےتیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک سے مغربی سرمایہ دارانہ نطام کو توانا رکھنے کے لئے محنت کش فراہم ہوتے رہے ہیں۔ کئی دہائیوں سےغیر سفید فام قومی پس منطر رکھنے والے محنت کش اور انکی نسلیں مغربی ممالک کا حصہ اور قانونی شہری کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔
اب مغربی ممالک سفید فام نسلی اور ثقافتی معاشرے نہیں رہے بلکہ کثیرالاثقافتی و نسلی معاشروں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ نسل پرست اور کٹر قوم پرست گروہ اور افراد اس تبدیلی کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ لسانی اورمذہبی اقلیتوں کو معاشرے کا حصہ نہ سمجھنا ان معاشروں کا غالب فکری رجحان بن چکا ہے۔ منفی اور نفرت بھری سوچ، شدت پسند قوم پرستانہ اور نسل پرستانہ رجحان کے خلاف سیاسی جماعتیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں، ثقافتی و ادبی انجمنیں اور دانشور مسلسل جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔بھارت میں حالیہ سیاسی تبدیلیوں کے بعد مذہبی اقلیتیں، خصوصاً مسلمان، ہندو انتہا پسند قوم پرستوں کے نشانے پر ہیں۔ تیزی سے بڑھتا ہوا ہندو قوم پرستانہ رجحان بھارت کی سیکولر جمہوریت کے لیے باعث تشویش ہے۔
بدھ مت کے پیروکارامن اور محبت کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں۔ مگر برما میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف اس مذہب کے پیروکاروں کے انسانیت سوز مظالم نے بدھ مت کے پیروں کاروں کے دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ بدھ مت کی مذہبی انتہا پسندی دیگرمذاہب کے انتہا پسندوں سے کسی طرح بھی الگ نہیں ہے۔
مسلم ممالک میں نہ صرف غیر مسلم اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہیں بلکہ اقلیتی مسلم فرقے بھی اکثریتی مسلم فرقہ کی زیادیتوں سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ پاکستان میں مسیحی اور ھندو اور انکی عبادت گاہیں کئی بار شدت پسندوں کے حملوں کا نشانہ بن چکی ہیں۔ دہشت گرد حملوں میں سینکڑوں مسیحی اور ہندو جان بحق ہو چکے ہیں۔ سینکڑوں شیعہ اور احمدی بھی دہشت گردوں کی ٹارگٹ کلنگ میں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
بنگلہ دیش سے بھی غیر مسلم اقلیتوں کے خلاف انتہا پسندوں کی کاروائیوں کی اطلاعات اخبارات میں رپورٹ ہوتی رہتی ہیں۔ عراق میں غیر مسلم یزیدی قبائل پر داعش کی خونی یلغار کی خبریں تو عالمی ضمیر کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں رہی۔ سعوی عرب میں شیعہ امام بارگاہوں پر آئے دن حملے ہوتے رہتے ہیں۔ ایران میں مسلم اہل سنت اقلیت کے خلاف کاروائیوں کی بھی ایک تاریخ ہے۔ ترکی میں کردوں کی نسل کشی اور انکے قومیتی حقوق سے محرومی ایک تاریخی حقیقت ہے۔ مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں مخصوص مذہبی فکری رجحان کےعلاوہ کسی دوسرے مسلم فکری رجحان کو سر اٹھانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ یہ معاشرے ایک مخصوص انتہا پسند مذہبی فکر اور ریاستی نظام کی شکل میں اپنی مثال آپ ہیں۔
ایک مذہب کے پیروکار دوسرے مذہب کے ماننے والوں پر مظالم ڈھانے میں مصروف کار ہیں۔ ایک مذہب کا پیرو کار اگر کسی معاشرے میں اقلیت میں ہے تو وہ اکثریتی مذہب والوں کےہاتھوں غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ اکثریتی مسلم معاشرے کا مسلم انتہا پسند اگر اقلیتی ہندو کا دشمن ہے تو اکثریتی ہندو معاشرے کا انتہا پسندہندو بھی پیچھے نہیں۔ ایسا ہی سلوک دیگر مذاہب کے انتہا پسند ایک دوسرے سے روا رکھے ہوئے ہیں۔ جو جہاں اکثریت میں ہے وہ اپنی عددی برتری کی طاقت کے سہارے اقلیتوں کے حقوق غصب کرنے کو اپنا مقدس حق سمجھتا ہے۔
مذہبی شدت پسندوں، کٹر قوم پرستوں اور انتہا پسند نسل پرستوں کے ہاتھوں مذہبی اور لسانی اقلیتوں کے خلاف کاروائیاں اور انسانی قدروں کی پامالی ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس نے انسانی تہذیب اور ترقی پرایک بہت بڑا سوال کھڑا کر دیا ہے۔
♠