علی احمد جان
چیدن ہراۓ کیمپ میں پہنچ جانے کے بعد ہر شخص کو اپنے خیمے کو کسی ایسی جگہ تنصیب کرنے کی فکر لگی رہی جہاں سے التر کی چوٹیاں، لیڈی فنگر، اور ساتھ ہی افق پر ہر جگہ سے گول گول مگر اس مقام سےکسی تیز دھار چاقو کی مانند بالکل مختلف نظر آنے والے راکاپوشی کا فلک بوس پہاڑ ہر وقت نظروں کے سامنے رہے۔ جارج، عائشہ اور عدنان کے خیمے سامنے لگاۓ گیٔے اور کچھ فاصلے پر میں نے اور ایاز نے اپنے خیموں کو نصب کیا اور ہمارے پیچھے حسن، سکھیرا اور سعید نے اپنے خیموں کا بندوبست کیا۔
ہم یہاں دن کے گیارہ بجے پہنچنا شروع ہوئے تھے اور اب سارا دن ہم تھے اور پہاڑوں کے نظارے۔ کچھ دوستوں کو انچائی کا اثر ہوا اور طبیعت خراب ہوگئی جو تومرو کے قہوے اور کچھ دیر آرام کرنے کے بعد سنبھلنے لگی۔ چاۓ اور کھانے کے بعدہمارے ساتھ آنے والے معاونین کے ساتھ خوش گپوں میں مصروف ہو گئے اور ہم نے دوپہر کو سونے کی کوشش کی مگر ایسا لگا کہ باہر کوئی چیز رہ گئی ہو اور اگر ہم سو گئے تو وہ چوری ہو جاۓ گی ۔
آنکھ نہ لگی تو اٹھ کر خیمے کا پردہ ہٹا دیا اور پہاڑ وں کے دلکش نظارے دیکھتے رہے۔ اس دوران کریم یہ خبر لایا کہ رش جھیل کی جانب جانے والے درٌے میں تاحال بہت برف پڑی ہوئی ہے اور وہاں سے گزرنا ممکن نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اس سال برف دیر سے پڑی تھی جس کا جون تک پگھلنا ممکن نہ تھا۔
میں اور جارج نے جو رش جھیل اور ساتھ کی رش چوٹی سر کرنے کے لیٔے بے تاب تھے خود ہی جائزہ لینے کا فیصلہ کیا اور دائیں جانب کی پہاڑی پر چڑھ گئے تاکہ دیکھا جا سکے کہ برف سے ڈھکے درے کو پار کرنا ممکن ہے کہ نہیں ۔ برفانی درے کو پار کرنا تو ممکن نظر نہ آیا مگر ہمیں اپنے بالکل سامنے دستگیر سر کی بلند و بالا و فلک بوس چوٹیاں نظر آئیں جن پر دن کے آخری پہر کے سورج کی کرنیں پڑ کر ان کی سفید چادر کو سنہری کر رہی تھیں۔ ہم حسرت سے شمال میں اپنی خوابوں کی منزل رش چوٹی کی سمت دیکھتے رہے اور سوچتے رہے کہ موسم صاف ہو تو وہاں سے دنیا کے دوسرے نمبر کی اور خوبصورت اہرام کیوجہ سے یکتا کے۔ٹو کی چوٹی کیسی نظر آتی ہوگی ۔
اس حسرت و یاس میں ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ صبح کم از کم ہمارے سامنے کھڑی برفانی درے کے ساتھ والی چوٹی پر چڑھ کر فاتحین میں نام لکھوایا جاسکے ، اس کےلئے ہمیں صبح سویرے چار بجے اٹھ کر کوشش کرنی تھی تاکہ سورج کی کرنوں کی تپش سے برف پگھل کر پاؤں پھسلا دینے والی ہونے سے پہلے اپنا کام مکمل کیا جاسکے۔ رات کو کھانے کے بعد ہمارے ساتھ آنے والے معاونین نے مقامی دھنوں پر رقص سے محفل لوٹ لی۔ ۴۳۰۰ میٹر کی بلندی پر چاندنی رات کو فلک بوس برف کی سفید چادر اوڈھے پہاڑوں کے دامن میں دھکتی آگ کی لو ہو ،دوستوں کی محفل ہو، موسیقی ہو، ناچ ہو تو ہمارا ریکارڈ نہیں کہ ہم نہ ناچے ہوں ۔ رات ایک بجے ہم نے سونے کی کوشش کی مگر دیگر دوستوں نےَ توکیچھ میری فوٹوَ کی تال پر صنوبر کی خشک لکڑی کی آگ کے آخری انگارے کے بچنے تک محفل جاری رکھی۔
صبح جارج نے چاۓ کا کپ ہاتھ میں تھامے مجھے جگایا اور کہنے لگا یہاں تو صبح جلدی ہو جاتی ہے اور اب دھوپ پڑنے والی ہے لو چاۓ پیو اور تیاری کرو ا پر جانا ہے ْ ۔ میں نے شکریے کے ساتھ کپ جارج کے ہاتھ سے اٹھایا چاۓ پینے کے بعد نمبر دار ٹینٹ ( سیاحت سے وابستہ مقامی لوگ رفع حاجت کے عارضی ٹینٹ کو نمبر دار ٹینٹ کہتے ہیں ) کا ایک چکر لگایا اور جوتے پہننے کے بعد ہم روانہ ہوۓ۔ ہم نے بایٔیں طرف کی چوٹی سے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور جب ہم اوپر پہنچے تو سورج طلوع ہو چکاتھا اوربرف پگھلنے لگی تھی جو اپنے ساتھ مٹی ملا کر زمین پر پھسلن پیدا کرکے آگے بڑھنے نہیں دے رہی تھی۔
مایوس ہو کر ہم نے وہیں سے مایار کی چوٹی ، ہوپر کی چوٹی اور راکاپوشی کا نظارہ کیا جو صبح سویرے سورج کی پہلی پہلی کرنوں کے ساتھ نہایت حسین لگ رہی تھیں۔ ہم نے انگریزی زبان کی ایک کہاوت کے مطابق کہ جب تک پہاڑ یہاں ہے آپ دوبارہ آ سکتے ہیں یہ وعدہ کیا کہ رش کی جھیل اور چوٹی کے لئے دوبارہ ہسپر کی وادی سے پھر آیئں گے واپس اپنے خیموں کی راہ لی۔
خیمے اکھاڑلیے گئے اب آگے بڑھنے کا سلسلہ ختم کرکے واپسی کی تیاری شروع ہو گئی ، اسی دن سیدھے ہوپر گاؤں اور اس کے بعد کریم آباد پہنچنے کا فیصلہ کیا اور واپسی کی راہ لی۔ دھوپ نکلی ہوئی تھی ارد گرد کے نظارے آنکھوں کو خیرہ کیے دے رہے تھے۔ چار ہزار تین سو میٹر پر آہستہ آہستہ چلنے والی سانسیں ہر اترتے قدم کے ساتھ بحال ہو رہی تھیں اور قدموں کی رفتار بھی تیز ہونے لگی تھیں ۔ ہم سب اسی جگہ پہنچ گئے جہاں سےچیدن ہرائی کی طرف عمودی اترائی شروع ہوجاتی ہے۔ جب اس عمودی پہاڑ سے اترے لگے تو معلوم ہوا کہ جتنا پہاڑ چڑھنا مشکل ہے اتنا ہی اترنا ۔
عائشہ تنظیم کو اس کے ایک گھٹنے کی کسی رگ کی سوجن کیوجہ سے چڑھائی چڑھنے اور اور اترائی اترنے میں ان کے ڈاکٹر نے خبردار کیا تھا وہ بہت احتیاط برت رہی تھیں۔ دونوں ہاتھوں میں لاٹھیاں پکڑے اور بالکل آہستہ چال کے ساتھ وہ تقریباٌ ایک ہزار میٹر کی اترائی میں کافی محتاط تھیں، میں ان کے ساتھ ہی رہا ۔ سعید شاہ اپنے ایک معاون خصوصی کے ساتھ سب سے آخر میں چل رہے تھے ان سے آگے سیالکوٹ کے خواجہ حسن اور امین سکھیرا تھے۔ جارج سب سے پہلے بیس کیمپ یعنی چیدن ہراۓ پہنچ چکے تھے اور ایاز ان کے ساتھ ہی تھے۔ عدنان کو بھی پہاڑ اترنے میں دقت پیش آرہی تھی اس لیٔے عائشہ کے مخصوص معاون کو ان کے ساتھ کردیا گیا تھا۔
جب ہم چیدن ہراۓ پہنچے تو گرم گرم چاۓ، بسکٹ اور سوپ تیار تھا۔ اس عمودی اترائی نے کافی لوگوں کو توقع سے زیادہ تھکا دیا تھا اور اب آسمان پر بادل بھی آگئے تھے۔ مزید سفر جاری رکھنے کے پہلے کا فیصلہ معطل کرکے یہاں رات گزارنے کا فیصلہ ہوا اور خیمے لگا دیٔے گئے ۔ کھانا کھانے ، سستانے کے بعدجارج، ایاز، عدنان، عائشہ اور میں اپنے راہنما جاوید کے ساتھ سفید رنگ کے زنانہ گلیشیٔر کو دیکھنے چلے گئے جبکہ دیگر لوگوں نے کیمپ میں رہ کر شام کے کھانے کےلیٔے ایک بکرے کے انتظام کا فیصلہ کیا۔
جب ہماری ٹولی واپس پہنچی تو خواجہ حسن چہک رہے تھے پتہ چلا کہ کشمیری خواجہ کو دراصل انچاٰئی کی بیماری کا نہیں بلکہ گوشت کے عدم دستیابی کا اثر ہوا تھا جو بکرے کے ذبح ہوتے ہی بالکل ٹھیک ہو چکا تھا اور وہ چہک چہک کر بکرا کاٹنے والوں کو ٹھیک ٹھیک بوٹیاں بنانے کی ہدایات دے رہے تھے۔ ہمارے ساتھ ہی ایک اور خیمے کا اضافہ ہو چکا تھا جو آسٹریا سے تعلق رکھنے والے دو مہم جؤوں کا تھا۔ سعید شاہ نے ان سے علیک سلیک کی تھی اور شام کے کھانے پر مدعو بھی کیا تھا۔
وہ مہم جو جارج کے ہم وطن ہی نہیں بلکہ ایک ہی جگہ کے نکلے۔ ایک کی عمر باسٹھ اور دوسرے کی اکیاؤن برس تھی دونوں کئی برسوں سے مہم جوئی کے لئے پاکستان آرہے تھے ۔ اس دفعہ ان میں سے ایک کسی حادثے کا شکار بھی ہوا تھا اور کئی فٹ تک برف میں دھنسنے اور اپنے سر کو پھوڑدینے کے بعد بھی بغیر کسی ہسپتال میں وقت ضائع کئے مہم جاری رکھے ہوئے تھا۔ شام کو ان نئے دوستوں کو بھی کھانے پر مدعو کیا اور دیر رات گئے ان سے گپ شپ رہی ۔ صبح سویرے اٹھ کر ان دوستوں سے اجازت لیکر ہوپر کی جانب روانہ ہوۓ جہاں واپسی کے جیپیں ہماری منتظر تھیں۔
♦
حصہ اول
پریوں کے دیس میں۔1
حصہ دوم