انفرادی ارادے اور جاری بیانیےکے درمیان تعلق کا مطالعہ
تیسری قسط ۔ کہانی کو تجربہ بنانا
کہانی میں ایک اہم عنصر تشبیہاتی تصوّرات ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر کوچوان کی کہانی میں اس کے بیٹے کی موت اچانک ہو جاتی ہے۔ واضح رہے کہ کوئی بھی حادثہ یا غمناک واقعہ ، خواہ اس کے آثار پہلے سے موجود ہوں،پھر بھی اسے قبول کرنا بڑا دشوار ہوتا ہے۔ جب ایسا واقعہ ہو جائے تو ایسا ہی لگتا ہے کہ جیسے یہ سب آناََ فاناََ ہو گیا ہو۔ اس صورتحال کو تشبیہاتی انداز میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ بچّہ مجھ سے اس طرح بچھڑ گیا جیسے مٹھی میں پکڑی ریت پل بھر میں پھسل جاتی ہے۔ لورکا ایک ہسپانوی شاعر اور ڈرامہ نگار نے ماں کے پیٹ میں پلتے، جیتے جاگتے بچّے کا ماں کوجو احساس ہو تا ہے اس کے بارے میں لکھا ہے:’’ کیا آپ نے کبھی اپنے ہاتھوں میں ایک جیتا جاگتا کبوتر پکڑا ہے؟ آپ نے اپنے ہاتھوں میں اس کی گرمائش اور دل کی دھڑکن ضرور محسوس کی ہوگی۔ جب بچہ ماں کے پیٹ میں پل رہا ہوتا ہے تو ایسا ہی احساس ماں کے پورے جسم میں بہہ رہا ہوتا ہے‘‘۔
تشبیہات کی مدد سے کسی بھی ناقابل بیان تجربے کے احساس کو بیان کیا جاسکتاہے اور اسے ممکنہ طور پر گہرائی ملتی ہے۔ ان کی مدد سے کسی بھی تجربے کو معانی ملتے ہیں۔ اس سے کہانی کی تاثیر بڑھتی ہے۔ تشبیہ دراصل کسی بھی زبان میں ممکنہ طور پرابلاغ کا ذریعہ بنتی ہے اور یہ کم سے کم الفاظ میں وسیع تر معانی پیدا کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
کہانی میں کسی معاملے کو محض سمجھنا یا سمجھانا مقصود نہیں ہوتابلکہ اسے ایک تجربے میں تبدیل کرناہی اولین ہدف ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر چیخوف کی شہر میں آئے اس بچّے کی کہانی کو لیں جو سخت اذیّت میں زندگی گزار رہا ہے ۔ کہانی میں بچّے کے شہر میں آنے کے اسباب اور شہر میں اس پر کیے جانے ظلم پر عمرانی جائزہ لکھنا مقصد نہیں جسے قاری پڑھ کر اس دور کے اقتصادی مسائل اور شہری زندگی کے بارے میں سمجھ لیں۔ چیخوف نے ان سب باتوں کو یقیناََ محسوس کیا ہوگامگر وہ اس تبدیلی کے عمل کو ایک انسانی تجربہ بنانا چاہتا تھا۔
اسی طرح اگر آپ سے پوچھا جائے کہ جنگل کیا ہوتا ہے تو آپ بتائیں گے کہ جنگل ایسی جگہ ہے جہاں بہت سے د رخت ہوتے ہیں۔ بہت سے پودے، جڑی بوٹیاں اور بیلیں ہوتی ہیں۔ جنگل میں طرح طرح کے جانور ہوتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ آپ کو جنگل پر بنی ایک دستاویزی فلم بھی دکھا دیتے ہیں۔آپ ان وسیلوں سے جنگل کے تصور کے بارے میں تو ضرور سمجھ جائیں گے مگر یہ بات طے ہے کہ آپ کی شخصیت یا دماغ پرایک تجربے کے طور پر کوئی اثر نہ ہوگا۔ یہ تجربہ ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی کسی تاریخی عمارت کے سامنے کھڑا ہو کر تصویر بنوا لے۔
اگر آپ صحیح معنوں میں کسی جنگل میں جائیں توآپ ایک بھر پور تجربے سے گزریں گے۔ اس سے آپ کی جنگل کے بارے میں سمجھ بھی بہتر ہوگی۔ ۔۔ درخت ہی درخت، ایک سائبا ن کی طرح آسمان کو ڈھکتے درخت اور ان میں سے چھن چھن کر آتی روشنی، جنگل کے فرش پر جزیرے بناتی روشنی۔۔۔ لکڑی کی خوشبو، سیلن کی مخصوص مہک، پرندوں کی آوازیں، جسم میں جذب ہونے والا سنّاٹا، ایک انجانا سا خوف کہ ابھی کسی جانور سے آمنا سامنا ہو جائیگا۔ڈھلانی راستوں پر چڑھنے اور اترنے سے پسینہ آنا اور سردی میں بھی پسینے کی خوش کن ٹھنڈک۔۔۔یہ سب مل کر آپ کے دماغ میں جنگل کے تجربے کا ایک خواب جیسا تصوّر پیداکریں گے۔ اس کا لطف ساری زندگی ایک انمٹ نقش کی طرح آپ کے ساتھ رہے گا۔
کہانی کو تجربے میں تبدیل کرنے کے لیے کچھ علامات اور تصورات اجتماعی اور انفرادی نفسیات میں مخصوص جذباتی بہاؤ کا باعث بنتے ہیں۔ کہانی میں ایسے تصورات و علامات کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ مثال کے طور چیخوف کی ایک کہانی اس کی بہترین مثال ہے جس میں ایک چھوٹا سا بچہ شہر میں آکر سخت تکلیف دہ گزارنے پر مجبور ہے۔وہ یتیم ہے اور اس کی پرورش اس کا دادا کر رہا تھا۔ دادا اسے شہر بھجوا دیتا ہے تاکہ وہ کوئی تکنیکی کام سیکھ لے ۔اس دور میں ایساکام سیکھنے کے لیے کسی بچے کو استاد کے گھر چوبیس گھنٹے رہنا ہوتا تھا۔ استاد بچے سے گھر کا ہر کام کرواتا تھا۔ یہ ایک لحاظ سے غلامی ہی ہوتی تھی۔ بچّہ اپنی زندگی کی دکھ بھری کہانی اپنے دادا کو ایک خط میں لکھ بھیجتا ہے۔ آخر نامکمل پتہ لکھ کر اسے لیٹر بکس میں ڈال دیتا ہے۔ بچّے کے گرد بُنی یہ کہانی انسانی صورتحال میں اندو ہ کا عنصر بڑھادیتی ہے۔ اس کہانی کا آخری حصّہ ملاحظہ کریں:
’ بھیرو نے پھر لکھا:۔
’’پیارے دادا جان، آپ فوراً چلے آئیں اور مجھے یہاں سے لے جائیں۔ میں بدنصیب یتیم ہوں اور خدارا مجھ پر رحم کریں۔ یہ لوگ ہر وقت مجھے مارتے رہتے ہیں اور میں ہمیشہ بھوک سے تلملاتا رہتا ہوں۔ میرا برا حال ہے اور میں ہر وقت روتا رہتا ہوں۔ایک دن استاد نے میرے سر پر لوہے کا اوزار مارا۔ میں گر پڑا اور مجھے لگا کہ اب میں کبھی اٹھ نہیں پاؤں گا۔ میں آپ کو کیسے بتاؤں کہ میری زندگی کتوں سے بھی بدتر ہے۔ آپ میرا سلام ان لوگوں تک پہنچانا جو آپ کے ساتھ کا م کرتے ہیں۔ خاص طور پر میری امی کی سہیلی کو میرا بہت بہت سلا م کہنا۔ اور ہاں، میری اس حالت کے بارے میں آپ کسی سے کچھ نہ کہنا۔ آپ کا پوتا، بھیرو۔۔۔ دادا جلد آنا۔۔۔‘‘۔
بھیرو نے کاغذ کے ٹکڑے کو تہہ کیا۔ اسے لفافے میں ڈالا جو اس نے ایک روز پہلے خریدا تھا۔ پھر وہ سوچنے لگا۔ اس نے قلم، سیاہی کی دوات میں ڈالا۔ اپنا سر کھجایا اور لفافے کے اوپر لکھا:۔
’’پیارے دادا جان‘‘
وہ پھر سوچنے لگا اور قلم سے سر کھجانے لگا۔ اس نے پھر لکھا۔
’’فتح محمد۔ گاؤں‘‘
بھیرو خط لکھنے کے بعد بہت خوش تھا کیونکہ اسے کسی نے بھی خط لکھنے سے منع نہ کیا تھا۔ اس نے سر پر ٹوپی پہنی۔ خط لیا اور چادر اوڑھے بغیر شدید سردی میں، گلی میں بھاگ نکلا۔
بھیرو کو قصاب کی دکان پر لوگوں کی باتوں سے معلوم ہوا تھا کہ خطوں کو لیٹر بکس میں ڈالا جاتا ہے اور پھر وہاں سے خط ہر شہر اور گاؤں میں پہنچا دیے جاتے ہیں۔ بھیرو، بھاگتا ہوا، ایک لیٹر بکس تک پہنچا اور اس نے یہ نہایت اہم خط اس میں ڈال دیا۔
بھیرو گھر واپس آیا۔ اس کے دماغ میں خوشیوں کی اُمیدیں تھیں۔ انہی اُمیدوں کی لوری سے وہ فوراً گہری نیند سو گیا۔ اس نے خواب دیکھا۔ اس کادادا، چولہے کے پاس بیٹھا اپنا دایاں پاؤں ہلا رہا ہے۔ دادا کے ہاتھ میں بھیرو کا خط ہے اور وہ باورچی خانے میں موجود دیگر لوگوں کو سنا رہا ہے۔ موتی بھی وہاں بیٹھا ہے اور چپ چاپ اپنی دم ہلا رہا ہے۔
(یہ اقتباس بچوّں کے لیے چیخوف کی کہانی کے اردو ترجمے سے لیا گیا ہے ۔ اس ترجمے میں بچوں کی آسانی کے لیے نام تبدیل کر دیے گئے تھے۔)
بچے، معصومیت اور بے بسی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔اسی کہانی میں بچے کا اپنے دکھ بھرے خط پر نامکمل پتہ لکھنا بچے کی معصومیت کو تو بڑھاتا ہے، ساتھ ہی اس کی زندگی کی صورتحال کو زیادہ گمبھیر بنا دیتا ہے۔ یعنی یہ کہ اس کی زندگی کا واحد سہارا، اس کا دادابھی اس کی مدد نہیں کرسکے گا۔ بچے کو اس صورتحال کا اندازہ نہیں، وہ یہی سمجھتا ہے کہ اس نے خط لکھ دیا ہے اور اس کو عنقریب اس کے دکھ سے رہائی مل جائے گی مگر قاری بخوبی جانتا ہے کہ بچہ یہ سب معصومیت میں کر رہا ہے۔ اس طرح یہ سب صورتحال اور بچے کی علامت کہانی کو ایک کامیاب تجربے میں تبدیل کردیتی ہے۔
ہلاکو خان یا چنگیز خان کی جنگی کارگزاریاں اس دور کے دیگر بادشاہوں سے مختلف نہ تھیں۔تا ہم، ہلاکو خان کی کہانی ان بادشاہوں نے لکھوائی جو اس کے حملوں میں ہزیمت اٹھا چکے تھے۔ ان کہانیوں کا مقصد اس کی بربریّت کے تائثر کو بڑھانا تھا۔ اس کہانی میں بھی ایک ننھے بچے کو ایک علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شہر سے اس کا لشکر گزر رہا تھا۔ وہ لشکر کے آگے آگے گھوڑے پر سوار چل رہا تھا۔ شہر میں افراتفری تھی اور ایک جان بچاتی عورت کا دودھ پیتا بچہ راستے میں گر گیا۔ ہلاکو خان نے بچے کی طرف دیکھا اور اسے اس پر بڑا ترس آگیاکیونکہ بچہ اس کے پیچھے آتے لشکر کے تلے کچلا جا سکتا تھا۔ اس نے اسے اپنے نیزے کی انی پر اٹھاکر راستے سے ہٹا دیا۔
روایتی معاشروں میں عورتوں کو مردوں کی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ اس تصور کی جڑیں قدیم قبائلی معاشرے میں ہیں۔ جو عورتیں قبائلی ملکیت میں آجاتی تھیں، ان پر لازم تھا کہ وہ صرف اسی قبیلے کے مردوں کے بچے پیدا کریں۔ اس روایت کو کسی قسم کے انحراف سے محفوظ بنانے کے لیے اسے فرض قرار دے کر مقدس بنا دیا گیا۔جس طرح کسی کی ملکیت پردخل اندازی قبول نہ تھی اسی طرح عورت کی ملکیتی حیثیت میں مداخلت کو قبیلے کی عزت کا مسئلہ بنا دیا گیا۔ جس طرح قبیلے کے ایک فرد کا قتل پورے قبیلے کے لیے مسئلہ بن جاتا تھا، اسی طرح قبیلے کی نسل کو خالص رکھنے والی عورت بھی قبیلے کی اجتماعی عزت کی نمائندہ بن گئی۔
اسی تناظر میں قبیلے کے کسی فرد کاقتل یا عورت کی جنسی توہین کا بدلہ قبیلے کے تحفظ کے لیے لازم تھا۔ عورت کی زندگی میں نسل بڑھانے کا پہلواجتماعی مسئلہ بن گیا اور عورت کا اس معاملے پر نجی اختیار ختم ہو گیا۔ اسی مناسبت سے غیرت اوراجتماعی عزت کا تصور پیدا ہوا۔ تاریخ میں اسی معاملے کو لے کر ایک گروہ دوسرے گروہ کو نیچا دکھانے کے لیے اس کی عورتوں کی جسمانی یا جنسی تذلیل کرتا رہا۔ آج کل اسی حربے کو جنگی حکمتِ عملی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ایسے واقعات مخصوص جذباتی اور اجتماعی بے عزتی یا شرمندگی کا باعث بنتے ہیں۔
♦
One Comment