آصف جاوید
کینیڈا ایک عظیم ملک ہے۔ اِس عظیم ملک میں دنیا بھر کے 193 ممالک اور 40 سے زیادہ مذاہب سے تعلّق رکھنے والے باشندے ، بلا امتیاز مذہب وعقیدہ، رنگ و نسل ، زبان اور ثقافت مساوی شہری حقوق اور لامحدود آزادیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہی کینیڈا کے آئین کے نفسِ ناطقہ اجتماعیت (پلورل ازِم) کی اصل روح ہے۔ معاشرتی اور ثقافتی تنوّع ،کینیڈا کی ترقّی ، فلاح اور معاشی خوشحالی کی اساس ہے۔
کینیڈا کی سلامتی اور خوشحالی کا راز اس کے عظیم فلسفہ ِ اجتماعیت، برداشت، رواداری، باہمی احترام، اور ثقافتی تنوّع میں پنہاں ہے۔ یہاں کسی بھی قسم کے فوبیا ، امتیاز اور تعصّب کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسلامو فوبیا کی بھی کوئی جگہ نہیں ہے، اور کینیڈا میں اسلامو فوبیا کا کوئی وجود بھی نہیں ہے۔ مگر خدا جانے کینیڈا کو کس کی نظر لگ گئی ہے کہ ترکِ وطن کرکے آنے والوں اور پناہ گزیں مسلمانوں کے ایک فاشسٹ گروہ نے کینیڈا میں اسلامو فوبیا کی موجودگی کا راگ الاپ کر، کینیڈا کا سکون برباد کرکے رکھ دیا ہے۔
اسلامو فوبیا دراصل ایک انگلش ٹرمنالوجی ہے، جس کےاردو معنی اسلام اور مسلمانوں سے خوف کھانا یا ان سے نفرت کرنا ہیں۔ سنہ، 2015 کے فیڈرل الیکشن میں لبرل پارٹی آف کینیڈا کے ٹکٹ پر ایرِن مل ، مسی ساگا ، کینیڈا کی ایک رائڈنگ سے منتخب ہونے والی ممبر پارلیمنٹ اقراء خالد، 1990 میں اپنے والدین کے ہمراہ ترکِ وطن کرے ، کینیڈا آئی تھیں۔ اقراء خالد نے کینیڈا میں تمام تعلیم حاصل کی ہے، کینیڈا کی یارک یونیورسٹی سے کرمنالوجی اور پروفیشنل رائٹنگ میں ڈگری حاصل کی ہے۔ اس کے بعد امریکہ کے ایک لاء اسکول سے مزید تعلیم لی ہے۔
اقراء خالد کے والدین کا تعلّق پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل رُکن پور سے ہے۔ اقراء خالد کے والد کے رابطے اور سرگرم تعلّق جماعتِ اسلامی پاکستان سے بتائے جاتے ہیں۔ اور وہ کمیونٹی میں ہونے والی سماجی اور سیاسی سرگرمیوں میں اقراء خالد کے ساتھ سائے کی طرح چپکے رہتے ہیں۔ اکثر ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کمیونٹی میں ہونے والی تقریبات میں اگر کوئی کینیڈین اقراء خالد سے کوئی گفتگو یا سوال کرےتو موصوف اکثر گفتگو میں نہ صرف شامل ہوجاتے ہیں، بلکہ اپنا موقّف بھی بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ممبر پارلیمنٹ اقراء خالد نے پچھلے سال دسمبر ، 2016 میں پارلیمنٹ میں ایک پرائیویٹ ممبر موشن نمبر 103 جمع کروائی تھی، جس میں اقراء خالد نے دعوی‘ کیا تھا کہ کینیڈا میں مسلمانوں کو امتیازی سلوک، نفرت اور اسلاموفوبیا کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، لہذا قانون سازی کرکے اسلاموفوبیا کو قابلِ نفرت جرم قرار دے کر اسلام اور مسلمانوں سے جڑے کسی بھی معاملے پر تنقید اور اور مذمّت کا ہر دروازہ بند کردیا جائے۔ 23 مارچ ، سنہ 2017 کو معمولی سی بحث کےبعد یہ موشن 91 ووٹوں کے مقابلے میں 201 ووٹوں سے منظور ہوگئی، واضح رہے کہ رائے شماری کے وقت اسمبلی میں موجود مسلمان ممبرز پارلیمنٹ کی کل تعداد صرف گیارہ تھی، باقی سارے ووٹ غیر مسلموں کے تھے۔
حیرت اس بات کی ہے، کہ اقراء خالد جس رائڈنگ سے منتخب ہوئی ہیں ، اس میں صرف 13 فیصد مسلمان رہتے ہیں اور ان مسلمانوں کی آدھی سے زیادہ تعداد نے اقراء خالد کے مدِّ مخالف کنزرویٹِو پارٹی کے امیدوار کو اپنا ووٹ دیا تھا۔ اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ اقراء خالد کو 13 فیصد مسلمانوں نے اپنے ووٹ دئے پھر بھی اقراء خالد 87 فیصد غیر مسلم کینیڈین ووٹ لے کر ممبر اسمبلی منتخب ہونے کے بعد بھی اسلاموفوبیا، اور مسلمانوں سے امتیازی سلوک کا شکوہ کررہی ہیں۔ اگر کینیڈا میں اسلامو فوبیا کا کوئی وجود ہوتا تو کیا 13 فیصد مسلمان ووٹوں سے اقراء خالد ممبر اسمبلی منتخب ہوسکتی تھیں؟۔
کیا یہ کینیڈینز کی فراخ دلی، روا داری، اور عدم تعصّب کے عظیم رویّے کی توہین نہیں ہے؟
اگر کینیڈا میں اسلامو فوبیا کا کوئی وجود ہوتا تو کیا گیارہ مسلمان اسمبلی کے ممبر بن سکتے تھے؟
کیا دنیا میں پناہ گزیں مسلمانوں کی سب سے بڑی تعداد کینیڈا میں پناہ حاصل کرسکتی تھی؟
کیا پاکستان کے ستائے ہوئے احمدی مسلمان کینیڈا میں آزادی سے رہ رہے ہوتے؟
کینیڈا میں اسلامو فوبیا کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو پوری دنیا میں مسلمان سب سے زیادہ کینیڈا میں محفوظ اور خوش حال نہ ہوتے۔ مذہبِ اسلام کو کینیڈا سے کوئی خطرہ نہیں، مگر کینیڈا کو انتہا پسند مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی جنونیت سے خطرہ ہے، بہیمانہ اسلامی شریعت سے خطرہ ہے، اسلامی فاشزم سے خطرہ ہے۔
کینیڈا وہ عظیم ملک ہے جس نے اپنے باشندوں کو تمام تر انسانی حقوق اور تحفظ کے ساتھ ساتھ اظہار رائے کی مکمل آزادی دی ہوئی ہے اور یہ وہ نعمت ہے، جس کی قدر اور قیمت کا احساس میں ہی نہیں، بلکہ ہر با شعور کینیڈین بخوبی کر سکتا ہے ۔ سوائے انکے جنہیں پاکستان سے بھاگ کر پناہ لینے تو کینیڈا آنا پڑا تھا، مگر پناہ ملتے ہی انھیں یہاں کی آزادی کھٹکنے لگی اور پھر اسی کال کوٹھری کی یاد ستانے لگی۔
یہاں ایک طبقہ فکر ایسا ہے ، جو پاکستان سے جان بچا کر کینیڈا آیا تھا، اور اب کینیڈا کو پاکستان جیسا جہنّم بنانے کے لئے تڑپ رہا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں آزادیِ اظہار کی نعمت سے کراہت ہوتی ہے۔ ان کا مذہب اتنا مقدّس ہے کہ اگر کوئی سوال یا تنقید کرے تو، یہ اسے توہینِ مذہب قرار دے کر اسلاموفوبیا کا روناشروع کردیتے ہیں۔ لڑنے مرنے پر تیّار ہوجاتے ہیں۔ کینیڈا کے قوانین کی بے حرمتی کرتے ہوئے، پبلک ایوینٹ میں سوال کرنے والی خواتین کو شٹ اپ کراتے ہیں، ان کو دھکّے دے کر نکالتے ہیں، اور انکی تذلیل کرتے ہیں۔
میں یہاں اتوار 9 اپریل کو مسی ساگا کینیڈا میں ہونے والی “وائس آف کینیڈا فورم” کی ایک پبلک میٹنگ کی وڈیو شیئر کررہا ہوں ، جس میں ممبر پارلیمنٹ اقراء خالد کی تقریر کے دوران جب چند غیر مسلم کینیڈین خواتین نے اسلامو فوبیا کے بارے میں اپنے تحفّظات ممبر پارلیمنٹ سے شیئر کرنا چاہے، تو ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا، چاروں طرف سے فاشسٹ مسلمان مرد ، ان خواتین کو شٹ اپ کرانے، دھکّے دے کر باہر نکالنے کے لئے کھڑے ہوگئے، خواتین کو چیخ چیخ کر خاموش کروانے، پکڑ پکڑ کر، کھینچ کھینچ کر، دھکّے دے کر باہر نکالنے کی کوششیں کرنے لگے۔
ان بدتہذیب اور قانون کا احترام نہ کرنے والے لوگوں میں ممبر پارلیمنٹ اقراء خالد کا باپ بھی شامل تھا، جو خواتین کو چیخ چیخ کر شٹ اپ کال دے رہا تھا، اور اس کو دوسرے سمجھدار لوگ ایسا کرنے سے منع کر رہے تھے، مگر اقراء خالد کے باپ کی بدقسمتی سے کیمرے کی آنکھ نے اِس غیر مہذّب فعل کو ریکارڈ کرلیا، یہ وڈیو سوشل میڈیا پر چل گئی اور وائرل ہوگئی۔
یہ سب کچھ ممبر پارلیمنٹ اقراء خالد کی آنکھوں کے سامنے ہوتا رہا، اور وہ خاموش تماشائی بنی کھڑی رہی۔ اس کو بھی کینیڈا کے قوانین کے احترام کا خیال نہیں آیا۔ کینیڈا میں اظہارِ رائے کی آزادی کے حق کی دھجّیاں اڑتی رہیں، مگر کسی کو ملال نہیں ہوا۔ یہ اسلامو فاشسٹ کینیڈا کی پر امن سرزمین پر فساد کی جو آگ بھڑکا رہے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ آگ کینیڈا کو جہنّم نہ بنادے۔ یہ خواتین جو موشن ایم -103 کے خلاف اور اسلاموفوبیا کے خلاف اس پروگرام میں احتجاج کررہی ہیں، اس ہی دن صبح ہمارے پروگرام میں بھی آئی تھیں، مگر ہمارے پینل نےنہ صرف ان خواتین کے تحفّظات کو سنا بلکہ جواب بھی دئے، کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔
مگر یہ اسلامو فوبیا کا راگ الاپنے والے اسلاموفاشسٹ ، کینیڈا میں اپنے مذموم عزائم کے ساتھ دندناتے پھر رہے ہیں، آزادیِ اظہار کا گلا گھونٹ رہے ہیں، خواتین کی تذلیل کررہے ہیں، ان خواتین کے طرز عمل کے ہم قطعی حمایتی نہیں ہیں، جو کچھ انہوں نے کہا ہم اس کی سخت ترین الفاظوں میں مذمّت کرتے ہیں، مگر کینیڈا میں اظہارِ رائے کی آزادی کے قانون کے تحت ان خواتین کو مذہب پر تنقید کرنے کا پورا حق حاصل ہے، اظہارِ رائے کا پورا حق حاصل ہے۔
یہ ممبر پارلیمنٹ کی اخلاقی اور قانونی ذمّہ داری ہے کہ وہ کینیڈین عوام کے مسائل توجّہ سے سنے، انہیں اپنے باپ کی گرج دار آواز کی دھاڑ سے خوف زدہ کرکے چپ نہ کروائے۔ خواتین کو دھکّے دے کر نہ نکلوائے، خواتین کی جبری زبان بندی نہ کروائے۔ خود خاتون ہو کر خواتین کی تذلیل نہ کروائے۔
♥
7 Comments