اٹھانوے سال قبل13 اپریل 1919 کو امرتسر کے جلیا نوالہ باغ میں بیساکھی کے تہوار پر بیس ہزار کے قریب جمع ہونے ہندووں ،سکھوں اور مسلمانوں پر بریگیڈئیر جنرل ڈائر (1864-1927) کے حکم پر ایک برٹش انڈین آرمی کے ایک دستے نے فائرنگ کی جس سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 379 افراد ہلاک اور 1200 زخمی ہوئے تھے جب کہ کانگریس نے اس خونیں واقعہ کی انکوائری کے لئے جو کمیٹی قائم کی تھی اس کے مطابق مرنے والوں کی تعداد پندرہ سو سے کسی صورت کم نہ تھی۔ بریگیڈئیر جنرل ڈائیر جس فوجی دستے کی کمان کر رہا تھا اس میں پچاس گورے اور ایک سو ہندوستانی سپاہی شامل تھے جن میں گورکھوں کے علاوہ پختون اور بلوچ بھی شامل تھے۔
ڈائیر کو عام طورپر جنرل کہا جاتا ہے حالانکہ وہ برٹش انڈین آرمی میں کرنل تھا ۔ بریگیڈئیر کا عہدہ اس کو عارضی طور پر دیا گیا تھا۔ ڈائیر کا جس پورا نام رگنلڈ ایڈورڈ ہیری ڈائیر تھا موجود ہ پاکستان کے شہر مری میں پیدا ہوا ۔ ڈائیر کے والد نے مری بروری کے نام سے گھوڑا گلی میں شراب کی چھوٹی سی فیکٹری قائم کی ہوئی تھی جو بر طانوی فوجیوں کی شراب کی ضروریات پوری کرتی تھی۔ ڈائیر نے ابتدائی تعلیم گھوڑا گلی کے لارنس سکول اور شملہ کے بشپ کاٹن سکول میں حاصل کی تھی۔ بعد ازاں وہ مزید تعلیم کے لئے بر طانیہ چلا گیا اور گریجوایشن کے بعد اس نے برطانوی فوج میں کمیشن حاصل کیا ۔ تھوڑے عرصے کے لئے وہ بلفاسٹ میں تعینا ت رہا اور پھر اسے برٹش انڈین آرمی میں ٹرانسفر کر دیا گیا۔ اس کی پہلی اسائنمنٹ بنگال رجمنٹ میں تھی ۔پھر وہ 29۔ پنجاب رجمنٹ میں آگیا اور اپنے فوجی کئیر یر کے اختتام تک 25۔ پنجاب رجمنٹ سے منسلک رہا ۔
مورخین کا موقف ہے کہ جلیانوالہ باغ کا واقعہ کرنل ڈائیر کا محض شوریدہ سری اور فرعونیت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہ نتیجہ تھا پنجاب کے گورنر سر مائیکل او ڈوائیر کی اس کی پالیسی کا جو وہ شہری اور دیہاتی کی تقسیم کے نام پر چلا رہا تھا۔ ہمارے ہاں عام طور پرکر نل ڈائیر اور گورنر اوڈوائیر کو باہم خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ بعض لوگ انھیں ایک ہی شخصیت سمجھتے ہیں حالانکہ ایک فوجی افسر تھا تو دوسرا سول سرونٹ۔
مائیکل اوڈوائیر نے مقابلے کے امتحان میں کامیابی کے بعد انڈین سول سروس جائن کی تھی اور اس کی پہلی پوسٹنگ شاہ پور ( سرگودھا ) میں ہوئی تھی۔ اوڈوائیر لینڈ ریونیو سے متعلق امور کا ماہر خیال کیا جاتا تھا۔ اس نے بھرت پور اور الور کی ریاستوں میں ریونیو سے متعلق امور کو منظم کیا تھا۔ وہ حیدر آباددکن میں نظام کے دربار پولیٹکل ایجنٹ کے طور پر خدمات دیتا رہا تھا میں ۔
وائسرے ہند لارڈ کرزن نے پنجاب سے سات اضلاع کو علیحدہ کرکے 1901 میں شمال مغربی سرحدی صوبہ ( موجودہ خیبر پختون خواہ )بنایا تو اس کا ریونیو کمشنر اوڈوائیر ہی کو بنایا گیا تھا۔ اوڈوائیر مئی 1913 سے مئی 1919 تک پنجاب گورنر رہا تھا۔ اوڈوائیر نے پنجاب میں دیہاتی اور شہری تقسیم کا نظریہ متعارف کر ایا تھا ۔ شہری دیہاتی کی تقسیم کے اس نظریہ کی بنیاد پر سر فضل حسین نے قیام پاکستان سے قبل پنجاب یونینسٹ پارٹی قائم کی تھی ۔
قیام پاکستان سے قبل یونینسٹ پارٹی نے پوری ایک دہائی تک پنجاب پر حکومت کی تھی۔ اوڈوائیر کا موقف تھا کہ پنجاب کے تعلیم یافتہ لوگ جن میں مسلمان،ہندو اور سکھ سبھی شامل تھے ہمہ وقت انگریز سرکار کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ کہتا تھا کہ یہ شہر کے بابو ہی ہیں جو دیہاتیوں کے حقوق غصب کئے ہوئے ہیں اس لئے وہ ہمیشہ پنجاب کی شہری آبادی کے خلاف سرگرم رہتا تھا۔
شہری دیہاتی کی اس تقسیم کی آڑ میں دراصل وہ جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ چاہتا تھا۔ یہی وہ مائنڈ سیٹ تھا جس کے زیر اثر کرنل ڈائیر نے جلیانوالہ باغ میں جمع ہونے والے مجمع پر گولیاں برسائی تھیں۔ اس کے نزدیک یہ شہری لوگ انڈیا میں برطانوی سرکار کا خاتمہ چاہتے تھے لہذا ان کا م قلع قمع ضروری ہے ۔مورخین کا کہنا ہے کہ جلیانوالہ باغ کے واقعہ کا رد عمل اتنا شدید ہوا تھا کہ اس کے بعد انگریزوں کا ہندوستان میں رہنا ناممکن ہوگیا ۔
جلیانوالہ باغ کے سانحہ کے بعد ڈائیر کو اس کی ذمہ داریوں سے علیحدہ کر دیا گیا اور وہ ہندوستان چھوڑ کر انگلستان چلا گیا تھا۔ بر طانیہ کے قدامت پسند حلقوں نے اس کی بہت پذیرائی کی اور اس کے لئے سول سرونٹس اور سابق فوجیوں نے فنڈ قائم کیا جس میں 26000 ہزار پونڈز جمع ہوئے تھے جو اس وقت کے مطابق بڑی رقم تھی۔ یہ رقم ڈائیر کو اس کی ’خدمات‘ کے صلے میں بطور انعام دی گئی تھی اس کے برعکس جلیانوالہ باغ میں ہلاک ہونے والے ہندوستانیوں کے ورثا کو صرف پانچ سو روپے فی کس معاوضہ دیا گیا تھا۔
جلیانوالہ باغ کے قتل عام پر کرنل ڈائیر کو پنجاب کے پیروں ، مخد و موں اور سجادہ نشینوں کی طرف سے خراج تحسین پیش کیا گیا تھا ۔ ڈائیر کی خدمت میں پیش کئے گئے سپاس نامے میں پنجاب کے بڑے بڑے پیروں اور سجادہ نشینوں نے کرنل ڈائر کی ’جرات او ر بہادری ‘کی تعریف کی تھی اور کہا گیا تھا کہ اس کے اقدام کی بدولت میں ہندوستان میں برطانوی سرکار محفوظ ہوگئی ہے ۔ امرتسر کے دربار صاحب کے ہیڈ گرنتھی نے کرنل ڈائیر کوگولڈن ٹمپل میں مدعو کیا اور اسے سکھ مت قبول کرنے کی دعوت دی تھی ۔ ڈائیر نے کہا کہ وہ تو چین سموکر ہے جب کہ سکھ مت میں تمباکو نوشی گنا ہ سمجھی جاتی ہے ۔ اس کے جواب میں ہیڈ گرنتھی نے کہا کہ سگریٹ نوشی وہ بھلے نہ چھوڑیں بس یہ وچن دے دیں کہ وہ ہر سال ایک سگریٹ کم کر دیں گے تو وہ اسے سکھ مت میں داخلے کی اجازت دینے کے لئے تیار ہیں ۔
سانحہ جلیانوالہ باغ کے بعد ڈائیر آٹھ سال تک زندہ رہا اور 1927 میں باسٹھ برس کی عمر میں فوت ہوا ۔ اس کے برعکس مائیکل اوڈوائیر کو ادھم سنگھ نے لندن میں ایک جلسے کے دوران گولی مارکر قتل کیا تھا ۔ قتل کے وات اوڈوائیر کی عمر 75بر س تھی۔ اس قتل کی پاداش میں اودھم سنگھ کو سزائے موت دی گئی تھی ۔
♦