کیا جمعیت علمائے اسلام سعودی ایجنڈے کو پروان چڑھا رہی ہے؟

پاکستانی سماج میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے میں سعودی عرب کا اہم کردار ہے جس نے پاکستان سمیت دنیا بھر میں اپنی مخصوص آئیڈیالوجی کے فروغ کے لیے مذہبی مدراس قائم کیےجو بنیاد ی طور پر دہشت گردی کی نرسریوں کے طور پر کام کررہے ہیں۔ طالبان ، القاعدہ اور داعش کی ایک بڑی تعداد انہی مدرسوں کی فارغ التحصیل ہے۔

پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ کے تعاون سے قائم ہونے والے ان مدرسوں نےپاکستان میں انتہا پسند رویوں کو بھرپور فروغ دیا ہے ۔ بین الاقوامی دباؤ پر پاکستان میں کچھ عرصے سے سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ اور ان کے حمایتی حلقوں، جو طالبان کو اپنا اثاثہ قرار دیتے ہیں، کی طرف سے طالبان کو قومی دھارے میں شمولیت کی تجاویز سامنے آرہی ہیں ۔

تازہ ترین پیش کش جمعیت علما ئے اسلام فضل الرحمن گروپ کے رہنما اور سینٹ کے ڈپٹی چیئرمین مولانا غفور حیدری کی طرف سے ہوئی ہیں جس میں انہوں نے طالبان کو اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی ہے۔

اس پیش کش پر سول سوسائٹی کی جانب سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا مذہبی انتہا پسندوں کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش سعودی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کی جا رہی ہے؟

معروف سماجی کارکن فرازنہ باری نے اس پیش کش پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا:’’یہ پیش کش انتہائی قابلِ مذمت ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسا کہ آپ قاتل کو کہیں کہ وہ مقتول کے گھرانے کا حصہ بن جائے۔ آپ قومی دھارے میں سیاسی جماعتوں کے لوگوں کو لاتے ہیں، جن کا تعلق سماج کی نچلی پرتوں سے ہوتا ہے اور جن کے ساتھ سماجی و سیاسی طور پر نا انصافیاں ہوتی ہیں، جیساکہ بلوچ عسکریت پسند۔ لیکن ٹی ٹی پی یا فرقہ وارانہ تنظیموں کے دہشت گرد تو اس ریاست میں کافی طاقتور رہے ہیں، جنہوں نے ہزاروں معصوم پاکستانیوں کا خون بہایا ہے۔ کیا آپ دہشت گردی کو مین اسٹریم کرنے جا رہے ہیں۔ جو نوجوان مجبوری کے تحت اُن سے جا ملے یا جن کے ہاتھ خون میں رنگے ہوئے نہیں ہیں، ان کی مین اسٹریمنگ کے بارے میں تو سوچا جا سکتا ہے لیکن دہشت گردوں کے ساتھ ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں قومی دھارے میں لانے کی بجائے حکومت ان کے مالیاتی ذرائع کو روکے اور دہشت گردی کے انفرااسٹرکچر کو مکمل طور پر ختم کرے۔‘‘۔

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے سابق پروفیسر ڈاکٹر امان میمن نے اپنے تاثرات دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا:’’میرا خیال ہے کہ جہادی و فرقہ وارانہ تنظیموں کو قومی دھارے میں لانے والے مسئلے کو مشرق وسطیٰ کی صورتِ حا ل کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا چاہیے۔ تاریخی طور پر ایسے گروپوں کی سرپرستی سعودی عرب نے کی اور آج بھی ان تنظیموں کے اس قدامت پسند ملک کے ساتھ بہت گہرے روابط ہیں، جس کی ایک مثال جے یو آئی ایف کے جلسے میں اس ملک کے بااثر لوگوں کی موجودگی ہے۔ لیکن پاکستانی سعودی عرب کے سیاسی نظام کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں۔ آپ دیکھ لیں کہ راحیل شریف کی پاکستانی بہت عزت کرتے تھے لیکن جیسے ہی انہوں نے سعودی عرب کے عسکری اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، ان پر ہر طرف سے تنقید ہونے لگی۔ یہاں تک کہ نون لیگ کے گورنر نے بھی کہا کہ اُن کے امیج کواتنا بڑھا چڑھا کر نہ پیش کیا جائے۔ تو میرے خیال میں مذہبی جماعتوں کو سیاسی دھارے میں لا کر ایک ایسے پلیٹ فارم پر متحد کیا جا رہا ہے، جہاں سے مذہبی جماعتیں مشرق وسطیٰ سے متعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہو سکیں اور یقیناًیہ اثر اندازی قدامت پسند ملک کے حق میں ہی جائے گی‘‘۔

مذہبی انتہا پسندی پر گہری نظر رکھنے والے فاروق طارق نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’پہلے سعودی عرب کے پاس پیسہ بہت تھا تو وہ ہر چیز پیسے سے خرید لیا کرتے تھے۔ میرا تعلق ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہے، جہاں کئی مدرسے سعودی فنڈنگ سے چل رہے ہیں لیکن تیل کی قیمتوں میں کمی اور سعودی شاہی گھرانے کی اندرونی لڑائی کی وجہ سے اس قدامت پسند ملک کا حاکم طبقہ اب سیاسی محاذ پر علی الاعلان مذہبی انتہا پسندوں کی حمایت کر رہا ہے۔ سعودیوں کی جے یو آئی ایف کے جلسے میں شرکت بھی اسی حمایت کی مظہر ہے۔ میرے خیال میں جے یو آئی (ایف اور سمیع الحق) طالبان کے سیاسی دھڑے ہیں اور اب وہ اُن دہشت گردوں کو چُھپنے کا راستہ فراہم کر رہے ہیں، جنہوں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھائے تھے۔ نون لیگ اِن کو قومی دھارے میں لاکر اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مار رہی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ان گروپوں کو مستقبل میں خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کیا جائے‘‘۔

معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر توصیف احمد نے کہا کہ ایسےگروپوں کو قومی دھارے میں لانے کے بہت خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا:’’یہ ممکن ہے کہ کچھ طاقتیں ان جہادی و فرقہ وارانہ تنظیموں کو سعودی عرب کو خوش کرنے کے لیے قومی دھارے میں لانا چاہتی ہوں لیکن ایسا بہت ہی تباہ کن ہو گا۔ پوری دنیا آپ کے خلاف ہو جائے گی۔ اب امریکا میں ٹرمپ ہے۔ یہ نہیں ممکن ہو گا کہ آپ دنیا کی نظروں میں دھول جھونکیں اور یہ کہیں کہ یہ سیاسی پارٹیا ں ہیں اور اِن کو عوام کی حمایت حاصل ہے‘‘۔

ڈاکٹر توصیف احمد نے مزید کہا:’’میرے خیال میں نون لیگ کی حکومت بھی ایسے کسی منصوبے کو کامیاب نہیں ہونے دے گی کیونکہ نواز شریف نے اپنے تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ صرف سیکولر چہرے کے ساتھ ہی دنیا سے بات چیت کی جا سکتی ہے اور عالمی برادری کی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ مذہبی و فرقہ وارانہ تنظیمیں پاکستان کے لیے مصیبت بن جائیں گی۔ اگر ان عناصر کو قومی دھارے میں لایا گیا، تو یہ پھر مضبوط ہوجائیں گے اور دنیا کے مختلف ممالک میں حملے کریں گے، جس سے پاکستان عالمی سطح پر تنہا ہوتا چلا جائے گا اور ملک کو نقصان ہو گا‘‘۔

2 Comments