مجھے دار پہ چڑھا ؤ، تاکہ منصور کی یاد تازہ ہو! مشال خان

ڈاکٹر برکت کاکڑ

مشال خان نے اپنے فیس بک پیج پر پشتو کے ایک مشہور شاعر کے شعرکا دوسرا مصرعہ لکھاتھا۔ اس شعر کا مکمل اردو ترجمہ کچھ اس طرح سے بنتا ہے۔

اک مدت سے دار کے خشک ٹہنی پر کوئی نہیں چڑھا۔۔۔ مجھے دار پہ چڑھا دو، تاکہ منصور کی یاد تازہ ہو

منصور کی یاد تازہ ہوگئی، منصورہ والوں کو فکری فتح حاصل رہی، ہزاروں ظاہر بین ریاکاروں نے مل کر ایک ایسے مشعل کو گل کردیا جو اپنی ضمیر اور دل کی دنیا کو آباد کرنے چلا تھا۔ جو موجودہ استبدادی حالات کو تبدیل کرنے اور اس پر سوال اٹھانے کیلئے انجنئیرنگ سے صحافت کی طرف آنے کا اٹل فیصلہ کرچکاتھا۔

وہ الیف شفق کے شہرہ آفاق ناول کے شوریدہ سر کردار بنا، حقیقت کی نئی پرتوں کو کھوجنے کیلئے مکالمے، مطالعے اور مباحثے کے میدان میں اُترا، مٹی کی محبت میں اس آشفتہ سر نے وہ قرض اتارنے کی کوشش کی جو واقعی واجب نہیں تھی۔کیونکہ پاکستان سے زندہ بھاگ کا مقولہ محض ایک طنز نہیں بلکہ ایک ٹھوس سماجی حقیقت بنتا جارہا ہے ۔

صوابی سے تعلق رکھنے والے غریب والدین کے چشم و چراغ مشال خان جو تعلیم اور علم کو برابری اور انصاف کا پیش خیمہ جانتے تھے، کو ۱۳ اپریل کو دن دھاڑے عبدالولی خان یونیورسٹی کے کیمپس میں اذیتیں دے کر شہید کیا گیا۔ سینکڑوں نوجوان طالب علم تشدد زدہ نعش کی بے حُرمتی کو کچھ اس انداز سے ملاحظہ کر رہے ہوتے ہیں جیسے عموماً میں مداری کے گرد لوگ کھڑے ہوتے ہیں۔

ویڈیو میں مشال خان کی نعش کے ساتھ کی جانے والی بدسلوکی، اور اس پر مجمع کی ایک کثیر تعداد کی خاموشی اور غیر جانب داری اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے تیزاب میں غوطے دینے کے بعد نوجوانوں کے سیاسی، سماجی اور شہری شعور کو کامیابی سے سلادیا گیا ہے۔ نوجوان اعلیٰ تعلیم کے جدید ادارے میں تعلیم پانےکے باوجود بھی ایک بپھری ہوئی مخلوق اور پیشہ ور بلوہ کاروں کی روپ میں میدان عمل میں اترے ہیں۔

جو رویہ گذشتہ ماہ لاہور کے ایک تعلیمی ادارے میں پشتون طلبا کو نوروز مناتے ہوئے لہو لہان کرنے میں کار آمد ثابت ہوا اسی مکتبہ فکر کے چند نوجوانوں نے ناموس مذہب اور رسالت کی حفاظت کو سیاسی طور پر استعمال کرتے ہوئے سینکڑوں نوجوانوں کو اپنے ارد گرد مجتمع کیا۔ انہوں نے انصاف کرنے کی ذمےداری خود کو سونپ دی، ملزم تو پہلے سے ہی منتخب کیا گیا تھا، سزا بھی پہلے سے تجویز تھی اور اس پر عمل درآمد کیلئے انتظام بھی بھرپور کیا گیا تھا۔

خدائی فوجداروں کی یہ فوج کسی مذہبی مدرسے میں نہیں پڑھے، بلکہ یہ شباب ملی کے وہ صالحین ہیں جو زمانے کی بدلتی کروٹوں کے ساتھ اسلامی طرز زندگی کو ہم آہنگ کرنے کا ڈھنڈورا پیٹتے ر ہتے ہیں۔ اس واقعے سے متعلق معلومات ملنے اور مختلف افراد سے بات چیت کے نتیجے میں پتہ چلا ہے کہ جو طلبا شہید مشال خان کے گرد حالہ بناکر اس کی نعش کی بےحرمتی کرتے اور ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، مختلف سیاسی تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں، جن میں ایسے بھی ہیں جو نئے پاکستان کا خواب دیکھ رہے ہیں ، سیکولرزم کا راگ الاپتے نہیں تھکتے ، اپنے جلسوں اور دھرنوں میں جینڈر بیلنس کے کلیدی انڈیکیٹر کو مرکزی اہمیت دیتے ہیں اور اس پر پوری توانائی خرچ کرتے ہیں۔

اس اندوہناک واقعےکے پس منظر میں اعلی ٰتعلیمی اداروں میں نوجوانوں کی سیاسی، تعلیمی اور سماجی تربیت کے معیار پر سوال اٹھتے ہیں ۔ ۲۳ سالہ مشال خان کی پہلی بد نصیبی یہ تھی کہ وہ جرمنی اور روس میں پڑھنے کے بعد پاکستان واپس آیا۔ وہ اپنی مٹی کا سچا بیٹا تھا اور وہ روس سے انجنئیرنگ کرنے کے بعد کھری سچی صحافت کے میدان میں اپنا مقام دیکھ رہا تھا۔ ٹویٹر پر مشال خان کا ایک ریڈیویائی انٹرویو جاری ہوا ہے جس میں وہ اپنے ہم نام پشتو ریڈیو مشال کے ایک نمائندے سے گفتگو کر ر ہا ہے ۔

اس انٹرویو میں وہ اپنے سیکھنے اور سمجھنے کے سفر کو نہایت تجزیاتی اور تنقیدی انداز سے پیش کرتا ہے۔انٹرویو میں بتا تا ہے کہ روس سے انجنئیرنگ کی ڈگری حاصل کی، لیکن قومی خدمت کیلئے صحافت کے میدان کو چنا۔ چار مہنے پہلے مشال ریڈیو کو دیئے گئے انٹرویو میں وہ ان کتابوں کا ذکر کرتا ہے اور اس پر تبصرہ کر تا ہے جن کو اس نے ابھی پڑھ رکھا تھا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ان میں الیف شفق کی فورٹی رولز آپ لو، سقراط اور کارل مارکس کی زندگی سے متعلق مطالعاتی مواد کو اس نے یاد کیا ہے۔ مشال پشتو زبان سے بے تحاشا محبت رکھتا تھا، اور اپنے انٹرویو میں وہ اپنی جامعہ کو اس لحاظ سے غیر ترقی یافتہ بتاتے ہیں جہاں پر پشتو زبان و ادب میں تعلیم کا کوئی انتظام نہیں۔

یاد رہے کہ تحفط مذہب اور ناموس رسالت کی آڑ میں ملک کے کمزور اقلیتی اکائیوں کی بری طرح سے بلیک میل کیا جاتا رہا ، سیاسی حریفوں کو راستے سے ہٹانے کیلئے بروئے کار لایا گیا ہے ۔ لیکن مشرقی اور آزاد فکر رکھنے والے نوجوانوں کو سوچنے سے باز رکھنے کیلئے بھی اس اوزار کا استعمال کی جاسکتا ہے، اس سے پہلے اس امکان پر نہیں سوچا تھا۔

مشال خان کی روح شاد ہوگی، اگر اُن تمام سرکردہ کرداروں کو قرار واقعی سزا دی جاتی ہے۔ فی الوقت تو حکام بالا اس واقعے کو ظلم بتاتے ہیں اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی بات ہورہی ہے، لیکن ذرہ سے دن ڈھل جائیں تو پتہ چلے گا کہ مشال خان اور اس کے ادھیر عمروالدین کسی کو بھی یاد نہیں آئیں گے۔ انکی زندگی کے شام میں جس مشعل (مشال) نے روشنی کرنی تھی وہ عقیدے کے تند و تیز ہوا سے بجھا دیا گیا ہے۔

ریاست دہشت گردی اور سفاکیت کا خاتمہ کرنے وزیرستان کے پہاڑوں میں لڑنے گئی، کل امریکہ نے اسی مقصد کے ادعا کیلئے دنیا کے غریب ترین ملک پر خطرناک ترین بم گرایا۔ لیکن پاکستان اور دنیا کے دیگر تمام تر ملکوں میں دہشت گردی اور سفاکیت کے تانے بانے شہروں میں پلنے پوسنے، جدید تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے نوجوان ہی نکلتے ہیں۔

دہشت گردی سے متعلق جس متبادل بیانئے کی ضرورت کل محسوس کی جارہی تھی، اس کی اہمیت آج اور بھی بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ معاصر پاکستانی معاشرے میں دہشت گرد پہاڑوں اور غاروں میں نہیں، بلکہ ہمارے گرد و پیش اور ہمارے ساتھ بلند و بالا عمارات، شاپنگ مالوں، تعلیمی اداروں، مذہبی اداروں اورعالیشان گھروں میں رہتے ہیں، ہماری زندگی ان کے رحم و کرم پر ہے ۔بد قسمتی سے اس ملک میں آج جتنے وہ محفوظ ہیں کوئی بھی اتنا محفوظ نہیں ہے۔

3 Comments