آصف خان
یہ سوال ہی ہے جو انسان اور حیوان کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے،اگر سوال نہ ہوتا تو آج انسان بھی نہ ہوتا ۔ سوال جیسا بھی ہو جو بھی ہو اس کا جواب موجود ہوتا ہے اس بارے میں پشتو کے شاعر روخان یوسفزئی کا شعر ہے ۔
اشنا د ژوندانہ پہ جبین خال نوی پیدا کڑہ ۔۔۔ جواب بہ ئی پیدا شی خو تہ سوال نوی پیدا کڑہ ۔
زندگی میں نئے رنگ بھر تے جاؤ ، جواب مل جائیگا، لیکن تم نیا سوال پیدا کرو۔
مشال خان بھی سوال کرتا تھا ۔۔۔ اور ایسا ہر گز نہیں کہ اس کے سوالوں کے جواب کسی کے پاس نہیں تھے،حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے سوالات سننے کیلئے کوئی تیار ہی نہیں ہے۔
مرادن میں مشال کے واقعے کے بعد میں اپنے گھر مردان گیا وہاں میں مختلف لوگو ں سے ملا ۔ میں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ عام لوگ اس واقعے کے بارے میں کیا کہتے ہیں،یقین جانیئے دس پندرہ لوگوں کے علاوہ باقی سب نے مشال کے بارے میں ایک ہی رائے قائم کی تھی کہ یہ لڑکا ٹھیک نہیں تھا۔( مڑہ داھلک ٹھیک نہ وو)۔۔۔ اور اس کے بعد کہتے اللہ بہتر جانتا ہے۔ مجھے ایک پڑھے لکھے بندے نے بتایا (پڑھا لکھے سے مراد جس کے پاس ماسٹر کی ڈگری تھی ) کہ مشال اُلٹی سیدھی باتیں کیا کرتا تھا، میں نے کہا آپ مشال سے ملے تھے تو اسکا جواب نفی میں تھا ، میں نے پھر پوچھا تو آپ کو یہ بات جس نے بتائی ہے کیا اس محترم کی ملاقات مشال سے ہوئی تھی، تو اس نے کہا نہیں، میں نے کہا تو پھر آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ مشال ٹھیک نہیں تھا۔
اصل میں جہاں سوال کرنا جرم بن جائے وہاں دہشت پروان چھڑتی ہے، اور ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں دین اسلام پہ تو ہم جان نچاور کرنے کیلئے تیار ہیں لیکن جب ہم اپنے ہی دین کے بارے جاننے کیلئے کوئی سوال اٹھاتے ہیں تو سو بار سوچتے ہیں کہ کہیں کوئی غلطی نہ کر بیٹھوں، اور اسی ڈر سے ہم اسلام کی اصل تعلیمات جاننے سے قاصر رہ جاتے ہیں، یہ خوف کیوں ہے اور یہ ڈر کس نے پیدا کیا ؟۔
مرادن میں اب یہ ایک روایت بن چکی ہے کہ جب کوئی فوت ہوتا ہے توتین دن علماء یا مُلا تقریر کرتے ہیں اور آخر میں مغفرت کی دعا ئیں مانگی جاتی ہیں۔ میں مردان میں ایک جگہ فاتحہ خوانی کیلئے گیا وہاں ایک مولانا صاحب تقریر فرما رہے تھے ،مولانا صاحب کی پوری تقریر تو میں یہاں بیان نہیں کر سکتا البتہ دو واقعات کا یہاں پر ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔
مولانا صاحب نے سلمان فارسی کا حوالہ دیا اور اس کو ایک عربی ثابت کردیا اور د وسری بات اس نے مڈغاسکر ملک کے حوالے سے کی کہ وہاں تبلیغ کی محنت سے چالیس ہزار لوگ مسلمان ہوئے۔
میں حیران رہ گیا ویسے یہ تو پتا تھا کہ سلمان فارسی عربی نہیں تھے لیکن مڈغاسکر میں چالیس ہزار لوگ تبلیغ کی محنت سے مسلمان ہوئے اور یہ اتنی بڑی خبر نہ کسی اخبار میں چھپی نہ کسی اور میڈیا نے رپورٹ کی ، حالانکہ مڈغاسکر سے عرب کے ساتھ تعلقات دسویں صدی میں استوار ہوئے تھے اور اسی دور میں لوگ اسلام سے روشناس ہوئے تھے، اور ہاں اب اس ملک کی آبادی تقریباً ۲ کروڑ سے اوپر ہے ،اور یہا ں ۷ فیصد لوگ مسلمان ہیں اور چالیس فیصد سے زیادہ کرسچن ہیں اور باقی لوگوں دیگر مذاہب کے پیروکار ہیں۔
یہ میرے لئے انتہائی حیرت کی بات تھی کیونکہ پچھلے8 سال سے میڈیا کیساتھ منسلک ہوں اور میں نے یہ خبر کسی بھی جگہ نہیں دیکھی تھی ، اگر کسی نے دیکھی ہے تو پلیز مجھے ضرور بتا دیں کیونکہ یہ میرے ساتھ تمام مسلمانوں کیلئے بہت بڑی خبر ہے، وہاں پر میرے ایک دوست بھی بیٹھے تھے جو کہ پی ایچ ڈی سکالر تھے وہ بھی حیران تھے کہ مولانا صاحب کیا فرما رہے ہیں لیکن وہ بھی خاموشی سے یہ سب کچھ سن رہے تھے ۔ مولانا صاحب نے تقریر کے بعد اسلام کی سر بلندی کیلئے دعا کی اور تقریر تو اتنی جاندار تھی کہ وہاں پر کچھ لوگوں کی آنکھوں میں آنسو بھی آئے لیکن وہاں پر کسی بھی شخص نے میرے سمیت یہ جرات نہیں کی کہ مولانا صاحب سے پوچھ سکیں کہ آپ نے جو واقعات بیان کئے ہیں ان میں کتنی صداقت ہے ۔
اب اگر یہ واقعہ وہاں پر کسی نے سنا اور من و عن اس کو کسی ایسی جگہ پر بیان کیا جہاں مشال جیسا ایک طالبعلم موجود ہو اور وہ سوال کرے تو پھر نجانے مشال مرتد ہوگا کہ فاسق؟اور جس نے اتنی بے دردی سے تاریخ کو مسخ کیا اس کو کیا نام دیا جائے گا۔
لیکن ہم سوال نہیں کرینگے کیونکہ پھر ہم پر بھی توہین کا الزام لگادیا جائیگا،ایسی تقریریں ہر روز ہر جگہ ہوتی ہیں جس میں اسلام کی اصل تعلیمات کو مسخ کرکے ایک ایسی فضا قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جہاں صرف لوگوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ ہم معتبر ہیں اور یہ باقی دنیا اسلام کی دشمن ہے جس کا ہم نے ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے، آج ہم سب ان لوگوں پہ لعنت بھیج رہے ہیں، جنہوں نے مشال کو بجھا دیا اور بے شک یہ سارے مشال کے قاتل ہیں لیکن میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ جو معلومات یا علم انسان کو پہنچتا ہے اور جن چیزوں کو وہ د یکھتا ہے تجربہ کرتا ہے اسی بنیاد پر اس انسان کا رویہ بنتا ہے اور پروان چڑھتا ہے تو جس ریاست میں شہریوں کو بچپن سے یہ پڑھایا جائے کہ وہ معتبر ہے اور مسجدوں اور حجروں میں باقاعدہ طور پر صرف یہ بتایا جائے کہ وہ ایک لازوال مخلوق ہے تو پھر یہی ہوگا کہ بغیر پوچھے اور بنا تحقیق کے مشال کو قتل ہی کیا جائیگا۔
مشال کے واقعہ کے بعد اب بعض حلقو ں میں یہ کہا جا رہاہے کہ شاید مشال آخری مشال ہوگا جو بجھ گیا، باقی مشعلوں کی روشنی اس واقعہ کے بعد تیز ہو جائیگی۔
لیکن مجھے نظر نہیں آرہا کہ اس طرح کچھ ہونے والا ہے کیونکہ اسی ہفتے سیالکوٹ میں بھی ایک واقعہ ہوا جہاں تین بہنوں نے ملکر ایک شخص کو مار دیا ہے، وہ مرتد تھا یا نہیں اس کا کچھ پتا نہیں ، لیکن واقعہ کے بعد ایسا لگتا ہے کہ یہ صرف مردان نہیں بلکہ ریاست کے ہر کونے میں لوگ اپنے آپ کیلئے جنت میں جگہ بنانے کیلئے کوشاں ہیں۔
اگر یہ ریاست سوال کرنیوالے کو تحفظ نہیں دے سکتی تو پھر اس کے آئین میں ایک شق ضرور شامل کی جائے کہ یہاں سوال کرنا جرم ہے اس سے یہ تو ممکن نہیں کہ نئے سوال جنم نہیں لیں گے لیکن اتنا ضرور ہو جائیگا کہ کوئی مشال سوال کرنے پر کم از کم سولی پہ نہیں چڑھے گا۔
♣
One Comment