آئینہ سیدہ
گٹر کے گم ہوتے ڈھکنوں کا سفر کوئٹہ ،شاہ نورانی ، پشاور ،مہمند ،اور سیہون کی دہشت گردی میں جانے والی جانوں سے ہوتا ہوا پانامہ کیس اور پی ایس ا یل سے گزرتا مراد سعید کے مکے اور جاوید لطیف کے شرمناک بیان تک پہنچ گیا مگر آج بھی پاکستان کی طاقتور اشرافیہ اور گلی محلوں میں بسے بے بس عوام بلوچستان کے جبری گمشدہ بیٹےبیٹیوں سےلاپرواہ ہیں۔
نیوزمیڈیا توکچھ ٹکوں میں بکنے والی شے ہے مگرسوشل میڈیا پرموجود بہت سےاحمق آج بھی اس صورتحال میں پاکستان کو“اسلام کا قلعہ” کہتےشرم سے پانی پانی نہیں ہوتے۔
اپنےبنائےہو ئےاس ٹھہرے پانی کےبدبودارکنویں سے باہر آکردیکھیں کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے یا اسلام کا قبرستان بن چکا ہے ؟؟ حقیقت یہ ہے کہ ستر سال میں اس ملک کے مختلف علاقوں میں اسلام کی صرف ” تدفین ” ہو ئی ہے۔
ویسے تو عالم اسلام کے کسی بھی ملک میں اسلام کی عزت افزائی نہیں ہو پا ئی کسی ایک اسلامی ملک میں بھی فلاحی مملکت کا تصورموجود نہیں کہیں ڈکٹیٹر شپ ہے تو کہیں بادشاہت اور ملا گردی۔……
بالفرض کوئی مغربی دنیا کی جمہوریتوں کو متاثرکرنےکو انتخابات کروا بھی دیتا ہے توحیرت انگریز نتائج کے تحت چالیس سال تک ہرانتخاب ایک ہی پارٹی یا ایک ہی شخص جیتتا چلا جاتا ہے جیسے ملک کی عوام اندھی ہے وہ ایک پارٹی کے سوا کچھ اوردیکھ ہی نہیں سکتی۔ مگران تمام ممالک میں پاکستان کوایک امتیاز حاصل ہے وہ یہ کہ اسلام کےبنیادی احکامات کو بڑی ڈھٹائی سےدفن کرنے کے باوجود یہ بلند ا بانگ دعوے کہ “پاکستان اسلام کا قلعہ” ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس دن پاکستان میں حسن ناصرکوانکےنظریات کی وجہ سے شاہی قلعہ کےعقوبت خانوں میں تشدد کرکے قتل کیا گیا اورانکی میت کونامعلوم قبرمیں اتاردیا گیا اسی دن پاکستان کےسینےپرقدرت نےایک کتبہ لکھ دیا تھا کہ ” یہاں اسلام دفن ہے“۔
آج آپ مجھ سےلاکھ حجتیں کرلیں لیکن اسلام کےکسی نکتے سے یہ ثابت نہیں کرسکتے کہ کسی بھی قسم کے نظریات کا حامل اسلام کی رو سے جبری گمشدگی، ٹارچر، ہلاکت اور پھر نامعلوم قبرکا حقدار ٹھہرسکتا ہے پھرکون سا اسلام اس قلعےکی حفاظت پرمامور ہے؟ یہ کونسا قلعہ ہے جہاں اسلام کےنام پردہشت گردی ناچ رہی ہے ؟
جنوری2014 میں بلوچستان کے علاقے خضدار میں تین اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں یہ آ ثا رقدیمہ کی دریافت نہیں تھیں جس پرمیں اورآپ فخر کرسکیں ۔یہ میرےاورآپکےبھائیوں کی چونا لگی لاشوں کا ڈھیر تھا جوحریت پسندوں کے مطابق نو سو سےزیادہ افراد تھےمگرآپ تعصب سےکام لےکربلوچ حریت پسندوں کے دعوں کی نفی کرسکتے ہیں لیکن حکومتی اہلکاروں کےسچ کومان لیں کہ وہاں سترہ افراد اجتماعی طورپردفن تھے۔
سترہ افراد کی تشدد زدہ ، ناقابل شناخت لاشیں…. سرزمین پاکستان سے دریافت ہوتی ہیں جہاں مسلمانوں کی 97فیصد آبادی ہے جہاں کی حکومت مسلمان اور ستانوے فیصد مسلمانوں کے آزادانہ ووٹوں سے منتخب ہے جہاں پانچ وقت مسجدوں سے اذان کی آواز گونجتی ہے جہاں رمضان میں سر عام کھانے پینے والے پرمعاشرہ اسلامی غیرت سے سرشار ہو کر ٹوٹ پڑتا ہے، یہ وہ واحد اسلامی مملکت ہے جہاں ” عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ” کا دن بڑی دھوم دھام سے منایا گیا جہاں منصف توہین رسالت کے دوسٹیٹس ا پ ڈیٹس اورتین ٹویٹس کےخلاف جذباتی ہوکرٹسوےبہاتےہیں مگرسترہ افراد کی ناقابل شناخت لاشوں کےقضیے کوآئیں بائیں شائیں کردیا جاتا ہے۔
کس کی لاشیں تھیں ؟ کس نے تشدد کیا ؟ کس نے چونا ڈال کر ناقابل شناخت کیا ؟ اس ملک کے محافظوں نے یا آزادی کی جنگ لڑنے والوں نے یا ہمسایہ ممالک کی ایجنسیوں نے؟ سوال ان گنت مگر جواب ندارد ؟
کس کی جوابدہی ہوئی ؟ کس کو سزا ؟ کس کا قصور تھا ؟ کچھ پتہ نہیں ! کوئی آواز نہ کوئی مطالبہ !!!۔
سو حسن ناصر کی نامعلوم قبرہو یا توتک کی اجتماعی قبریں، اسد مینگل کی جبری گمشدگی ہو یا ذاکر مجید بلوچ اوران جیسے بہت سےنظریاتی کارکنوں کا ریاستی اغواء ….. یہ واقعات ایک ایسا کلنک کا ٹیکہ ہیں جو ہردور میں مملکت پاکستان کی پیشانی پرنمازوں کے نشان سے زیا دہ نمایاں رہے گا۔
ہم اعتراف کریں یا نہیں مگر امر وا قعہ یہی ہے کہ برسوں سے گمشدہ افراد ، تشدد زدہ لاشیں ، نامعلوم اور اجتماعی قبریں اسلام کے قلعےکو اسلام کے مقبرے میں تبدیل کرچکیں…. آپ سب کو اطلاع ہو کہ ایٹمی پاکستان اسلام کا قبرستان بن چکا ہے۔
آپکی کلمہ طیبہ کی گردان ، پانچ نمازیں ، تہجد گزاریاں، لگاتارعمرے،حج پرحج ،رمضان میں نعتوں کےدور،غیرت اسلام اورگستاخ رسول (ص ) کا سرتن سے جدا کرنے کے آسمان تک گونجتےنعرے…. یہ سب کچھ ملا جلا کربھی آپکو دین و دنیا میں ایک چونا لگی ناقابل شناخت لاش پرجوابداری سے نہیں بچا پائیں گے۔
بلوچستان کی اجتماعی قبریں ہم پرحد نافذ کرچکی ہیں ہربااختیارجو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس پرآسمان سے حد جاری ہوچکی ہے۔
پاکستان نہ تو کوئی اسلامی ریاست ہے نہ ہی اسلام کا قلعہ…… اگرمیں اورآپ یہ حقیقت نہیں مانتےتوصرف اپنےآپ کو دھوکہ دے رہے ہیں اوردھوکے کا انجام جلد یا بدیر ہماری اپنی ہلاکت ہی ہوگا ۔
♦