پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کے معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے بیٹوں کے خلاف تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے بیس اپریل کو یہ فیصلہ عمران خان، شیخ رشید، سراج الحق اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کردہ ان درخواستوں پر دیا جن میں وزیراعظم سمیت چھ افراد کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ بنچ کا 547 صفحات پر مشتمل فیصلہ ایک اکثریتی فیصلہ تھا اور بنچ کے سربراہ سمیت دو ججوں نے اس میں اختلافی نوٹ تحریر کیا۔
دو ججوں کے اختلافی نوٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی میں کی گئی تقریر میں قوم سے جھوٹ بولا اس لیے وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ اسی اختلافی نوٹ میں الیکشن کمیشن کو وزیر اعظم کو فوری طور پر نااہل قرار دے کر ان کی قومی اسمبلی کی رکنیت کو ڈی نوٹیفائی کرنے کو کہا گیا ہے۔
ججوں کی اکثریت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی ٹیم کی سربراہی وفاقی تحقیقاتی ادارے کا ایڈیشنل ڈائریکٹر رینک کا افسر کرے جبکہ اس ٹیم میں قومی احتساب بیورو، سکیورٹی ایکسچینج کمیشن اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے علاوہ فوج کے خفیہ اداروں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلیجنس کے دو تجربہ کار افسران شامل ہوں گے۔
پانامہ کیس بدنیتی پر مبنی ایک کیس ہے جسے عمران خان نے فوجی ایسٹیبشلمنٹ کے اشارے پر سپریم کورٹ میں دائر کیا تھا۔سپریم کورٹ نے ایک گول مول فیصلہ دیا ہے جس سے ملک میں سیاسی بے یقینی کی فضا قائم رہے گی اور میڈیا اور فوجی ایسٹیبلشمنٹ کے پروردہ دانشوروں کا کاروبار بھی خوب چلے گا۔اور فوجی اشرافیہ کا بھی یہی مقصد ہے۔
یہ عوام کے ساتھ کتنا بڑا مذاق ہے کہ ایسی عدلیہ سیاست دانوں کو کرپٹ قرار دیتی ہے جس کا اپنا وجود ،سر سے پیر تک ،کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے۔
یہ ایک سیاسی کیس تھا اورعمران خان کو یہ کیس عدالت کی بجائے پارلیمنٹ کے اندر لڑناچاہیے تھا ۔ عمران خان نے ابھی تک اپنی سیاست سے اپنے آپ کو ایک ناکام سیاست دان ثابت کیا ہے ۔ وہ فوجی بیساکھیوں کے ذریعے سیاست کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور انہیں ناکامی کا سامنا کرناپڑتا ہے۔
اسے پاکستانی عوام کی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ جب بھی ملک میں جمہوری عمل شروع ہوتا ہےفوجی اشرافیہ اس کے خلاف سازشیں شروع کردیتی ہے۔ پیپلزپارٹی کی پانچ سالہ حکومت میں بھی یہی منتر پڑھا جاتا رہا ہے جو اب نوازشریف کی حکومت کے خلاف پڑھا جارہا ہے۔ اس سارے عمل میں نقصان غریب عوام کا ہوتا ہے جن کا فوجی اشرافیہ پچھلے ستر سالوں سے قومی سلامتی کے نام پر معاشی استحصال جاری رکھے ہوئے ہے۔
حالیہ سپریم کورٹ نے کسی حد تک نوازشریف کو ریلیف دیا ہے اور انہیں فوری طور پر مستعفی نہیں ہونا پڑے گا بلکہ میڈیا کے طوفان بدتمیزی کے درمیان اگلے سال نئے انتخابات تک وقت گذار سکتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کو یہ ریلیف بھی نہیں دیا گیا تھا اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو فوری طور پر مستعفی ہونا پڑا تھا۔
سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں کرپشن کی ابتداء کرنے والی فوجی ایسٹیبشلمنٹ ہے جو ایک آئینی حکومت کا تختہ الٹتی ہے ، سیاستدانوں پر بدعنوانی کے جھوٹے کیس بناتی ہے اور جو سیاستدان جرنیلوں سے سمجھوتہ کر لے وہ پاک صاف ہو جاتا ہے اور جو نہ کرے وہ بدعنوان ہونے کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی رسک بھی ہوتا ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ سیاستدان کرپشن کرتے ہیں مگر یہ کرپشن عدالتی فیصلوں کے ذریعے ختم نہیں ہو سکتی۔تبدیلی یکدم بٹن دبانے سےنہیں آتی بلکہ یہ مسلسل جمہوری عمل کے ذریعے آتی ہے۔ اس ملک میں جرنیلوں کی کرپشن پر کوئی سوال اٹھانے کو تیار نہیں جو نہ صرف مالی کرپشن میں ملوث ہیں بلکہ سسٹم کو بھی کرپٹ کر رہے ہیںاور ملک کو دہشت گردی کے الاؤ میں جھونک رکھا ہے۔
فوجی اشرافیہ نے اپنی مہم جوئیوں کے لیے پوری دنیا میں پاکستان کو ایک دہشت گرد ریاست کی پہچان دی ہے مگر عدلیہ اور میڈیا ان کی پروردہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کاروائی کرنا تو دور کی بات ان کے خلاف سوال تک نہیں اٹھا سکتی۔ لے دے کے ان کا شکار سیاستدان ہی بنتے ہیں کیونکہ ان کا جرم یہی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں ان کی کارگردگی پر سوال اٹھاتے ہیں۔
صادق و امین کی شرائط واضح طور پر سیاستدانوں کو بلیک میل کرنے کے لیے رکھی گئی ہیں۔ جو ادارہ مسلسل آئین کو پامال کرے وہ صادق و امین ہے اور جسے عوام منتخب کریں اور آئین کے مطابق کام کرنا چاہے وہ کرپٹ ہے۔صادق و امین کی یہی تلوار کل کو تحریک انصاف کے رہنماؤں پر بھی لٹکے گی جو جرنیلوں کی ہدایات کے برعکس سیاست کریں گے۔
BBC/New desk
♦