اسلم ملک
پنجابی فلموں کے مقبول ترین گانوں میں سب سے زیادہ تعداد حزیں قادری کے لکھے گانوں کی ہے۔ انہوں نے فلمی نغمہ نگاری کا آغاز اردو فلم ’’دو آنسو‘‘ سے کیا۔ لیکن اس کے بعد صرف اور صرف صرف پنجابی فلموں کی کہانیاں اور گیت لکھے۔
حزیں قادری کا اصل نام بشیر احمد تھا۔ 1926ء میں گوجرانوالہ کے گاؤں راجہ تمولی میں پیدا ہونے والے بشیر احمد غربت و افلاس کے سبب اپنی تعلیم مکمل نہ کرسکے۔ وہ صرف پرائمری پاس تھے۔ لیکن قدرت نے انہیں بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا اور انہوں نے ان صلاحیتوں کا ایسا شاندار مظاہرہ کیا کہ ایک عالم نے ان کی فنی عظمت کا اعتراف کیا۔
حزیں قادری کو سب سے پہلے ریڈیو پاکستان میں موقع ملا جہاں ان کا پہلا گیت ہی بہت مقبول ہوا۔ اس گیت کے بول تھے ’’اکھیاں نوں رہن دے اکھیاں دے نال‘‘۔
نامور ہدایت کارانور کمال پاشا نے 1950ء میں انہیں اپنی کامیاب فلم ’’دو آنسو‘‘ میں موقع دیا ۔۔1960ء سے 1970ء کی دہائی بلاشبہ حزیں قادری کے نام ہے۔ اس پورے عشرے میں وہ پنجابی فلموں کےمصروف ترین گیت نگار اور کہانی نویس تھے۔
ان کی کامیاب فلموں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ڈنکے کی چوٹ کہتے تھے کہ ان کی کونسی فلم سلور جوبلی کرے گی اور کونسی گولڈن جوبلی۔
وہ پہلےکسی فلم میں ایک دو گانے لکھتے رہے۔1952 میں وے تو آبھاویں نہ آ سجنا،اساں تکدے رہنا تیرا راہ سجنا،1953 میں گلاں سن کے ماہی دے نال میریاں، دوپٹہ بے ایمان ہوگیا ، مقبول ہوئے۔ 1954 میں کوئی پنجابی فلم نہیں بنی ۔ بریک تھرو انہیں 1955ء میں فلم ’’پاٹے خاں ‘‘ سے ملا ، جس کے تمام گانے انہوں نے لکھے۔
حزیں قادری کی یادگار فلموں میں ہیر، پاٹے خان، پتن، ماہی منڈا، نوراں، چھومنتر، موج میلہ، پھنے خان، جماں جنج نال، چن مکھناں، باؤ جی، سجن پیارا، جنٹرمین، ماں پتر،سجناں دور دیا، خان چاچا، سلطان، مستانہ ماہی شامل ہیں۔
’’چن مکھناں‘‘، ’’سجن پیارا اورجند جان‘‘ جیسی فلموں کے کہانی نویس اور گیت نگار حزیں قادری ہی تھےوہ 1970ء میں ریلیز ہونے والی پنجابی فلم ’’سجناں دور دیا‘‘ کے پروڈیوسر بھی تھے۔
ان کے چند مشہور ترین پنجابی نغمات یہ ہیں
رناں والیاں دے پکن پراٹھے (ماہی منڈا) –برے نصیب میرے (چھومنتر) –ٹانگے والا خیر منگدا (ڈاچی) –چن میرے مکھناں (چن مکھناں) –سیونی میرا ماہی میرے بھاگ جگاون آ گیا (مستانہ ماہی) –ماہی وے سانوں بھل نہ جاویں (ملنگی) –سجناں نیں بوہے اگے چک تان لئی(بھریا میلہ) اپنابناکے، دل لاکے چھڈ جائیں ناں (جنٹرمین) – دلدار صدقے، لکھہ وار صدقے (سلطان)دنیا مطلب دی او یار (دنیا مطلب دی) پنچھی تے پردیسی(نوراں)ٹانگے والا خیر منگدا(ڈاچی)تھوڑا تھوڑا چن ویکھیا(ہتھ جوڑی)جیو ڈھولا(پھنے خاں)چھلا میرا کن گھڑیا(جی دار)ماہی وے سانوں بھل نہ جائیں(ملنگی) تیرا کی جانا بیگانے پت دا(بھریا میلہ)چک تان لئی(بھریا میلہ) کلا بندہ ہووے بھاویں رکھہ نی(چاچاجی) سیو نی میرے دل دا جانی( دل دا جانی) بھل گئی میں بھل گئی(چن مکھناں) تیرے جہے پت جمن ماواں( چن مکھناں ) پاک پتن تے آن کھلوتی( عشق نہ پچھے ذات)وگدی ندی دا پانی(عشق نہ پچھے ذات) چھلا دے جا نشانی(چن ویر) کہندے نیں نیناں( جماں جنج نال) ماہی وے بنگلہ پوا دے(جگ بیتی)۔
حزیں قادری کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہیں دوبار نگار ایوارڈ سے نوازا گیا اور یہ اعزاز انہیں فلم ’’ضدی‘‘ (1973ء) اور’’غازی علم دین شہید‘‘(1978ء) کا سکرپٹ لکھنے پر ملا۔ ’’ضدی‘‘ کو آج بھی پاکستان کی چند بہترین پنجابی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔
عنایت حسین بھٹی جوہرِ قابل کی قدر کرنا جانتے تھے۔ انہوں نے حزیں قادری کو بہت احترام دیا۔ یہاں تک کہ بھٹی پکچرز کی ہر فلم کے آغاز پر یہ لکھا ہوتا تھا۔
۔’’حزیں قادری پیش کرتے ہیں‘‘۔
عنایت حسین بھٹی کے چھوٹے بھائی کفایت حسین بھٹی المعروف کیفی کو بھی حزیں قادری نے ’’سجن پیارا‘‘ میں متعارف کرانے کی تجویز دی
تھی۔ اس سے پہلے یہ کردار اداکار حبیب کو سونپا گیا تھا۔ حزیں قادری کے زمانے میں بھٹی پکچرز پر دولت کی بارش ہونے لگی۔ لیکن یہ مرد درویش ہمیشہ حرص اور لالچ سے دور رہا۔
حزیں قادری کو ان کی اعلیٰ انسانی اقدار کے حوالے سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ 1989ء میں انہیں ایک اور اعزاز سے نوازا گیا جب انہیں 25 سالہ فلمی خدمات پر خصوصی نگار ایوارڈ دیا گیا۔ 19 مارچ 1991ء کو حزیں قادری راہی ملک عدم ہوئے۔ ان جیسا شاید اب کوئی نہ آئے۔
[عبدالحفیظ طفر اور اخلاق عاطف سے استفادہ