گذشتہ دنوں وزیر اعظم جناب نواز شریف نے ہولی کے تہوار کے موقع پر پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں بات کی ہے۔انہوں نے حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی گیارہ اگست والی تاریخی تقریر کا حوالہ دیا اور پاکستان میں رواداری کی روایات کو فروغ دینے پر زور دیا۔
اس کے رد عمل میں ایک مولانا صاحب نے ان کے خلاف توہیں مذہب کا فتوی صادر فر ما دیا۔ عوام نے اس فتوے کو خاص اہمیت نہیں دی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ نواز شریف صاحب دائیں بازو کے قدامت پرست سیاست دان ہیں۔وہ صوم و صلاۃ کے پابند انسان ہیں۔ان کا ماضی اور ابتدائی نظریاتی پس منظر بھی بڑی حد تک اسلامی قدامت پرستی سے جڑا ہوا ہے۔پاکستان کے مین سٹریم میڈیا نے بھی اس فتوے کو ان ہی وجوہات کی بنا پر کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔حالانکہ اسی میڈیا کا سلمان تاثیر مرحوم کے سلسلے میں رد عمل اس کے برعکس تھا جو ان کی موت اور ان کے قاتل کو ہیرو بنانے پر منتج ہوا۔
بہرحال وزیر اعظم کے خلاف یہ فتویٰ پاکستان میں ایک بڑھتے ہوئے خطرناک رحجان کی نشاندہی کرتا ہے۔اب وہاں ایسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے کہ بعض نام نہاد علما فتوے ہاتھ میں لیکر تاک میں بیٹھے ہیں۔ جوں ہی کوئی زبان کھولتا ہے، اور ان کی سوچ سے مختلف بات کرتا ہے، اس کے خلاف فورا فتویٰ آ جاتا ہے۔ان خطرناک حالات میں پاکستان میں سوشل میڈیا کے بارے میں نئے قوانیں کی بات ہو رہی ہے جو ان حالات میں وسیع پیمانے پر غلط استعمال ہوں گے۔اختلاف رائے رکھنے والوں پر جھوٹے اور من گھڑت الزام لگائے جائیں گے۔
کئی آزاد خیال اور ترقی پسند سوچ رکھنے والوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں ہوں گی۔ اس وقت پاکستان کے سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر ایسے لوگ بحث مباحثے اور الزام تراشیوں میں مصروف ہیں جو کسی بھی حوالے سے اس طرح کی سرگرمی کے اہل نہیں۔جن موضوعات پر وہ بحث میں مصروف ہیں ان کے بارے میں ان کا کوئی باقاعدہ مطالعہ یا ریسرچ نہیں۔ ان موضوعات میں ایک اسلام اور سیکولر ازم بھی ہے۔ اس بحث ،بلکہ گالم گلوچ میں وہ لوگ آگے آگے ہیں جن کو نہ اسلام کا پورا مطالعہ ہے نہ سیکولرازم کی سدھ بدھ۔ مگر وہ اپنی بات منوانے پر بضد ہیں۔
یہ لوگ اس بنیادی فکری مغالطے کا شکار ہیں کہ اسلام اور سیکولرازم آپس میں متصادم ہیں۔ اور سیکولرازم کی بات کرنے والے لادین اور دہریے ہوتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں اسلام پرستوں اور سیکولر مسلمانوں کے درمیان ایک مدت سے یہ بحث جاری ہے۔ بحث کی اس طوالت کی کئی علمی وجوہات بھی ہیں اور سیاسی بھی۔ علمی وجہ اسلامی دنیا میں سیکولرازم کی غلط تعریف اور تشریح ہے۔ یہ غلط تعریف شعوری بھی ہے اور غیر شعوری بھی۔ اسلام پرست سیکولرازم کا تر جمہلا دینیت یا دہریت کرتے ہیں۔ جو سراسر غلط ہے۔ سیکولرازم کا لادینیت اور دہریت سے دور پرے کا بھی کوئی تعلق نہیں۔
دنیا میں لاکھوں مسلمان سیکولرازم پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ صوم و صلاۃ کے پابند عام سچے مسلمان ہیں۔ مگر ان کا خیال ہے کہ ریاست اور مذہب کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ یعنی ریاست کو لوگوں کے عقائد اور مذہبی معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔
جیک برک ایک فرانسیسی دانشور ہے۔ اسے عرب اور اسلامی دنیا کے مسائل کا ماہر تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ اسلام اور سیکولر ازم کے درمیان مباحثے کو ایک جھوٹی لڑائی قرار دیتا ہے۔ اس کے خیال میں اس لڑائی کی اصل وجہ سیکولرازم کی غلط تعریف ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ میں ایک سکے بند کیتھولک عیسائی ہوں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ میں ایک سچا سیکولر انسان ہوں۔ میں اس حوالے سے مسلمان علما کی بے چینی سمجھتا ہوں۔
اس بے چینی کی وجہ یہ ہے کہ وہ سیکولرازم سے مراد لا دینیت لیتے ہیں ہیں۔ حلانکہ یہ محض ریاست کی مذہب سے علیحدگی ہے۔ایک اسلامی سکالر عبدل مطی حجازی بھی یہی کہتا ہے۔ اس کے خیال میں اسلام اور سیکولرازم میں کوئی تصادم نہیں۔ مذہب اور نیچرل سانئس کے درمیان فرق کرنا ضروری ہے۔ ریاست کو مذہبی امورمیں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔ مگر اس موضوع پر سب سے مضبوط دلائل محمد امین العا لم کے ہیں۔ یہ مصری دانشور لکھتا ہے کہ عقیدہ اور سیکولرازم آپس میں متصادم نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اسلام پرست مذہب کی اصل روح کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔وہ مذہب کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ اور اس حوالے سے سخت گمراہی کا شکار ہیں۔ وہ شدت پسندی، بنیاد پرستی اور رجعت پسندی کو مذہب سمجھتے ہیں۔
سیکولرازم کا مطلب کوئی اپنی شناخت کھونا نہیں ہے۔ یہ مسرت ، خوشحالی اور انسانی آزادیوں کی طرف بڑھنے کا ایک راستہ ہے۔طریقہ ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ مذہب اپنا کام کرے اور ریاست اپنا تو اس سے اسلام اور مذہب کو کوئی خطرہ نہیں۔ البتہ شدت پسندوں اور مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے والوں کے مفادات خطرے میں پڑھ جاتے ہیں۔اس بحث کی سیاسی وجوہات یہ ہیں کہ اسلام پرستوں کے لیے سیکوازم کو لادینیت قرار دیکر اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف پروپیگنڈا کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ وہ سیکولازم کو لادینیت قرار دیکر عام لوگوں کے جذبات میں اشتعال پیدا کرتے ہیں۔
اس طرح ان کے لیے سیکولر مسلمانوں کا مقابلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ گویا وہ اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کا استعمال کرتے ہیں۔ ان کا یہ عمل اسلام کی روح اور خاتم النبین حضرت محمد ؐ کی تعلیمات سے متصادم ہے۔
حاصل بحث یہ ہے کہ فی زمانہ ایک انسانی سماج کے لیے جمہوریت کی طرح ریاست کا مذہب سے علیحدہ ہونا بھی ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر انسانی ترقی، خوشحالی اور حقیقی شہری آزادیوں کا خواب شرمندہ تعبیر ہونا ممکن نہیں۔ایسا کرنے سے نہ اسلام خطرے میں پڑتا ہے اور نہ ریاست گمراہ ہوتی ہے ۔ بلکہ دونوں اپنے اپنے دائرہ کار کے اندر رہ کربہتر طریقے سے اپنے اپنے فرائض ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔۔اور عقائد کے اعتبار سے صرف ایک غیرجانب دار ریاست ہی اپنے تمام شہریوں کے ساتھ یکساں برتاؤ کر سکتی ہے۔
♥
One Comment