سلمیٰ اعوان
میں اِس وقت پیٹرز برگ کے پیلس سکوائر میں بیٹھی روسی تاریخ کو پڑھنے میں مصروف تھی۔ کتنی ظالم تھی یہ تاریخ بھی۔ خو د کو بے نقاب کرنے کے لئے مری جا رہی تھی ۔ میرے سامنے ظلم میں ڈوبے سیاہ اوراق پھڑ پھڑانے لگے تھے جوخون میں نہائے ہوئے تھے اور جنہوں نے اِس سکوائر میں وقت سے اپنی قیمت وصول کی تھی۔
یہ 1905ء تھا۔جنوری کا بے حد سرد اور بے مہر سا دن۔وہی دن جس نے درحقیقت انقلابِ اکتوبر کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اسمبلی آف رشین ورکرز کا نمائندہ فادر گاپون پیٹرزبرگ کی ایک فلاحی شخصیت تھی ۔کارخانوں ، فیکٹریوں اور مِلوں کے مزدوروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں وہ بُہت بار تحریری درخواستیں حکام کو پیش کر چکا تھا۔مگر شنوائی نہ ہونے پر اُس نے ایک خاموش احتجاج کی صورت زار نکولس کو عرضداشت پیش کرنے کا پروگرام ترتیب دیا۔ لینن اور پلیخا نوف کی پارٹی سوشل ڈیموکریٹک کے دونوں دھڑے بالشویک اور منشویک اِس خاموش مظاہرے میں شامل تھے۔
سکوا ئر خاموش مظاہرین سے پُر تھا۔ احتجاجی امیدا فزا نظروں سے پیلس کی کھڑکیوں کے شیشوں کو دیکھتے تھے اور بُہت پُر اُمید تھے کہ اُن کا باپ (زار) اِس بار ہرگز اُن کی درخواست ردّ نہیں کرے گا۔
سہ پہر کے قریب شہر کے مختلف حصّوں سے آنے والے لوگوں نے راستوں میں رکھی رکاوٹیں ہٹانے کی کوششیں کی اور گولی چلی۔ پھر پیلس سکوائر پر بھی بوچھاڑ ہوگئی اور میدان لاشوں اور خون میں نہا گیا۔
زار نکولس دوم نے اپنے محل کی بالکونیوں کے شیشوں میں سے پیلس سکوائر کے اِس خوفناک منظر کو دیکھتے ہوئے کیا صرف ایک لمحے کے لئے اپنے بارے میں بھی کسی ایسے ہی منظر کا سوچا ہوگا۔ ہر گز نہیں۔
یقیناً نخوت سے سرجھٹکتے ہوئے اُ س نے کہا ہوگا۔ ’’یہ ایسے ہی انجام کے مستحق تھے۔‘‘
ہمارے حُکمران ٹولوں کی طرح جو اپنی کُرسیوں کی سلامتی کا سودا معصوم بچوں کی لاشوں پر کرتے ہیں۔ ڈالروں کے عوض اپنے لوگوں کو سی آئی اے کے حوالے کرتے ہیں اور امریکہ جیسے بدمعاش کے لئے اپنے معصوم لوگوں پر بمبوں کی بارش کرواتے ہیں۔
رُوس کے سادہ لوح مزدُوروں نے چند گھنٹوں میں ہی وہ سبق پڑھا جو عام معروضی حالات میں انہیں پڑھنے میں سال لگتے۔ کمیونزم کی تنظیموں کے لوگ جنہیں ابھی عام رُوسی عوام کے صدیوں پرانے زار سے متعلق سکول آف تھاٹ رکھنے والے حلقوں میں پذیرائی نہیں مل رہی تھی انہوں نے پیٹرز برگ کی گلیوں میں روتے بلکتے مزدُوروں کو اپنی بانہوں میں سمیٹ کر انہیں اُس فریم آف تھاٹ سے نکال لیا تھا۔
مارکس کا یہ کہا ہوا سچ ثابت ہوا تھا کہ کبھی کبھار انقلاب کو آ گے بڑھانے کے لئے ردّ انقلاب کے چابک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور حکمرانوں کی حماقتوں اور کم ازکم اُس رات 4600لوگوں کی موت نے یہ چابک فراہم کر دی تھی۔
♦