تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان کے ہتھیار ڈالنے کے بعد پاکستانی میڈیا میں ہیرو کا درجہ پاچکے ہیں۔ ریاست کی سیکیورٹی ایسٹیبشلمنٹ کا پروردہ میڈیا اسے ہیرو بنانے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے جبکہ حافظ سعید تو پہلے ہی پاکستان کے ہیرو ہیں جو کشمیرکو ہندوستان کے قبضے سے چھڑانا چاہتے ہیں۔
درحقیقت احسان اللہ احسان اور حافظ سعید دونوں ہی ریاست کے اثاثے ہیں۔ہرریاست کو اپنے اثاثوں پر فخر ہوتا ہے اس لیے پاکستانی ریاست بھی اپنے اثاثوں پر فخر کرتی ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ ایک ملک کے اندر دہشت گردی میں ملوث رہ چکا ہے جبکہ دوسرا سرحد پار دہشت گردی میں مصروف ہے۔ایک خراسان کی اسلامی حکومت کے نام پر ہندوستان کو اسلامی ریاست میں بدلنا چاہتا ہے تو دوسرا کشمیر کی آزادی کی آڑ میں وہی کچھ کر رہا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان کی فوجی حراست میں دیئے گئے انٹرویو پر بے شمار تبصرے اور آراسامنے آرہی ہیں۔ سوشلستان یعنی سوشل میڈیا پر تبصرے اس لیے اہمیت کے حامل ہیں کہ ان کو نشر کرنے پرکسی سنسر شپ کا سامنا نہیں ۔
مسعود قمر لکھتے ہیں کہ ہمارے اثاثوں کو جب افغانستان میں مار پڑنے لگی تو وہ واپس اپنی بیرکوں میں آ رہے ہیں۔ بس ایک شرط ہے کہ وہ اپنے ساتھ ایک بیان حلفی لیتے آئیں کہ ہم نے جو بہنوں کے سہاگ اجاڑے، معصوم بچوں کی تختیاں اور انکے بستے انہی کے خون سے رنگے ، بسوں سے اتار کر لوگوں کی گردنیں ان کے جسموں سے الگ کر کے ان سے فٹبال کھیلا یہ سب ہم نے انڈیا سے پیسے لے کر کیا تھا ہم سے یہ سب انڈیا کی “را” کراتی رہی ہے۔۔دیکھیں مارنا یا قتل کرنا تو ہم گوارا کر لیں مگر انڈیا سے پیسے لینا یہ بہت بری بات ہے۔
خالد محمود لکھتے ہیں کہ ملک کو ،قاتلوں کے خون آلود کپڑوں کی سر عام دھلائی کے وحشی موسم نے لپیٹ لیا ہے۔عوام دشمن قاتلوں کی طرف سے وسیع پیمانے پر خونریزی کے بعد،ان کی نیت پر شک نہ کرنا اور ان قاتلوں کو پھر سے نارمل زندگی بسر کرنے دینا مقتولوں اور شہیدوں کے لواحقین کے ساتھ انتہائی گھناؤنا مذاق ہے۔اگر ان قاتلوں کے نظریاتی اور مالی سہولت کاروں اور ان کے لئے معذرت خواہ ہمدردی رکھنے والوں میں کوئی فرق نہیں ہے تو انہیں زمامِ اقتدار سونپ کر گھر چلے جائیں۔اردو صحافت میں،اس قبیح فعل کی طرح ،غالباً ارشاد احمد حقانی نے ڈالی تھی۔وہ جنرل ضیاء الحق کے اقدامات کی دلائل سے نفی بھی کر دیتے تھے اور آخر میں لکھ دیتے تھے میں ان کی نیت پر شک نہیں کرتا۔
عارف جمال لکھتے ہیں کہ اگرچہ بہت سے لوگ احسان اللہ احسان کے پاک فو ج کے آگے ہتھیار ڈالنے پر حیران ہیں اور پھر اس کے ساتھ ایک ہیرو کا سلوک ہو رہا ہے۔ مگر میری پہلے دن سے یہی رائے رہی ہے کہ خراسان کی اسلامی حکومت کا تصور دراصل پاک فوج کا تصور ہی ہے۔ اسلامی ریاست یا جماعت الاحرار میں بڑی تعداد میں حاضر سروس اور ریٹائرڈ فوجی افسر شامل ہیں۔ کچھ حاضر فوجی افسروں نے نورین لغاری کے بھی گن گائے ہیں جو کہ داعش کی جانب سے خود کش حملہ کرنے جارہی تھی۔
دہشت گردی کے ہرواقعے کے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ کام مسلمان کا نہیں۔ہمارے علما کرام اور مذہبی دانشوروں کا خیال ہے کہ اسلام میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں حالانکہ بیت اللہ محسود ہو یا مُلا فضل اللہ یا کوئی اور طالبان رہنما ، لوگوں کو قتل کرنے سے پہلے متعلقہ قرآنی آیات اور احادیث پڑھ کر سناتے ہیں جس کے مطابق ایسے افراد کے قتل کی اجازت اسلام نے دی ہے۔
ارشد نذیر بھٹہ لکھتے ہیں کہ جس مذہب کا آج تک “غلط استعمال” ہی ہوتا آیا ہو اور دعویٰ بھی الہامی اور الہٰی مذہب ہونے کا ہو، اور اس “غلط استعمال” نے ہزاروں جانیں لے لیں ہوں تو پھر ہم سب کو ابھی اس کے “صحیح استعمال” کی سیاست کے لئے تیار رہنا چاہئے کیونکہ جب “غلط استعمال” کا تعین کرلیا جائے گا تو پھر اس کے “صحیح استعمال” پر سیاست ہوگی۔ البتہ چودہ سو سال تک اس کے’’صحیح استعمال‘‘ کا تعین نہیں ہوسکا۔
♦