قتل نہیں کرنا چاہئے۔ چوری نہیں کرنی چاہئے۔ انسانوں کی دل آزاری نہیں کرنی چاہئے۔ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے۔ ہمیشہ سچ بولنا چاہئے۔ محبت کو عام کرنا چاہئے۔ نفرتوں کو ختم کرنا چاہئے۔ یہ بنیادی اخلاقی تصورات ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ آفاقی سچ ہیں۔ ایک طبقہ ہے جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ ایسے تمام اوصاف کو افراد فرداً فرداً خود پر لاگو کرسکتے ہیں۔ جب افراد فرداً فرداً ان خصوصیات کو خود پر لاگو کرنا شروع کردیں تو پورے کا پورا معاشرہ ٹھیک ہوجائے گا۔
ابھی ہم “قتل کیا ہے؟“، “چوری کیا ہے؟“، “دلآزاری کیا ہے؟“، َ“محبت کیا ہے ؟“، “نفرت کیا ہے؟” “جھوٹ کیا ہے؟” “سچ کیا ہے؟” جیسے فلسفیانہ سوالات میں نہیں الجھتے۔ بس وقتی طور پریہ فرض کرلیتے ہیں کہ یہ آفاقی سچائیاں انسانیت کا ورثہ ہیں اور انسانی تہذیب کا زیور ہیں۔ جب ہم انہیں انسانی تہذیب کا زیور مان لیتے ہیں تو پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سچائیاں کبھی لاگو کیوں نہیں ہوسکیں یا اگرکچھ عرصہ کے لئےسماج کے ایک چھوٹے سے گروہ پر لاگو ہوئیں بھی، تو پھر دم کیوں توڑ گئیں؟
ان تصورات کے کچھ حامی اس سوال کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس کائنات میں ازل سے “خیر” اور” شر” کی کشمکش ہے۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہی کشمکش آپ کو ایسے تصورات کے اطلاق کی راہ میں بھی حائل نظرآتی ہے ۔ ان سے یہ پوچھا جائے کہ یہ کشمکش کہیں اوپر سے آئی ہے تو وہ اپنےان تصورات کے دفاع کے لئے فوراً ہی ما بعد طبعیاتی اور ماورائی قوتوں کے تصور میں پناہ لیتے ہیں اور یہ مان لیتے ہیں کہ اس کائنات میں “خیر” اور” شر” ما بعد طبعیاتی اور ماورائی تصورات ہیں۔ یعنی ان کے “خیر” اور “شر” کی تعریف و توضیح کا ماخذ مذہب ہوتا ہے۔
اگر ان سے پوچھا جائے کہ خیر اور شر کے اس کھیل میں انسان کی فطرت کس سرشت پر تخلیق کی گئی ہے یعنی انسان میں خیر کو لاگو کرنے کی زیادہ قوت ہے یا شرسے مفتوح و مغلوب ہوجانے کی۔ اس کا بھی وہ کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے پاتے۔ کیونکہ انسانی فطرت کے خیر کی طرف مائل ہونے اور شر کو مفتوح ومغلوب کرنے کی انسانی سرشت کو مان لینے اور اس کا جواب “ہاں” کی صورت میں سامنے آنے سے ایک اوربڑا اور خوفناک سوال سامنے آ کھڑا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ پھر تو انسان کو اب تک خیر کا کم ازکم ایک مثالی معاشرہ قائم کرلینا چاہئے تھا۔ کیونکہ ایسا نہیں ہوسکا۔ اس لئے وہ انسانی سرشت کے سوال ہی سے پہلو تہی کرتے ہوئے “خیر اور شر کی کشمکش” جیسی ذومعنی انسانی کیفیت میں پناہ لیتے ہیں۔
اگر جواب مفتوح و مغلوب ہوجانے کی سرشت کو مان لینے کی صورت میں سامنے آجائے تو پھر سارا ماورائی فلسفہ ہی زمین بوس ہوتا ہوا نظر آتا ہے اس لئے اس جواب سے بھی اجتناب ہی برتا جاتا ہے۔
ان کی “خیر” اور “شر” کی تعریفات اور توضیحات بھی اپنے اپنے مذہبی دائرے میں محدود رہتی ہیں۔ کیونکہ کچھ الہامی مذاہب کو اس کائنات میں غیر مبدل ہونے کا زعم بھی ہے اس لئے وہ الہامی کتابوں میں تحریف کے بجائے ان کی تشریحات و توضیحات میں اپنی ان خواہشات کو پورا کرتے ہیں۔ اور اپنے اپنے فرقوں کے حوالوں سے “خیر” و “شر” کی تشریح و توضیح مذہب ہی کی آڑ میں نکال لیتے ہیں۔
اسی سے وہ ایک اور نکتہ بھی مترشح کرلیتے ہیں کہ یہی ہمارا امتحان ہے۔ ان سے اگر یہ پوچھ لیا جائے کہ کچھ مذہبی فرقے دوسری ثقافت کے لوگوں کو “گمراہ” تصور کرتے ہیں، ان کے نکتہِ نظر سے ان کا پورے کا پورا معاشرہ “شر” کی تعریف پر کھڑا ہوتا ہے اس لئے وہ اس “شر” کو صفحہ ہستی سے مٹانے کو عین “خیر” تصور کرتے ہیں۔ اس بارے میں بھی کون کے پاس کوئی واضح ثبوت یا دلیل نہیں ہوتی۔
ایسے لوگ زیادہ پیچیدہ سوالوں میں پھنسنے سے گریز کرتے ہوئے بس اتنا کہنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ ازل سے چل رہا ہے اور ابد تک چلتا رہے گا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قدرت، فطرت یا خدا وند نے انسان کو یہ طاقت دی ہے کہ وہ شر کو مفتوح و مغلوب کرلے اور خیرکو اپنے اوپر مکمل طور پر لاگو کرلے۔ کچھ بس ادھر اُدھر کی ہانک کراس سوال کوہی گول کرجاتے ہیں۔ ان کے پاس اس کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہوتا۔ وہ بس سماج میں رائج ان اصولوں کو بغیر سوال کئے قبول کرلیتے ہیں۔
اُن کے خیال میں یہی سچ ان کی زندگیوں کو مطمئن کرنے لئے کافی ہے۔ کون ان سچائیوں سے کیا حاصل کررہا ہے؟ ایسے تصورات محض تصورات کے طور پر زندہ رکھے گئے ہیں یا سماج نے خود پر کبھی ان تصورات کو لاگو بھی کیا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہوسکا تو اس کے محرکات کیا ہیں؟
کچھ تصورات کی عمر طویل ہوتی ہے کچھ کی کم۔ کیا طویل عمر پانے والے تصورات کی کوئی مادٰی اور معاشی وجوہات بھی ہوتی ہیں؟ ایسے لوگوں کو ان سوالات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
پھر ایسے تصورات پر یقین کرنےوالے لوگ معاشی حقیقتوں کو اخلاقیات کے تابع کرکے دیکھتے ہیں اور انفرادی تبدیلیوں سے سماج کے اندر انقلاب برپا کرنے کے خواہ ہوتے ہیں۔
سماج کے بارے میں ان کا یہ رویہ غیر سائنسی ہوتا ہے۔ وہ پوری تاریخ سے اس قسم کے مثالی سماج کی مثال بھی نہیں دے سکتے۔ انبیا کے قائم کردہ معاشروں کی مثالیں دیں گے۔ لیکن ان کے ادوار میں قائم ہونے والی اچھی روایات کے ختم ہوجانے کی کوئی وجہ بتانے سے قاصر رہتے ہیں۔ مثلاً حقوق نسواں کی بات کرتے ہوئے وہ حضرت خدیجہ کے حضور کو شادی کے لئے بھیجے گئے پیغام کا حوالہ تو دیں گے لیکن یہ بتانے سے قاصر رہیں گے کہ آخر یہ آفاقی سچائی پھر دم کیوں توڑ گئی۔
انسان کی سرشت آخر ہے کیا؟ اس طرح سے بے شمار مثالیں ہیں جن کو بیان کرنے میں تفاخر تو موجود ہوتا ہے لیکن اس منطقی سوال کا جواب قطعاً موجود نہیں ہوتا کہ پھر آخر خیر جب ایک دفعہ رائج ہوگیا تو پھر دم کیوں توڑ گیا۔ قدرت یا فطرت یا مشیتِ ایزدی انسان سے کس چیز کی خواہش رکھتی ہے؟
ایسے لوگ ایسے مابعدطبعیاتی تصورات کے سیاسی مضمرات کی طرف بھی توجہ نہیں دیتے۔ وہ اس پہلو پر غور ہی نہیں کرتے کہ ان کے یہ اخلاقی نظریات اگر عملی شکل اختیار نہیں کرپارہے تو پھر وہ کون سے عناصر ہیں جو ان سے سیاسی قوت اور طاقت کشید کررہے ہیں۔ یہ نظریات کس طرح ان کی خدمت کررہے ہیں اور ان کو زندہ رکھنے میں ان کا کتنا ہاتھ ہے؟
اگر انسانی تاریخ کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو نہ خیر ‘خیر‘ ہے اور نہ ہی شر ‘شر‘ ہے۔ یہ سب خود انسان کے تخلیق کردہ تصورات ہیں جو وقت کے ساتھ تغیرپذیر ہوتے رہے ہیں۔ ماضی میں کچھ تصورات کی عمر طویل تھی اور کچھ تصورات عمر کے اعتبار سے کم عرصہ تک زندہ رہے سکے۔ البتہ جن تصورات کی عمر زیادہ تھی ان کے پشت پر معاشی حقیقتیں کارفرما تھیں۔ ان معاشی حقیقتوں نے ایسے تصورات کی عمر کو طوالت دی۔ یا ایسے تصورات کسی نہ کسی طرح سے استحصالی طبقات کے مفادات کا دفاع کرتے رہے ہیں۔ اس لئے وہ زیادہ طویل عرصہ گزار جاتے ہیں۔
استحصالی طبقہ ان تمام تصورات کو ہمیشہ ایسے تصورات کواپنے اپنے معروض کے تقاضوں کے مطابق ڈھالتا رہا ہے اور ان کو اپنے حق میں استعمال کرتا رہا ہے۔ ثبوت کے طورپرآج تک کے معلوم سماج کے ابتدائی ادوار یا موجودہ “ترقی یافتہ” سماجوں کا جائزہ لیں تو آپ دیکھیں گے کہ اوپر بیان کردہ “قتل کیا ہے؟“، “محبت کیا ہے؟“، “نفرت کیا ہے؟“، “جھوٹ کیا ہے؟” ، “سچ کیا ہے؟” وغیرہ وغیرہ جیسے تمام تصورات پر ظالم اور مظلوم، استحصالی اور استحصال زدہ طبقوں کے درمیان ایک واضح تقسیم موجود رہی ہے۔ ظالم اور استحصالی طبقہ قتل اس لئے کرتا ہے کہ وہ سراپا شر کو مٹا رہا ہوتا ہے اورایسا انسانیت کی بقا کے لئے کررہا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مظلوم، پسا ہوا اور استحصال زدہ طبقہ اس کو ظلم تصور کرتا ہے۔
آج شام میں انسانوں کے قتل کی بات ہو، یا اتنے وسیع پیمانے پر انسانوں کی ہجرت ہو، ان کی زندگیوں کو جس پستی کی طرف دھکیل دیا گیا ہے یا اب تک دھکیلا جارہا ہے اس پر آپ کو استحصالی طبقے اور استحصال زدہ طبقے کے نکتہِ نظر کا اختلاف واضح نظر آئے گا۔ یہاں اس طرف اشارہ کردینا بھی برمحل معلوم ہوتا ہے کہ “مارنے والے مسلمان” اور “مقتول مسلمانوں” اپنے اپنے انداز سے حقائق کی تشریح کرتے ہیں۔
بشارالاسد کی حکومت کو قائم رکھنے والوں کا نکتہِ نظریہ ہے کہ اگر اُس کی حکومت ہٹائی گئی تو کشت وخون زیادہ ہوگا۔ سارا سیاسی نظام تہہ و بالا ہوکر رہ جائے گا۔ بڑے پیمانے پر انسانی بحران جنم لیں گے۔ سارے کا سارا مشرقِ وسطیٰ ایک دفعہ پھر بحرانوں کی زد پر ہوگا۔ اس لئے بس بشار الاسد کی حکومت کو بچایا جانا چاہئے۔ ان کے نزدیک بس یہی خیر ہے۔
اس کے برعکس شیعہ کمیونٹی میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ سعودی عرب وہابی طرزکا اسلام اور طبقہ پیدا کرکے اپنی بادشاہت کو دوام بخشنا چاہتا ہے۔ ایران، شام اور روس اس نکتہِ نظر کی حمایت کر رہے ہیں۔ خود اہلِ تشیع کمیونٹی اور بالخصوص ایران میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ سعودی عرب اپنے سلفی اور وہابی نظریات کو ہوا دے کر اور اپنی فرقہ وارانہ پالیسوں کے ذریعے ایران اور اہلِ تشیع کو دیوار سے لگانا چاہتا ہے۔ اس کھیل میں وہ امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل کی حمایت حاصل کرتا ہے۔
یہ اسلام کا تصورِ خیر ہے اور نہ ہی اس سے انسانیت کی بقا ممکن ہے بلکہ سعودی عرب اس طرح پورے خطے میں فرقہ وارانہ “تصورِ خیر” کو ہوا دے رہا ہے۔ بیان کردہ دونوں نظریات کو غور سے دیکھ لیں۔ آپ کو دونوں کے “تصورِ خیر” اور “تصورِ شر” کی تشریحات کا تضاد نظرآجائے گا۔
دونوں فرقے نظریات کی ایک دوسرے کے برعکس تشریح و توضیح کرتے ہیں۔ یہاں مذہب بس نمائشی حیثیت رکھتا ہے۔ مارنے والا مسلمان بھلے چار پشتوں سے مسلمان چلا آرہا ہوں، اُس کا یہ عمل مذہب کی حقیقی خواہش کے تابع نہیں ہے بلکہ اپنی ذات، ذاتی سیاسی اقتدار اور قوت کے لئے ہے۔ مرنے والے انسان تو مذہب کی خواہش کے تابع نہیں مررہے بلکہ اُن کا قتل کیا جارہا ہے۔ ان پر ظلم جبر اور استحصال مسلط کیا جارہا ہے۔ ایسے لوگ اس قسم کی تمام سیاسی وجوہات کو تو تسلیم کرتے ہیں لیکن یہ نہیں مانتے کہ مذہب اپنی حیثیت اور ذات میں معاشی حقائق کے سامنے بے بس ہے۔
اگر مذہب سیاست اور معیشت سے علیحدہ کوئی تمدن اور تہذیب فراہم کرتا ہے تو وہ محض معاشی اور سیاسی حقائق کے ہاتھوں یرغمال کیوں بنا ہوا ہے؟ اس سوال کا تسلی بخش جواب بھی کسی مذہبی کے پاس نہیں ہے۔
مذہب اپنی سرست میں ریاست اور سیاست کے جبر کا مقابلہ کرنے میں نہ صرف ناکام ہیں بلکہ اس کے بالکل برعکس ریاستی اور سیاسی جبرکا آلہ کار ہیں۔ مذہبی جذباتیت اور جنونیت پھیلا کر عام لوگوں کو اس میں الجھایا جاتا ہے۔ لوگوں کو اس جذباتیت میں الجھا کر اپنے دنیوی مفادات، سیاسی اقتدار اور معاشی مفادات حاصل کرتے ہیں اور لوگوں کو شہادت، جنت اور حور و کفور کی لالچ دیتے ہیں۔
ایسے نظریات کے پیچھے مذہب کی طاقت کا تڑکا لگا کر لوگوں میں محض جذباتیت کو برانگیخت تو کیا جاسکتا ہے اس سے بیان کردہ کوئی اخلاقی مقاصد حاصل نہیں کئے جاسکتے۔
موجودہ دور میں خود مذہب اپنی تعریف اور حدود متعین کرنے میں ناکام نظر آرہا ہے۔ لہٰذا خیر اور شر اور بیان کردہ نام نہاد اخلاقیات کو جدید سیاست کا بھی تڑکا لگایا جاتا ہے۔ ایک طوف انسانی حقوق میں “مذہبی آزادی” کے تصورکو تسلیم کیا جاتا ہے دوسری طرف سیاسی اور معاشی طاقتیں تمام تر انسانی حقوق کو روندتے ہوئے جس طرح تفرقہ بازی کو ہوا دیتی ہیں اور اپنے معاشی مفادات حاصل کرنے میں کسی ایک فرقے کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں تو یہی “مذہبی آزادی” فی ذاتہ “انسانیت” اور “معصوموں” کے استحصال کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
انسانی حقوق مذاہب کی آزادی کو تو مانتے ہیں لیکن “کون فرقہ کس مذہب کا صحیح نمائندہ ہے؟” اس سوال کا جواب انسانی حقوق میں موجود نہیں ہے۔ انسانی حقوق میں پایا جانے والا یہ ابہام دیگرقانون سازی میں استحصالیوں کے لئے رکھے گئے چور دروازے کی طرح کا ہے اور قصداً رکھا گیا ہے۔ تاکہ اس کو استحصالی سامراجی قوتیں بوقتِ ضرورت اپنے اپنے حق میں استعمال کرسکیں۔
لہٰذا انسانی حقوق، جمہوریت اور مذہبی آزادی تمام ایسے تصورات ہیں جو استحصالیوں کے آلہِ کار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔
♠
One Comment