محکوم اقوام کے حقو ق کیلئے ایک تواناآواز، جو خاموش ہوگئی
محمدحسین ہنرمل
حاکم اوربالادست قوتوں کی آمرانہ پالیسیوں سے شدید اختلاف رکھنے والے معمر سیاستدان عبدالرحیم مندوخیل طویل علالت کے بعد اکیاسی برس کی عمر میں گزشتہ دنوں کوئٹہ کے ہسپتال میں انتقال کرگئے ، اناللہ وانا الیہ راجعون۔
جنوبی پشتونخوا میں خان عبدالصمد خان شہید کے بعد پشتون قومی سیاست کی تشکیل میں جن خاص نظریاتی شخصیات نے حصہ لیا،ان میں مرحوم عبدالرحیم مندوخیل کاہمیشہ ایک منفرد کرداررہا۔ اپنی سرزمیں اور مٹی پرفریفتگی کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتاہے کہ مرحوم رحیم اپنا تعارف کراتے وقت ان مخصوص الفاظ کا سہارا لیا کرتے تھے ’’میں پشتونخوا کی سرزمیں کا باشندہ اور ژوب میرا مولد ہے، جسے ہم جنوبی پشتونخوا کے نام سے پکارتے ہیں۔
یعنی کوٹہ ، سیوئی ، پشین ، عبداللہ خان ، قلعہ سیف اللہ ، ژوب ، بوری ، بارکھان ، موسیٰ خیل ، زیارت ، تَل اور چوٹیالی ۔جو پشتونوں اور افغانوں کی مٹی ہے، شروع میں پیرنگیوں نے گندمک کے نام سے افغان وطن پر ایک معاہدہ مسلط کیا اور یہاں کے مذکورہ علاقوں کو مقبوضہعلاقے قرار دے کر یہاں سے جو ٹیکس وصول کیاجاتاتھااسے افغان حکمران (باچا) کو فراہم کیاجاتا۔سو، میرا تعلق اُسی مٹی سے ہے اور میں نے ژوب شین غر کے علاقے( اومژہ ) میں1936 کوآنکھ کھولی ہے‘‘۔
ابتدائی تعلیم ژوب ہی میں حاصل کی اور کوئٹہ کے سائنس کالج کوئٹہ طالبعلم رہنے کے بعدپشاور سے ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کی ۔مرحوم عبدالرحیم صاحب نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز1953 میں کوئٹہ کے سائنس کالج(اُسی وقت کے گورنمنٹ کالج ) سے کی ۔ایک جمہوری فیڈریشن اور مشرقی پاکستان کیلئے چونکہ اسی زمانے میں خان عبدالصمدخان اچکزئی کی تحریک زوروں پرتھی ، یوں ان کے افکار سے متاثر ہو کر مرحوم رحیم بھی’ ’ورور پشتون‘‘ تحریک کے کارکن بنے ۔بعد میں اسی وقت کے نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے سیاسی فلیٹ فارم سے ایک فعال سیاسی ورکر کی حیثیت سے انہوں نے اپنی قوم کی آزادی ، حقوق کی دفاع اور مٹی کی محبت کا لاج رکھنے کی خاطراپنی جدوجہد شروع کردی۔
اختلافات کی بھینٹ چڑھ کرنیپ جب ’’ بھاشانی اور ولی ‘‘کے نام سے دو گروپوں میں تقسیم ہوگئی تومرحوم رحیم نے بھاشانی گروپ کا ساتھ دیا۔نیپ کی تقسیم کے دوران عبدالصمدخان اچکزئی پہلے ولی اوربعدمیں بھاشانی گروپ میں چلے گئے ۔ بعدمیں جب پشتونخوانیشنل عوامی پارٹی کے نام سے انہوں نے ایک الگ پارٹی بنائی تو مرحوم رحیم صاحب مذکورہ پارٹی میں شامل ہوکر پھرسے اُن کے ایک وفادار ساتھی بن گئے۔
خان عبدالصمدخان اچکزئی کی شہادت کے بعد پشتونوں کے حقوق اور ہرقسم کی خودمختاری کے لئے مرحوم رحیم ان کے سیاسی جانشین محمودخان اچکزئی کیساتھ پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی ، پشتونخوا نیشنل عوامی اتحاد اور حالیہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے فلیٹ فارم سے تادم مرگ بطور سینئر ڈپٹی چیئرمین جدوجہدکرتے رہے۔ ظریف شہید پارک وہ مقام ہے جہاں پر ہونے والے جلسوں میں مرحوم عبدالرحیم کی گرجدار آواز دور سے پہچانی جاتی تھی۔اٹھارہ بیس سال پہلے اس طالبعلم نے جس عبدالرحیم کوایک غیور ، ملنسار اورمنکسرالمزاجِ پشتون کے طور پردیکھا اور پایاتھا ، بہت کچھ بدلنے کے باوجود ہم نے آخروقت تک انہیں اچھے اوصاف پرقائم پایا ۔
اُن کی خاکساری اور پشتونولی کی جگہ کبھی تکبر اور ابن الوقتی نے لی اور نہ ہی اُن کے موقف واستقلال میں زندگی کے آخری لمحے تک سمجھوتوں اور مصلحتوں کی گنجائش پیدا ہوئی۔ہمارے ہاں اکیسویں صدی کی خودغرضانہ اور شخصی مفادات کے گردگھومنے والی سیاست کا تقاضاتویہ تھا کہ مرحوم رحیم بھی اپنی پارٹی کے اندر بعض دلیروں کی طرح یا پھر دیگر سیاسی رہنماووں کی طرح زیادہ نہ سہی ، کچھ بنانے کا ضرورسوچتے، لیکن ان کے ہاں سیاست کا بیانیہ کچھ اور ہی تھا ۔ایم پی اے ،سینیٹر اور ایم این اے رہنے کے باوجودان کی قناعت مستحق داد ہی توہے کہ اپنی زندگی میں انہوں نے بایزید خان اور یاسر خان کے لئے عالیشان بنگلوں کااہتمام کیا، نہ ہی یارلوگوں کی طرح لاکھوں ،کروڑوں کی غیرمنقولہ جائیداد یاپھر بیرون ملک بینک اکاونٹس بناڈالے ۔
کٹر اور نظریاتی رحیم نے اپنے تئیں پشتون سیاست کی اس علمبردار جماعت کا جو خاکہ تیار کیا تھا، اس میں رنگ بھرنے والوں کی ہچکچاہٹ یاپھر اپنی اس مرام کی راہ میں حائل ناسازگار فضاء نے انہیں یہاں تک دکھی کردیا کہ اپنا علاج کروانا بھی عار سمجھنے لگے۔دوسال پہلے جب ان کی صحت بگڑنا شروع ہوئی تو انہیں پارٹی فنڈ سے علاج کروانے کیلئے لندن لے جانے کا پروگرام بنایا گیا ۔ ہوائی اڈے پہنچنے پرمرحوم رحیم لندن نہ جانے پر اصرار کرنے لگے ،ان کا کہنا تھا کہ جب تک پارٹی کی کارکردگی جوں کے توں رہے گی ، اس وقت تک وہ اپنی صحت بنانے کی خاطربھی لندن جانے کی ضرورت نہیں۔بعد میں جب وہاں پر موجود ساتھیوں نے ان کی ارمانوں کی تکمیل کی یقین دہانی کرائی، تب ضدی رحیم بھی لندن جانے پر راضی ہوگئے۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی میں دوہزار تیرہ کے انتخابات میں جیت کے بعد جہاں ایک ہی خاندان میں تھوک کے حساب سے عالی مناصب بانٹنے کا وطیرہ اپنایاگیا ،وہاں ماضی کے گرجدار رحیم بھی مزید گرجنے کی بجائے گوشہ نشینی کوغنیمت سمجھنے لگے۔ حقیقی جمہوریت کی بحالی،ریاست میں تمام اقوام کی برابری اور بالادست طبقات کی حاکمیت کے خاتمے کیلئے مرحوم عبدالرحیم نے ایم آر ڈی،پونم ،اے پی ڈی ایم جیسی تحریکوں کے ذریعے بلاکسی لالچ اور مفادات کے، ہروقت ایک جاندار کردار ادا کیا۔
اسی طرح افغان سرزمیں پرچاردہائیوں سے جاری خلفشارکے خاتمے اور وہاں لویہ جرگہ کے پلیٹ فارم سے بھی مرحوم رحیم نے اپنے تئیں کسی بھی ممکن کوشش سے احتراز نہیں کیا ۔سیاست کے ساتھ ساتھ مرحوم عبدالرحیم مطالعہ کاحددرجہ شائق اور تحریر کی شکل میں ایک ضخیم اثاثہ چھوڑکر نہ صرف جماعت کے پسماندگان بلکہ جماعت کے علاوہ ہم طالبعلموں کے لئے بہت کچھ چھوڑا۔طالبعلمی ہی کے زمانے میں جمہوریت کے نام سے ایک کتاب لکھنے کے ساتھ ساتھ خودمختاری (خپلواکی ) کے نام سے بھی ایک کتاب لکھی ،جس سے عبدالکریم جیسے تعلیمی ماہرین نصاب کاحصہ بننے کی خواہش کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔
انگریزی استعمار اور افغانستان ‘‘ کے نام سے مرحوم عبدالرحیم کی ایک قابل قدر کاوش بھی 1988میں طبع ہوئی جس میں انہوں نے احمدشاہ ابدالی کے بعدطویل ترین خلفشار پر مبنی اُس دور کا تفصیلی اور تاریخی جائزہ لیا ہے جہاں انگریزوں کو افغان سرزمیں پر اپنے ناپاک عزائم پورا کرنے کا بھرپور موقع ملاتھا۔اسی حساب سے بے شمار مفید اور تاریخی مقالات لکھنے کے علاوہ مرحوم عبدالرحیم کا حال ہی میں چھ سو تیرہ صفحات پر مشتمل ایک ضخیم تاریخی کتاب منظر عام پر آئی ہے ۔
افغان اور افغانستان ‘‘ نام کا یہ کتاب مرحوم رحیم کے وہ تاریخی لیکچر ز ہیں جسے انہوں نے کئی سال پہلے ایم پی اے ہاسٹل میں دیئے تھے ( اگرچہ ان کے مذکورہ تاریخی اور مفید لیکچرز کوکتابی شکل دیتے وقت مرتبین نے انشاء اور ربط کا خیال نہیں رکھاہے)۔طویل سیاسی اور علمی جدوجہد کے بعداکیاسی برس کی عمر میں عبدالر حیم صاحب مزید ہمارے بیچ نہیں رہے، جونہ صرف پشتونخوا پارٹی کیلئے ایک ناقابل تلافی نقصان ہے بلکہ اس ریاست میں اُن تما م محکوم اقوام کے لئے بھی کسی المیے سے کم نہیں۔اللہ تعالیٰ مرحوم عبدالرحیم صاحب کی مغفرت فرمائے اور قوم کیلئے کیے گئے خدمات کے عوض انہیں بلند مقام عطافرمائے۔آمین