پاکستانی ٹی وی چینل ’اے آر وائے‘ کے ایک پروگرام کے دوران بنایا گیا اسٹیج اچانک ٹوٹ گیا، جس میں کئی افراد زخمی بھی ہوئے۔ سوشل میڈیا صارفین یہ سوالات اٹھا رہے ہیں کہ یہ خبر کس کے کہنے پر نشر نہیں کی گئی؟
بحریہ ٹاؤن میں نجی ٹی وی چینل اے آر وائے نیوز کے ایک پروگرام کے دوران اسٹیج اچانک ٹوٹنے کی وجہ سے متعدد افراد زخمی ہوئے۔ناقدین کے خیال میں اس خبر کو کوریج نہ ملنے کی وجہ اس پروگرام کی جگہ ہے، جو پاکستان میں تعمیرات کے شعبے سے وابستہ ملک ریاض کی ہے اور انہیں پاکستان میں انتہائی با اثر سمجھا جاتا ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا کے صارفین نے اس اثر ورسوخ کو نظر انداز کرتے ہوئے اس واقعے پر انتہائی تنقیدی تبصرے کیے ہیں۔ ایک صارف خالد حیدر نے ایک معروف ٹی وی اینکر سے سوال کرتے ہوئے کہا، ’’میڈیا نے اٹھائیس اپریل کو اے آر وائی شو کے دوران اسٹیج کے گرنے کے واقعے کو رپورٹ کیوں نہیں کیا۔ اس میں کئی افراد زخمی ہوئے‘‘۔
اے این عالم نامی ایک صارف نے بھی یہ ہی سوال پوچھا، ’’اے آر وائی کے شو کے دوران اسٹیج کے گرنے پر میڈیا خاموش کیوں ہے؟‘‘ اس صارف نے ایک وڈیو بھی اپ لوڈ کی ہے، جس میں وہ جگہ دیکھی جا سکتی ہے، جہاں اسٹیج گرا اور پس منظر میں ایمبولینسوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔
ایک انگریزی اخبار سے وابستہ معروف صحافی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ’’اسٹیج گرنے کے ایک ہفتے بعد بحریہ ٹاؤن نے اے آر وائی کو ایک خط لکھا، جس میں یہ پوچھا گیا ہے کہ کیا اے آر وائی نے اسٹیج گرنے کے واقعے کی انکوائری کرائی ہے، جس میں کئی افراد زخمی ہوئے تھے۔‘‘صحافی نے اس لیٹر کو بھی ساتھ ٹویٹ کیا ہے۔
ڈوئچے ویلے نے جب اس حوالے سے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کے اسٹاف آفیسرکرنل ریٹائرڈ خلیل سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا، ’’مجھے اس واقعے کے حوالے سے کوئی علم نہیں۔ یہ پروگرام ہمارا نہیں تھا اور نہ ہی ہم نے اس کا انتظام کیا تھا۔ جنہوں نے اس پروگرام کا انتظام کیا تھا۔ آپ ان سے پوچھیں۔ ہم نے تو خود خط لکھ کر ان سے تفصیلات مانگی ہیں‘‘۔
یہ خط بحریہ ٹاؤن کی طرف سے اے آر وائی کے سینیئر مینیجر آپریشن کرنل ریٹائرڈ گلفراز ملک کو لکھا گیا ہے۔ جب ڈی ڈبلیو نے اُن سے اس خط اور واقعے کے بارے میں دریافت کیا تو ان کا کہنا تھا،’’میرا تعلق اے آر وائی نیوز سے ہے اور یہ پروگرام اے آر وائی نیوز کا نہیں تھا۔ بحریہ ٹاؤن نے غلطی سے یہ خط مجھے بھیجا ہے کیونکہ وہ مجھے جانتے تھے۔ میں نے یہ خط متعلقہ کمپنی تک پہنچا دیا ہے اور اب وہ ہی اس کا جواب دیں گے۔ میں اس کا جواب نہیں دے سکتا اور نہ ہی مجھے اس واقعے کے بارے میں کوئی علم ہے۔‘‘۔
پاکستان کے ٹی وی چینلز پر اس خبر کے نشر نہ ہونے پر کئی تجزیہ کاروں نے حیرت کا اظہار کیا ہے۔ معروف تجزیہ کار کرنل ر یٹائرڈ انعام الرحیم نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ”میرے خیال میں یہ کہنا ہی غلط ہے کہ پاکستان کا میڈیا آزاد ہے۔ ایک بین الاقوامی تنظیم کے مطابق انسانی حقوق کی خبروں کو پاکستانی میڈیا نے صرف ایک فیصد کوریج دی ہے، وہ بھی اس صورت میں جب انسانی حقوق سے متعلق مقدمات عدالت تک پہنچتے ہیں۔
آپ کے علم میں ہے کہ جہاں یہ اسٹیج تھا وہ جگہ کس کی ہے۔ ان صاحب نے کئی صحافیوں کو گھر اور پلاٹس دیے ہوئے ہیں۔ یہ تو خود میڈیا پر بھی آچکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری عدالتیں بھی اُن کے خلاف ایکشن لینے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ ان کے خلاف چالیس کے قریب مقدمات ہیں لیکن تعمیرات کی دنیا کے اس مشہور آدمی کو کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ جب مقدمات آتے ہیں تو ان کی آسانی سے ضمانت ہوجاتی ہے۔
موصوف کا میڈیا پر اتنا اثر و رسوخ ہے کہ کوئی ان کے خلاف بولنے کی جرات نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی بولے تو فوراﹰ قانونی نوٹس آجاتا ہے۔ میرے خیال میں سپریم کورٹ کو اس واقعے کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ میڈیا اس کو کوریج دی جائے اور جو اس واقعے میں زخمی ہوئے ہیں، انہیں کچھ معاوضہ بھی مل سکے‘‘۔
معروف صحافی ناصر محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جس شخص کے تعلقات ریاست کے سربراہ مملکت سے ہوں اور وہ اس کا پارٹنر ہو، کیا اس کا کوئی کچھ بگاڑ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا اخلاقیات پر نہیں بلکہ بزنس کی وجہ سے چلتا ہے اور سب کو پتہ ہے کہ میڈیا کو سب سے زیادہ اشتہارات کہاں سے ملتے ہیں۔ تو وہ تعمیرات کے شعبے سے منسلک اس بندے کے خلاف کیوں جائیں گے، جس کا اثر ورسوخ پاکستان کے ہر ریاستی ادارے میں ہے اور جس کی تابعداری کرنے کے لئے تمام سیاست دان تیار رہتے ہیں۔‘‘۔
DW
2 Comments