سید انور محمود
پاکستان نے تو اپنے دو فوجی آپریشنوں ضرب عضب اور ردالفساد سے کافی حد تک اندرون ملک دہشت گردی پر قابو پالیا ہے، لیکن افغانستان میں اتنی قوت نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک میں ہونے والی دہشت گردی پر قابو پاسکے۔ پاکستان سے فرار ہونے والے دہشت گرد بھی افغانستان میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔
کابل میں کسی کی بھی حکومت ہو اس کا جھکاؤہمیشہ نئی دہلی کی طرف ہی رہا ہے، اسلام آباد سے اسے خدا واسطے کا بیر ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کابل کو دہشت گردی کو روکنے کے لیے بھارت کی نہیں پاکستان کی ضرورت ہے اور پاکستان ہمیشہ اُس کی مدد کرنے کے لیے تیار رہتا ہے، لیکن بھارت کی گرفت افغان حکومت پر اتنی سخت ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات اچھے تو کیا معمول پر بھی نہیں آنے دیتا۔
بھارت نے کشمیریوں کا جینا مزید مشکل کردیا ہے۔ پوری مقبوضہ وادی کا بھارتی فوجیوں نے محاصرہ کیا ہواہے اور دنیا سے یہ ظلم چھپانے کے لیے اورپاکستانی فوج کو الجھانے کے لیے بھارت افغانستان کو استعمال کررہا ہے ۔ افغان حکومت شاید اتنی بھی بے خبر نہیں ہوگی کہ جب امریکہ نے سب سے بڑا بم افغان پہاڑی سلسلے پر گرایا جہاں بقول اس کے داعش کے اڈے تھے وہاں سے دہشت گردتحریک طالبان پاکستان کے کئی رہنماؤں اور پندرہ بھارتیوں کی لاشیں بھی ملی تھیں۔ امریکہ جس کا جھکاؤبھی بھارت کی طرف ہے، اس کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےحال ہی ہونے والی پاکستان کے سفیر سے سفارتی اسناد وصول کرنے کی تقریب کے موقعہ پرشاید پاکستانی سفیر کو دہشت گردی کے خلاف مل کر جنگ لڑنے کا عندیہ دیا ہے۔
پاکستان نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی ’را‘ کی حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان کو افغان انٹیلی جنس کی بھی حمایت حاصل ہے اور وہ اس کی مدد سے پاکستان میں وارداتیں کرتی ہے، افغانستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی مکمل مدد کا یقین دلانے کی خاطر گذشتہ ماہ اپریل میں اپنے فوجی اور پارلیمانی وفود افغانستان بھیجے، ان دوروں سے افغانستان کو یہ سمجھانا بھی مقصود تھا کہ دونوں ملکوں کا ایک دوسرے کے خلاف کام کرنا دونوں کے لیے ہی نقصان دہ ہے۔
افغانستان پر امریکی ڈرون حملے کے بعد پاکستان کے چیف آف جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر نے افغانستان کادورہ کیا اُن سے تعزیت کی اور تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی سربراہی میں ایک پارلیمانی وفد نے افغانستان دورہ کیا اور پھر 2مئی 2017ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نےدورہ کیا، جو اِس لحاظ سے اہم تھا کہ ایک عرصے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے انٹیلی جنس اداروں کے درمیان رابطہ ہوا۔
لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے افغانستان کے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ بھی ملاقات کی۔ افغانستان کی تازہ صورتحال یہ ہے موجودہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور سابق صدرحامد کرزئی کے تعلقات انتہائی خراب ہیں۔ پاکستانی وفد نے ڈاکٹر اشرف غنی کے ساتھ ساتھ سابق صدرحامد کرزئی کو دورہ پاکستان کی دعوت دی ۔ افغان صدر کو سابق صدر کو دعوت دینا پسند نہیں آیا۔ انہوں نے پاکستانی وفد کے دورے پر کوئی بھی مثبت بیان جاری نہیں کیا اور ابھی پاکستانی وفد واپس لوٹا ہی تھا کہ انہوں نے دورہ پاکستان کی دعوت مسترد کرنے کا بیان جاری کردیا ۔
بھارتی اور افغان حکمرانوں کا گٹھ جوڑ آج کا نہیں ہے یہ پاکستان بننے کے فوراً بعد یوں ظاہر ہوا کہ افغان حکمرانوں نے پاکستان کو تسلیم کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا تھا۔چار دسمبر2016 کوکو بھارت کے شہر امرتسرمیں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس منعقد ہوئی۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اس کانفرنس کے موقع پر اپنی بھارت میں موجودگی کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور پاکستان سے بھارتی زبان میں بات کی۔
افغان صدر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان کی تعمیر نو کے لیے پانچ سو ملین ڈالر کی امداد کا وعدہ کر رکھا ہے لیکن بہتر ہو گا کہ یہ رقم پاکستان میں دہشت گرد گروہوں کے خلاف استعمال ہو۔ پاکستانی مشیر خارجہ کو براہ راست مخاطب کرکے افغان صدر نے کہا کہ ’’مسٹر عزیز، یہ رقم انتہاپسندی کی روک تھام کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے‘‘۔پاکستان کی مخالف میں بولتے ہوئے افغانستان کے صدر اشرف غنی کے بارے میں کانفرنس کے کچھ شرکا کہنا تھا کہ افغان صدرمکمل طور پر بھارت کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔
بھارت کے پاکستان کے بارے میں عزائم کہیں زیادہ خطرناک ہیں بھارت افغانستان کا کندھا پاکستان کے خلاف استعمال کرکے اپنے کئی مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ سوال قابل غور ہے کہ آیا اس گٹھ جوڑ سے افغانستان کو بھی کوئی فائدہ ہوتاہے، اس کا جواب تو شایدنفی میں ہے لیکن کابل کے حکمران اکثرنئی دہلی کے حکمرانوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلاتے رہتے ہیں ۔
آئیے افغانستان کی بھارت سے وفاداری کے ساتھ ساتھ اس کی بہادری کا ذکر بھی کرلیتے ہیں۔ 28 اپریل 2017 کو پاکستانی فوج نے افغان حکام کو اطلاع دی کہ وہ چمن سرحد کے قریب دو دیہاتوں میں مردم شماری کے لیے جا رہے ہیں۔ وہاں افغان فورسز نے انہیں روک دیا اور کہا کہ یہ افغان علاقہ ہے۔ اس پر پاکستانی حکام نے انہیں نقشوں کی مدد سے سمجھانے کی کوشش کی لیکن تنازع حل نہ ہوا۔
اس کے بعد متعدد مرتبہ افغان حکام سے رابطہ کیا گیا لیکن چار مئی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ مردم شماری کی ٹیم 5مئی 2017کو دوبارہ وہاں گئی اور پھر جھڑپ ہوئی جس میں بارہ افراد ہلاک ہوگئے اور 30 سے زیادہ زخمی جس کے بعد پاکستان نے چمن سرحد بند کردی ہے اور پاک افغان تعلقات ایک مرتبہ پھر تلخی کی انتہا تک پہنچ گئے ہیں۔
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد پر جو کچھ بھی ہوا وہ نئی دہلی اور کابل کا گٹھ جوڑ ہے۔اس جھڑپ کے جواب میں پاکستان کی فوج نے ان پانچ چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا گیا جہاں سے شہری آبادی پر فائر کیے گئے تھے۔ افغان بارڈر کی پانچ چیک پوسٹیں مکمل طور پر تباہ کی گئیں۔افغان بارڈر پولیس اور سکیورٹی فورسز کے 50 اہلکار ہلاک اور 100 سے زیادہ زخمی ہوئے۔جبکہ افغانی سفیر نے دعوی کیا ہے کہ صرف دو افغان فوجی ہلاک اور سات کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔
افغان سفیر نے کہا کہ اگر اچھے ہمسایوں جیسے تعلقات کی ہماری خواہش حقیقی ہے اور ہم ایک دوسرے کے خیرخواہ ہیں تو دو فوجیوں کی موت بھی بہت بڑی بات ہے۔ افغان سفیر کی اس بات سے پورا اتفاق ہے لیکن بہتر ہوگا افغان سفیر اپنی اس خواہش کا اظہار اپنی حکومت سے کریں۔
بھارت اور افغانستان دونوں کو معلوم ہے کہ پاکستان کے پاس دنیا کی چھٹی بڑی فوج موجود ہے، لیکن شایدافغانستان ایسی کارروائیاں بھارت کے کشمیرمیں ہونے والے ظلم اور اپنے اندرونی حالات سے توجہ ہٹانے کے لیے کررہا ہے۔ کابل کے حکمرانوں کو اب سمجھ لینا چاہیے کہ برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور جیسا کہ پاک فوج کے میجر جنرل ندیم احمد نے کہا ہے کہ یہ ہمارا اٹل فیصلہ ہے کہ پاکستان کی بین الاقوامی سرحد پر بحث نہیں ہوسکتی اور ہم اس پر کسی قسم کی خلاف ورزی کو قبول نہیں کریں گے اور اس کے دفاع کے لیے جس حد تک جانا پڑا جائیں گے۔
افغان صدر اشرف غنی کو چاہیے کہ وہ اپنی قوم کے بارے میں سوچیں جو ایک طرف تو امریکہ کی غلامی کررہی ہے تو دوسری طرف بھارت کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان ایک پر امن ملک ہے اور اس کی ہمیشہ ایک پرامن افغانستان کی خواہش رہی ہے لیکن بھارت اور افغانستان اس کو پاکستان کی کمزوری نہ سمجھیں۔
♥
2 Comments