ظاہر و باطن

فرحت قاضی

حقیقت کی تہہ جاننے کے لئے ظاہر و باطن کو سمجھنا ازبس ضروری ہوتا ہے
ہر پیشے کا اپنا تقاضہ ہوتا ہے
پولیس کا فرض شناس
ملازم کا دیانت دار
چوکیدار کا بیدار
دکاندار کا عبادت گزار
صحافی کا باخبر
استاد کا نصاب تعلیم پر عبور
وکیل کی قائل کرنے کے فن سے جانکاری
سپاہی کا بہادر
آفیسر کا محنت کشوں سے کام لینے کا طریقہ
سیاست دان کاانسانی نفسیات کا نباض ہونا
حاکم کا فیاض اور رحم دلی کی ایکٹنگ کرنے میں یگانہ روزگار ہونا
پولیس اہلکاروں کی قانون شکنوں سے ملی بھگت ہے اور وہ فرض شناس ثابت نہیں ہورہے ہیں غریب غرباء کو بلاوجہ پریشان کرتے اور رشوت لیتے ہیں تو ہوتے ہوتے اہلیان علاقہ کا تھانے کے آفیسر اور اہلکاروں پر یقین ڈگمگانے لگتا ہے شکایات اخبارات اور چینلز کی زینت بننے لگتے ہیں صورت حال بد سے بدتر ہوتی ہے کالونی کے باسی سڑکوں پر نکل آتے ہیں ٹائر جلاکر روڈ بلا ک کردیتے ہیں حکومت اور محکمہ پولیس کے اعلیٰ حکام کے خلاف نعرہ بازی ہوتی ہے تو ادارہ کا اعلیٰ آفیسر تھانے کے افسر اور اہلکاروں کا تبادلہ کردیتا ہے۔
وہ اعلیٰ آفیسر تھانے کے افسر اور اہلکاروں کا تبادلہ نہیں کرتا ہے تو صورت حال بد سے بدتر اور بدترین کی جانب جاسکتی ہے اور پولیس پر سے ہی نہیں بلکہ محکمے سے بھی عوام کا اعتماد اٹھ سکتا ہے چونکہ انہوں نے ملازمت کا تقاضہ پورا نہیں کیا غفلت اور کرپشن کرنے لگے تھے عوام کا ان پر اعتبار نہیں رہا تھا اسی لئے نئے افسر اور اہلکاروں کی تعیناتی کی گئی چنانچہ نیا افسر آتے ہی دوچار قمار باز اور چار پانچ جیب کترے گرفتار کرکے ان کو عدالت سے سزا دلاتا ہے تاکہ آس پاس کے مکینوں کو اس کی دیانت داری اور فرض شناسی کا پورا پورا یقین ہونے میں کوئی چیز مانع نہ رہے اور پھر یہ بات پورے گاؤں میں بھی پھیل جائے۔
یہی کچھ چوکیدار،دفتر کا بابو، تاجر،صحافی،ڈاکٹر،استاد،وکیل،سپاہی،آفیسر،سیاستدان اور حاکم بھی کرتا ہے یہ سب ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اپنے فرائض اور خدمات پوری دیانت داری سے انجام دے رہے ہیں اور جو یہ نہیں کرتا ہے تو وہ پھر اپنے فرض شناس ، دیانت دا ر اور نیک ہونے کی اداکاری کرتا ہے۔
چور،ڈکیت اور دیگر قانون شکن عناصر بھی یہ جانتے ہیں کہ چوری، ڈکیتی،اغواء،قتل اور سمگلنگ مروجہ ملکی قوانین سے متصادم افعال ہیں اس لئے وہ بھی یہ حقیقت چھپانے کے لئے بہروپ بدلتے ہیں چنانچہ چور رات کی سیاہی میں واردات کرتا ہے ڈکیت گروہ کی صورت میں داخل ہوتے ہیں راہزن ایسے مقامات میں راہ گیر کو لوٹتے ہیں جہاں خال خال عوام کی آمد ورفت ہوتی ہے سمگلر پولیس اور کسٹم اہلکاروں کی آنکھوں سے اپنے کو چھپ چھپاکر نکلنے کی سعی کرتا ہے اور قاتل موقع کی تلاش میں رہتا ہے جبکہ نسبتاً چالاک اور ہوشیار اپنی اس منصوبہ بندی کے علاوہ متعلقہ اداروں کے افسران اور اہلکاروں سے ملی بھگت اور ساز باز کرتا ہے۔
صورت حال اس وقت زیادہ گھمبیر ہوجاتی ہے جب جرائم پیشہ عناصر ہی نہیں مختلف پیشوں اور محکموں سے وابستہ افراد بھی ان کے بھائی بند ہوکر دیانت داری اور فرض شناسی کی اداکاری کرتے ہیں یہ حالات اور واقعات عوام کی آگاہی اور شعور میں جوں جوں اضافہ کرتے ہیں تو وہ آئین اور قانون کی پاسداری کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں چنانچہ جرائم پیشہ افراد بھی وارداتوں کے نت نئے طریقوں پر سوچنے لگتے ہیں اور روپ بدل بدل کر واردات کرتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے رہنماء بھی بہروپ بھرتے ہیں یہ بظاہر الگ الگ نظر آتے ہیں مگر اندر سے سب ایک ہی خاندان اور طبقہ کے افراد ہوتے ہیں پختونخوا میں تو ایک ایسا خاندان بھی ہے جس کا ایک ایک فرد ملک کی ایک ایک سیاسی جماعت میں شامل ہے چنانچہ حکومت کسی جماعت کی بھی ہو اس سے اس خاندان کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اور ایسے خاندان بھی ہیں جو ایک دوسرے سے رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں نئی جماعت بنتی ہے اور اس کی کامیابی کے امکانات روشن ہوتے ہیں تو ہوا کے ساتھ اس طرف رخ کرلیتے ہیں اور نئے نعروں ، نئے پرچم اور نئے منشور کے ساتھ اپنا قدیمی چہرہ لے آتے ہیں۔
ملکی حالات گھمبیر اور دگرگوں ہوتے جارہے ہیں انسانوں کے ساتھ ساتھ اداروں پرسے بھی طبقاتی خول اترتا جارہا ہے اور عوام کو انڈیا کا یہ بھولا بسرا گیت بار بار یاد آنے لگا ہے۔
اس دنیا میں سب چور ہی چور
کوئی بڑا چور کوئی چھوٹا چور
وزیر اعظم،وزراء اعلیٰ اور وزراء سمیت محکموں کے اعلیٰ افسران یہ حقیقت چھپانے کے لئے سڑکوں،سکولوں اور ہسپتالوں کی مرمت اور افتتاح،نالیوں،نکاسی آب اور گلیوں کی پختگی،اداروں میں نااہلی، اقرباء پروری اور کرپشن، بازاروں میں تجاوزات،شہروں میں بھتہ خوری اور اغواء کاروں کے خلاف کارروائیوں،منشیات فروشوں،گرانفروشوں، ملاوٹ ،ذخیرہ اندوزوں،مضرصحت اشیاء اور زائد المیعاد ادویات کے خلاف آپریشن اور کریک ڈاؤن میں مصروف نظر آتے ہیں وہ ان کارروائیوں سے ترقی اور تبدیلی کا تاثر بھی دیتے ہیں غربت،بے روزگاری،مہنگائی،بحرانوں اور طبقاتی تفاوت اور امتیازات سے محنت کش طبقے کے دلوں میں اٹھتی ہوئی چنگاریوں کو سرد کرنے کے لئے زکوٰۃ،انکم سپورٹ پروگرام،خیرات وصدقات بھی چل رہے ہیں شادی اور فوتگی کے مواقع پر بھی حاضر ہوجاتے ہیں مگر عوام کا پڑھا لکھا مکتبہ فکر،ترقی پسند اور صحافی اسے عوام کی آنکھوں میں دھول کے مترادف قرار دیتے ہیں۔
ہر انسان اور ادارے کے ارباب اختیار اپنا روشن پہلو دکھاتے ہیں ۔
وکیل احاطہ عدالت میں فرفر باتیں کرتاہوا ایسے ایسے پہلو اور رخ سامنے لاتا ہے جو موکل کے لئے نئے ہوتے ہیں اسی طرح وہ الماریوں میں ضخیم کتب سے بھی اسے ورطہ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔
تاجر ملاؤٹ کو گناہ اور کم تولنے کو کفر گردانتا ہے اور گاہک سے بات چیت کرتے ہوئے باربار مسجد جانے کا ذکر بھی کرتا ہے ۔
جاگیردار یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھتا اور بیواؤں سے مالی تعاون کرتا ہے۔ 
پولیس اہلکار ہتھ کڑیوں میں چوروں کو لے جاتے ہوئے دکھاناچاہتا ہے۔
سیاست دان جنازوں اور شادیوں میں شریک ہوتا ہے۔
سرکاری کالونی میں اجنبی افراد قانو ناً نہیں رہ سکتے ہیں اور ایک شخص اہل خانہ سمیت رہائش پذیر ہے چنانچہ وہ کبھی ایک ہمسایہ کے گھر میں کھانا بھیجتااور کبھی دوسرے اور ان کے بچوں کو ٹافیاں بھی دیتا ہے یا پھر اس نے بڑی مونچھیں رکھی ہوئی اور پستول بھی رکھتا ہے۔
حتیٰ کہ ایک فاتح اور ڈکٹیٹر بھی یہی کرتا ہے ۔
وہ مفتوح قوم کے لئے عام معافی کا اعلان کرتا ہے عوام سے رحم دلی کا برتاؤ کرتا ہے سکول اور ہسپتال کا افتتاح اور مرمت کراتا ہے اپنے دست مبارک سے پودا لگاکر شجر کاری مہم کا آغا ز کرتا ہے انصاف کی ٹلی لٹکادیتا ہے اپنے کو نجات دہندہ بتاتا ہے اور یقین کامل دلاتا ہے کہ اس سے ان کے دکھ درد نہیں دیکھے جاتے تھے اور وہ صرف اور صرف ان کی خاطر آیا ہے یا اسے وطن کی محبت نے مجبور کردیا تھا۔
مگر یہ سب ان کا ظاہرہے۔
بس میں سیٹ پر بیٹھا مسافرہاتھ ملاتا ہے سٹاپ آتا ہے تو چائے کے پیسے وہ جیب سے ادا کرتا ہے اور اگلے پر ہاتھ میں دو جوس اٹھاکر لاتا ہے ایک آپ کی جانب بڑھاتا اور ایک خود پینے لگتا ہے گپ شپ جاری رہتی ہے آخری سٹاپ اور سٹینڈ پر جب ڈرائیور جھنجوڑ تا ہے جیب ٹٹولتے ہو تو وہاں کچھ نہیں ہوتا ہے ۔
یہ ان کا باطن ہے
سب کچھ لٹاکے ہوش میں آئے تو کیا کیا
کی نوبت اس وقت آتی ہے جب ایک انسان ظاہر اور باطن کو مد نظر نہیں رکھتا ہے۔
تپتی دھوپ اورصحرا ہے پیاس لگی ہے دور دیکھتے ہوئے تو پانی دکھائی دیتا ہے تم قریب اور وہ دور ہوتا جاتا ہے بالآخر اس نتیجے پر پہنچتے ہو کہ یہ سراب اور نظر کا دھوکہ ہے ریل گاڑی تیزی سے سرنگ کی جانب بڑھ رہی ہے اسے دیکھتے ہو تو کھلی اور آخر میں تنگ لگتی ہے مگر ٹرین دوڑتی جارہی ہے کھمبوں کی ایک طویل قطار ہے اس پر بھی یہی گمان ہوتا ہے کہ اگلے لمبے اور پچھلے چھوٹے ہیں۔
سڑک کنارے کھڑا انگور فروش اسے سو روپے کلو فروخت کررہا ہے اور دوسری جانب کا گلہ پھاڑ پھاڑ کر متوجہ کررہا ہے انگور اسی روپے فی کلو پر لے جاؤ اس طرف اشارہ کرکے انگور فروش سے کہتے ہو:
’’
وہ تو اسی پر بیچ رہا ہے‘‘
جواب ملتا ہے:’’ وہ میرا چھوٹا بھائی ہے‘‘
تم اللہ اکبر کہتے ہوئے آگے بڑھتے ہو اور اس کے منہ سے بھی جے ہند کا نعرہ بلند ہوتا ہے تمہاری بندوق کی ایک کے بعد دوسری گولی اس کے سینے میں اترتی ہے اور وہ ڈھیر ہوجاتا ہے دو قدم آگے بڑھتے ہو ایک قدم اور بڑھاتے ہو
اس کی خون سے لت پت لاش کو غور سے دیکھتے ہو
اور پھر خود سے کہتے ہو
’’
وہ بھی میری طرح غریب اور مفلس ہے‘‘
اس طرح دور سے چیزیں ایک اور قریب سے دوسری طرح نظر آتی ہیں اولالذکر باطن اور موخر الذکر ظاہر ہے۔
محمود غزنوی کا سومنات مندر کے بت توڑنا
انگریز کا تجارت کی نیت سے آنا
پاکستان کا ہندو کی اکثریت کے خوف کی بنیاد پر قیام
جنرل ضیاء الحق کا شریعت کے نفاذ کے نام پر اقتدار ہاتھ میں لینا
تنظیم کے چئیرمین کا یتیم کو اپنے سینے کے قریب کرنا
طالب کا مسجد کی تعمیر کے نام پر چندہ مانگنا
حکومت کا دہشت گردوں کا سدباب کے اعلان کے ساتھ قبائلی علاقہ جات میں آپریشن
باپ کا اولاد کی آرزو کرنا اور بھائی کا بہن سے انتہائی پیار
یہ سب ظاہر کی مثالیں ہیں۔
محمود غزنوی مندر گراتا ہے تو زیورات اٹھالیتا ہے
انگریز تجارت کا ریڑھا لگاتے لگاتے دکان کا مالک بن بیٹھتا ہے
جس خوف کی بنیاد پر پاکستان بنتا ہے اسی اکثریت سے فوائد سمیٹے جاتے ہیں
ضیاء الحق شریعت کے نام پر مطلق العنان بادشاہ بن جاتا ہے
یتیم کے سر پر پھرنے والے ہاتھ آہستہ سے چندے کے لئے آگے ہوجاتے ہیں
مسجد بنتی ہے تو ساتھ ہی دکانیں بھی رفتہ رفتہ تعمیر ہونے لگتی ہیں
باپ اولاد مانگتا ہے بیٹی ہوتی ہے تو چہرہ اتر جاتا ہے
محبوب کے لئے جان دیتا ہے شادی پر کچھ نہیں ملتا ہے تو نشہ اتر نے لگتا ہے
بہن پر مرنے والا بھائی قتل کرتا ہے توسورۂ میں دے دیتا ہے
تو یہ اس کا باطن بن جاتا ہے
چنانچہ ایک چیز کا نتیجہ اس کا باطن ہوتا ہے

Comments are closed.