قومی سلامتی کے امور کی آڑ میں مخالفین کو چپ کرانا سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ کا آزمودہ ہتھیار ہے جو پچھلے ستر سالوں سے مخالفین کوچپ کرانے کے لیے کامیابی سے استعمال کیا جارہا ہے۔
چند دن پہلے نواز شریف کے چہیتے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا تھا کہ آئین کے تحت قومی سلامتی کے معاملات اور ان سے متعلقہ اداروں پر تنقید نہیں کی جاسکتی اور آزادی اظہار کی آڑ لے کر فوج یا اس کے افسران کی تضحیک ناقابل قبول ہے اور اس عمل میں ملوث افراد کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے گی چاہے ان کا تعلق کسی بھی جماعت اور پیشے سے ہو۔
چوہدری نثار کے اس بیان کے بعد پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے خلاف اظہار خیال کرنے پر دو درجن سے زائد افراد کوحراست میں لے لیا گیا ہے جن میں سے بیشتر کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔
ان گرفتاریوں پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے پاکستان کی انسانی حقوق کی نمایاں کارکن عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ حکومت لوگوں کی آزادیوں کو سلب کر کے فوج کو خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔انھوں نے مسلم لیگ کی حکومت سے کہا کہ انھوں نے جو کچھ بھی کرنا وہ اپنے بل بوتے پر کریں نہ کہ عوام کے حقوق پر۔
ایف آئی اے کی جانب سے سوشل میڈیا پر متحرک سیاسی کارکنوں کی گرفتاری اور انھیں ہراساں کرنے کے واقعات کے بعد عاصمہ جہانگیر نےکہا کہ حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا پر متحرک سیاسی کارکنوں کو ہراساں کرنے کی کوششیں نہیں ہونی چاہیں۔
انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر متحرک لوگوں کی پکڑ دھکڑ کی اطلاعات وزیر داخلہ کے اس بیان کے بعد موصول ہو رہی ہیں جس میں انھوں نے کہا تھا کہ فوج پر کسی قسم کی تنقید کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ پاکستانی عوام اپنے محافظوں کے پیشہ ورانہ کردار کو پسند کرتے ہیں لیکن جب وہ اپنے دائرہ اختیار سے باہر نکل کی سیاست یا تجارت میں قدم رکھتے ہیں تو ان پر تنقید کرنا عوام کا حق ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر اس طرح لوگوں کو پکڑا گیا تو یہ آرمی کی اپنی شہرت کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ اگر حکومت کو اپنے ‘آقاؤں‘ کو خوش کرنا تو اپنے بل بوتے پرکرے، لوگوں کے حقوق کو سلب کر کے نہ کرے۔‘
انھوں نے کہا کہ جن لوگوں کی آزادیوں کو سلب کیا جا رہا ہے وہ عدالتوں کا دروازہ کھٹکٹائیں گے اور یہ عدالتوں کا بہت بڑا امتحان ہو گا۔ انھوں نے کہا ‘ میں سمجھتی ہوں، کہ عدالتیں لوگوں کی جان، مال، اور آزادیوں کا تحفظ نہیں کرسکتیں تو ہمیں باقی چیزیں نہیں چاہیں ہیں۔‘
فوج کی تضحیک سے وفاقی وزیر کی مراد کیا ہے؟ کیا ماضی میں فوج کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات، منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنا، سیاستدانوں کو سزا دینا اور کاروبار کرنا کے خلاف لکھنا اور ان پر تنقید کرنا بھی قابل دست اندازی پولیس ہوگا یا نہیں۔
BBC
♥
One Comment