افغان صدر کے نائب ترجمان دوا خان مینہ پال نے بی بی سی کو بتایا کہ افغان صدر اشرف غنی نے دورہ پاکستان کی دعوت مسترد کر دی ہے۔
نامہ نگار خدائے نور ناصر سے بات کرتے ہوئے افغان صدر کے نائب ترجمان نے کہا کہ افغان صدر نے پاکستان کے پارلیمانی وفد اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے ملاقاتوں میں دورہ پاکستان کی دعوت مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’میں تب تک پاکستان نہیں جاؤں گا جب تک پاکستان مزار شریف، امریکن یونیورسٹی کابل اور قندھار حملوں کے ذمہ داروں کو افغانستان کے حوالے نہیں کرتے اور پاکستان میں موجود افغان طالبان کے خلاف عملی طور پر قدم نہیں اٹھاتے‘۔
تاہم پاکستان کے دفتر خارجہ یا عسکری حکام نے افغان صدر کی جانب سے دورے کی دعوت کے مسترد کرنے کے دعوے پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔
افغان حکام نے بی بی سی پشتو کو تبایا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ سے ملاقات میں افغان صدر اشرف غنی نے افغانستان میں ہونے والے حالیہ حملوں کی تحقیقات سے متعلق بعض دستاویزات بھی پیش کیں اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ ان حملوں میں ملوث افراد کو افغانستان کے حوالے کیا جائے۔
حالیہ ایک ہفتے کے دوران پاکستان کے تین اعلیٰ عسکری و سیاسی وفود نے کابل کا دورہ کیا ہے۔ گذشتہ روز پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار نے ایک روزہ دورے کے دوران کابل میں افغان صدر اشرف غنی اور اپنے ہم منصب معصوم استانکزئی سے ملاقات کی جس میں دہشت گردی اور پاک افغان سرحد کی صورتحال سمیت دیگراہم امور پر تبادلہ خیال کیاگیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کی طاقتور ترین خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے چیف جنرل نوید مختار کے دورہء افغانستان نے پاکستان کے کئی حلقوں میں اس خیال کو تقویت دی ہے کہ جنگ زدہ افغانستان میں امن کے لئے خاموش کوششیں شروع کر دی گئیں ہیں۔آئی ایس آئی کے سربراہ سے پہلے پاکستان کی قومی اسمبلی کے ا سپیکر ایاز صادق نے ایک پارلیمانی وفد کے ساتھ افغانستان کا دورہ کیا تھا، جب کہ اس سے پہلے چیف آف جنرل اسٹاف جنرل بلال اکبر بھی کابل ہو کر آئے تھے۔
لیکن افغان صدر کی طرف سے پاکستان کے دورے کی دعوت کو مسترد کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں ممالک میں اختلافات کی خلیج گہری ہوتی جارہی ہے۔ افغانستان نے پچھلے ایک سال میں پاکستان کی طرف سے بھارت کے ساتھ واہگی بارڈر کے ذریے تجارت کی اجازت نہ دینے کے بعد بھارت اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھایا ہے۔بھارت ایران کے ساتھ مل کر چاہ بہار پورٹ اور اس کے ساتھ افغانستان تک ریلوے لائن بچھانے کے منصوبے پر بڑی تیزی سے کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان نے بھارت کے ساتھ سٹریٹجک اہمیت کے کئی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جن میں سب سے اہم افغانستان کے ساتھ دفاعی معاملات پر معاہدے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان ابھی بھی کئی دہائیوں پرانی اپنی دفاعی گہرائی کی پالیسی ترک کرنے کو تیار نہیں اور افغانستان میں اپنی مرضی کی حکومت چاہتا ہے جو بھارت کو ناکوں چنے چبوائے۔ پاکستان کے حمایت یافتہ دہشت گرد وں کی جانب سے افغانستان،بھارت اور ایران میں کاروائیوں کی وجہ سے پاکستان اس خطے میں تنہائی کا شکار ہوتاجارہا ہے۔ جب کہ پاکستان ان دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنے کی بجائے انہیں اپنا سٹریٹجک اثاثہ قرار دیتا ہے۔
یادرہے کہ افغانستان اور بھارت کے بعد اب ایران بھی پاکستان پر الزام عائد کررہا ہے کہ پاکستان میں موجود دہشت گرد ایران کے سرحدی علاقے میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق جنوبی ایشیا میں امن کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان جہادی تنظیموں کی سرپرستی بند کرے۔ اچھے اور برے طالبان کے درمیان فرق کو ختم کرتے ہوئے دونوں کے خلاف سخت کاروائی کرے۔
DW/BBC/News Desk
♦