یورپ میں مسلمان انتہا پسندوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے باعث یورپی ممالک بتدریج مسلمانوں پر پابندیاں عائد کر رہے ہیں۔ ہالینڈ، فرانس اور بلجیم کے بعد اب ایک اوریورپی ملک آسٹریا نے عوامی مقامات پر برقعہ پہننے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ چہرے کا نقاب کرنے والی خواتین کو 150 یورو کا جرمانہ کیا جائے گا جبکہ اب قرآن کے نسخے بھی مفت تقسیم نہیں کیے جا سکیں گے۔
آسٹریا کے پارلیمان میں منظور کیے جانے والے اس بِل کی حمایت برسر اقتدار دونوں جماعتوں ’ایس پی او‘ اور ’او وی پی‘ کی طرف سے کی گئی ہے، باجود اس کے کہ حالیہ کچھ دنوں سے دونوں جماعتیں بہت سے معاملات کے حوالے سے منقسم ہو چکی ہیں۔ اکتوبر کے آغاز سے پولیس ایسے لوگوں کو جرمانے کرنے کا سلسلہ شروع کر دے گی، جن کے چہرے کپڑے سے ڈھکے ہوں گے۔ برقعے اور قرآن کے نسخوں کی مفت تقسیم پر پابندی کا یہ قانون انضمام سے متعلق ایک جامع قانون سازی کا حصہ ہے۔
عوامی ٹرانسپورٹ سسٹم، عدالتوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں نقاب کرنے اور برقعہ پہننے والی خواتین کو ایک سو پچاس یورو کا جرمانہ کیا جائے گا۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس نئے قانون سے کتنے لوگ یا مسلمان خواتین متاثر ہوں گی۔ منگل کے روز اس قانون کی منظوری کے بعد انتہائی دائیں بازو کی جماعت ایف پی او کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اس قانون کو مزید سخت بنانے کی ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ہی مہاجرین کے انضمام کے لیے بارہ ماہ کا ایک کورس بھی متعارف کروایا گیا ہے۔ جو مہاجرین آسٹریا میں رہائش پذیر ہونے کے خواہش مند ہیں، انہیں اسکولوں میں جاتے ہوئے یہ کورس کرنا ہوگا۔ ان اسکولوں میں نہ صرف مقامی زبان سکھائی جائے گی بلکہ انہیں مقامی رواج اور اقدار کی تعلیم بھی دی جائے گی۔ اسی طرح مہاجرین کو یہ بھی سکھایا جائے گا کہ کسی ملازمت کے لیے اپلائی کیسے کرنا ہے اور درخواست کیسے لکھنی ہے۔
ریاستی سکریٹری مونا ڈوسڈر کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کا مقصد مہاجرین کو بہتر مستقبل فراہم کرنا ہے۔تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس پروگرام میں شرکت سے انکار کرنے والے مہاجرین کو ملنے والے سماجی بہبود کے فوائد میں کمی کر دی جائے گی۔ اس نئے قانون کے تحت پناہ گزینوں سے عوامی کام بغیر تنخوا کے بھی کروائے جا سکیں گے تاکہ انہیں روزگار کی آسٹرین منڈی کے لیے تیار کیا جا سکے۔
DW