اس انکشاف کے بعد پورے ہندوستان میں زبردست ہنگامہ برپا ہو گیا ہے کہ بیرسٹر خاور قریشی ، جنہوں نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں ہندوستانی جاسوس اور دھشت گرد ، کلبھوشن یادو کے مقدمہ میں پاکستان کی طرف سے پیروی کی تھی ، 2005میں ہندوستان کے دابھول پاور پلانٹ اور بین الاقوامی انرجی کمپنی این ران کے درمیاں تنازعہ کے مقدمہ میں ہندوستان کی حکومت کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہوئے تھے۔
بتایا جاتا ہے خاور قریشی کو جو برطانیہ کے ممتاز قانونی ماہرین کی فرم سرلسے منسلک ہیں ، ایک مشہور لاء فرم فاکس منڈل کی سفارش پر دابھول گیس کی پیروی کے لئے مامور کیا گیا تھا۔ اس وقت ہندوستان میں کانگریس کی قیادت میں یوپی اے کی حکومت تھی۔اس مقدمہ میں انرجی کمپنی این ران نے ہندوستان کی حکومت پر چھ ارب ڈالر کا دعوی دایر کیا تھا۔ اس مقدمہ میں ایک طرف خاور قریشی وکیل تھے اور ان کے مقابلہ میں نیویارک کی مشہور کمپنی سمپسن تھیچر کے وکیل تھے۔
سنہ2005میں دابھول کے مقدمہ میں ہندوستان کی حکومت کی پیروی کے لئے چونکہ کانگریس کی حکومت نے خاور قریشی کی خدمات حاصل کی تھیں اس لئے کانگریس کی حریف ، بھارتیا جنتا پارٹی کی حکومت نے خاور قریشی کی خدمات حاصل کرنے پر ہنگامہ برپا کر دیا ہے اور اس کی ساری توپوں کے منہ کانگریس پر کھل گئے ہیں اور یہ سوال کیا جارہا ہے کہ ایسے وقت میں جب ’’سرحد پار‘‘سے دھشت گردی کی کاروائی ہو رہی تھی ، کانگریس نے پاکستانی نژاد خاور قریشی کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیوں کیا۔کانگریس کے ترجمان ابھیشک مانو سنگھوی نے خاور قریشی کی خدمات حاصل کرنے کے فیصلہ کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ قریشی ایک نہایت قابل اور تجربہ کار بیرسٹر ہیں اس بنیادپر ان کی خدمات حاصل کی گئی تھیں ویسے بھی ان کا کہنا ہے کہ وکیل کی قابلیت اور اہلیت کو قومیت کی بنیاد پر نہیں پرکھا جاتاہے۔
خاور قریشی کو 1990میں بیرسٹری کی سند ملی تھی اور 2006میں انہیں QCیعنی ملکہ کے وکیل کا اعزاز ملا تھا۔ یہ اعزاز ، مانے ہوئے سینیر وکیل کو دیا جاتا ہے۔ خاور قریشی 1993میں جب پہلی بار بین الاقوامی عدالت میں پیش ہوئے تو وہ سب سے کم عمر وکیل تھے۔ خاور قریشی نے کیمبرج یونی ورسٹی میں کمرشل لاء اور بعد میں لندن یونیورسٹی میں پبلک انٹرنیشنل لاء پڑھایا ہے ان کا شمار کمرشل مقدمات اور بین الاقوامی ثالثی کے ماہرین میں ہوتا ہے۔ خاور قریشی نے اب تک ساٹھ سے زیادہ حکومتوں کے حق میں اور ان کے خلاف مقدمات لڑے ہیں۔
سنگھوی کے دفاع کے باوجود ، خاور قریشی کے معاملہ پر اس وقت تک ہنگامہ ختم ہوتا نظر نہیں آتا جب تک نریندر مودی کی پارٹی ، کانگریس کو بھنبھوڑ کر کے بے دم نہیں کردیتی۔
بہر حال بین الاقوامی عدالت میں کلبھوشن یادو کی سزائے موت پر حکم امتناعی کے اجراء کے بعد اب بتایا جاتا ہے ، پاکستان اپنی حکمت عملی پر از سر نو غور کر رہا ہے۔ پاکستان ، بین الاقوامی عدالت میں اپنا ایڈہاک جج مقرر کرنے کی درخواست پربھی غور کر رہا ہے کیونکہ عدالت کے بارہ ججوں میں ہندوستان کے بھی ایک جج ہیں۔ یہ ہندوستان کی سابق سپریم کورٹ کے جج ، دل ویر بھنڈاری ہیں ۔ بین الاقوامی عدالت کے قانون کی دفعہ 131کے تحت اگر ججوں کے پینل میں مخالف فریق کے ملک کا جج شامل ہو تو دوسرے فریق کو اپنا جج مقرر کرنے کا حق ہے۔
پاکستان میں ممتاز قانون دانوں نے اس بات پر حکومت کی کڑی نکتہ چینی کی ہے کہ اس نے پینل میں اپنا جج مقرر کرنے کا حق کیوں استعمال نہیں کیا۔ ایڈہاک جج کے لئے ضروری نہیں کہ یہ پاکستان کاشہری ہو۔ اس سلسلہ میں اردن کے سابق وزیر اعظم اعوان شوکت اکسوانہ کا نام لیا جارہا ہے جو بین الاقوامی عدالت کے جج رہ چکے ہیں۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ پاکستان اگلی سماعت کے لئے وکلاء کی نئی ٹیم تشکیل کرے۔
کلبھوشن یادو کے مقدمے کے ہنگامے میں بعض ہندوستانی مبصرین ہندوستان کی حکومت کو احتیاط کا مشورہ دے رہے ہیں کیونکہ اس بات کا خطرہ ہے کہ یہ معاملہ بین الاقوامی فورم میں آنے کے بعد ہندوستان کے اس موقف میں جان باقی نہیں رہے گی کہ ہندوستان اور پاکستان کے تنازعات بین الاقوامی فورم میں لے جانے کے بجائے شملہ سمجھوتہ کے مطابق دو طرفہ بات چیت کے ذریعہ حل کئے جائیں۔ کلبھوشن یادو کے اس مقدمہ کے بعد پاکستان حق بجانب ہوگا کہ کشمیر کا تنازعہ اور دوسرے تنازعات بین الاقوامی فورم اور بین الاقوامی عدالت میں ثالثی کے ذریعہ حل کئے جائیں۔
♣