علی احمد جان
شاہ عبدالعزیز بن سعود کی خاتون اول حصہ سدیری کے سات بیٹے تھے جنھیں سدیری قبیلہ یا عائلۃ السديري بھی کہا جاتا ہے جن میں سے دو بھائی شاہ فہد اور موجودہ شاہ سلیمان سعودی عرب کے بادشاہ بھی رہے۔ کہا جاتا ہے جب تک یہ خاتون زندہ رہیں ان کی روایت تھی کہ ہفتے میں ایک بار کھانا نے پر اس کے ساتوں بیٹے ا کٹھے ہوں جس کے لئے ان کے بیٹے جہاں بھی ہوں ان کو اپنے ماں کے پاس آنا ہوتا تھا۔
شاہ فیصل نے جب اپنے سوتیلے بھائی سعود بن عبدالعزیز کے خلاف بغاوت کی اور ان کی غیر موجود گی میں عنان اقتدار پر قبضہ کیا تو سدیری برادران نے ان کی مکمل تائید کی جس کے نتیجے میں ان میں سب سے بڑا بھائی فہدبن عبدالعزیز بطور نائب ولی عہد نامزدگی کے بعد شاہی تخت کے اور قریب ہوئے۔ شاہ خالد کے ۱۹۸۲ میں انتقال کے بعد شاہ فہد سعودی عرب کے حکمران بنے اور اب شاہ سلیمان سدیری برادران میں دوسرا بھائی ہے جو سعودی عرب کا حکمران ہے۔
سعودی عرب میں بھی اقتدار کے حصول کے لئے سیاست کی جاتی ہے جو دراصل محلاتی سیاست یا سازش ہو تی ہے۔ اس سازش نما سیاست میں سدیری کے بیٹوں کا ہمیشہ سے ہی بڑا عمل دخل رہا ہے ۔ ایسی ہی سازشوں کے نتیجے میں سدیری سات میں سےدو بھائیوں عبدالرحمان اور ترکی کو ولی عہدی سے فارغ ہونا پڑا۔شہزادہ ترکی نے ایک طرح کی بغاوت کی اور جلاوطن ہوئے تھے جس کے بعد ان کے بھائی نائف کو ولی عہد بنا دیا گیا۔ عبدالرحمان کو شاہ کی تابعداری یا بیعت کے لئے شاہ عبداللہ کی بنائی کونسل کی ولی عہدی کے لئے عمر کیساتھ اہلیت کی شرط کی مخالفت پر سبکدوش ہونا پڑا۔
اب بھی حالات اس سے مختلف نہیں شاہ سلیمان کی تخت نشینی کے بعد ان کے چھوٹے سوتیلے بھائی مقرن بن عبدالعزیز کو ولی عہدی سے سبک دوش کرکے سدیری کے ایک اور بیٹے نائف کے صاحب زادے محمد بن نائف کو ولی عہد بنا دیا گیا۔ شاہ سلیمان نے اپنے بیٹے محمد بن سلیمان السعود کو نائب ولی عہد مقرر کیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ولی عہد محمد بن نائف کی اپنے چچا سلطان بن عبدالعزیز کی بیٹی سے صرف دو بیٹیاں ہیں جو سعودی عرب کی حکمران نہیں بن سکتیں تو اس کے نتیجے میں عنان حکومت واپس محمد بن سلیمان کے ذریعے سے سدیری کی اولاد کو ہی منتقل ہوگی۔
مقرن بن عبدالعزیز اپنے چھوٹے سوتیلے بھائی حمود کی وفات کے بعد شاہ عبدالعزیز کے سب سے چھوٹے بیٹے ہیں جو بقید حیات ہیں۔ سعودی روایات کے مطابق اقتدارکو بھائیوں میں سے عمر اور اہلیت کے حساب سے بڑے سے چھوٹے کو منتقل ہونا ہے اور اب شاہ سلیمان کے بعد شہزادہ مقرن کو بادشاہ بننا تھا اور اس کے بعد کسی بھائی کی غیر موجودگی میں مقرن کے بیٹوں کو ہی اقتدار نے منتقل ہونا تھا جو بڑے سے چھوٹے بھائی کو منتقلی کی روایت کیساتھ آخری بیٹے کے بعد اس کی نرینہ اولاد میں منتقل ہونا تھا۔
سدیری کے بیٹے شاہ سلیمان نے ولی عہدی سے ہٹا کر یہاں اپنے سوتیلے چھوٹے بھائی مقرن کو اقتدار سے ہی محروم نہیں کیا بلکہ اپنے سگے بتیجے محمد بن نائف(جن کی نرینہ اولاد نہیں) کی ولی عہدی پر نامزدگی کیساتھ عنان اقتدار اپنی اولاد کو منتقل کرنے کی سکیم بنائی ہے۔
اگر کوئی آل سعود کے خاندانی پس منظر اور محلاتی سازشوں سے واقف ہو تو یہ ضرور جانتا ہے کہ ان کے اندر اقتدار کی چپقلش ہمیشہ سے رہی ہے۔ شاہ سعود، شاہ فیصل، شاہ خالد، شاہ عبداللہ سمیت کئی ایسے بھائی ہیں جن کی اولادیں سدیریوں کی اس سکیم سے خوش نہیں اور کسی بھی موقع پر مزاحمت کر سکتی ہیں۔ اس متوقع مزاحمت کے سد باب کے لئے شاہ سلیمان کے نامزد کردہ محمد بن نائف اور محمد بن سلیمان کو ایک قوت کی ضرورت ہے جو حرم کے تحفظ کے نام پر وہ حاصل کرنے کے متمنی ہیں۔
مقرن بن عبدالعزیز ایک پڑھے لکھے اور متحرک آدمی ہیں جن کو علم فلکیات کیساتھ شاعری اور سیاسیات میں بھی دلچسپی ہے جن کی ایک بہت بڑی ذاتی لائبریری بھی ہے۔ ان کا نام کبھی بھی کسی دوسرےسعودی شہزادے کی طرح کسی بد عنوانی میں بھی نہیں آیا ۔ مقرن سعودی عوام میں انتہائی مقبول ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک اچھا نام ہے۔ ان کو اقتدار سے محروم کر دینا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔
شاہ سلیمان کے بیٹے اور بھتیجے یہ بات جانتے ہیں کہ سعودی فوج میں خدمات سر انجام دینے والی یمنی النسل سپاہ میں ان سے زیادہ مقرن کے لئے حمایت موجود ہے۔ اس خطرے سے نمٹنے کے لئے حفظ ماتقدم کے طور پرمسلم ممالک کی ایک مشترکہ فوج تیار کی جارہی ہے جس میں سعودی یا یمنی فوجی کم سے کم ہوں اور ان کے وفادار زیادہ ہوں۔ اس مقصد کے لئے انھوں نے یمن کا قضیہ چھیڑ کر حرم کے لئے خطرے کا شوشہ چھوڑا ہے تاکہ ان کو فوجی طاقت حاصل کرنے میں آسانی ہو۔
سعودی عرب میں اپنی ولی عہدی سے سبک دوش ہونے والے مقرن بن عبدالعزیز اپنے ذاتی اوصاف کے علاوہ پاکستان کی سیاست میں بھی ایک بہت بڑے کردار رہے ہیں۔ یہ مقرن ہی تھے جس نے نواز شریف کی جان مشرف سے چھڑائی تھی۔ جب نواز شریف نے دس سال سے پہلے وطن واپس آکر بد عہدی کی تو شکایت مقرن سے ہی کی گئی تھی جس نے نواز شریف کو جدہ کے ہوئی اڈے پر استقبال کرکے سمجھا دیا تھا کہ وہ ان کے لئے راہ ہموار کریں گے۔ نواز شریف کی واپسی سمیت پاکستان میں سیاسی مصالحت کی فضا کو ہموار کرنے میں مقرن کا قلیدی کردار رہا ہے۔ یہ بات نواز شریف، مشرف اور مقرن کے علاوہ بھی بہت لوگ جانتے ہیں جوان کے مخالف ہیں۔
نواز شریف جب شاہ سلیمان کی بلائی کانفرنس میں چلے گئے تو وہ بھی یہ بات جانتے تھے کہ اس کا مقصد صرف سعودی عرب میں اقتدار کی منتقلی میں سدیری کے قبیلے کے لئے حمایت اور طاقت کا حصول ہے۔ نواز شریف جو مقرن کے قریبی رہے ہیں اس لئے شاہ سلیمان اور ان کے نامزد ولی عہد کے لئے شائد قابل اعتبار نہیں ہیں۔
راحیل شریف کو اس فوج کی کمان سونپنا جو حرمین شریفین کے تحفظ کے نام پر در حقیقت شاہ سلیمان کے اقتدار انتقال کی سکیم پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی اس منصوبے کا حصہ ہے ۔ راحیل شریف چونکہ پاکستان کی عوام میں بہت مقبول تھے جس کے ذریعے سےسدیریوں کو اپنے اقتدار کی جنگ میں یہاں سے پیادوں کی دستیابی ہوگی جو شائد پہلے سے ہی جاری ہے۔
ایسی فضا میں نواز شریف کو اس تقریب میں نظر انداز کردینا کوئی صرف نظر ہونے کی بات نہیں یہ عمل عمداً اور قصداً نظر آتا ہے کیونکہ سعودی عرب میں اب ہوائیں بدل رہی ہیں۔ اب بدلتے حالات میں کھیل کے ساتھ کھلاڑی بھی بدل جائیں گے ۔ سرور محل تو وہی رہیگا لیکن اس کے مالک اور مہمان بدل جائیں گے۔
سب کچھ بدلنے کے بعد بھی ایک بات نہیں بدلے گی وہ سعودی عرب کی سامراج دوستی اور مذہبی انتہا پسندی ہے جو آل سعود کے اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کا ہمیشہ سے ذریعہ زریعہ رہی ہے ۔ اگر پاکستان کے منتخب وزیر اعظم کو شاہ سلیمان کے اپنے بیٹوں کو اقتدار کی منتقلی کے لئے بلائی گئی کانفرنس میں نظر انداز کیا گیا ہے تو اس کو سعودی محلاتی سازش کا حصہ نہ بننے پر شکر ادا کرکے دور رہنا چاہئے، کیا پتہ عرب کے صحرا میں ہوا کل کس سمت چلے۔
♥
2 Comments