نثار کھوکھر
سندھی سے ترجمہ: قاسم کیھر
یہ بس ایک عجیب اتفاق ہی ہے اس میں کوئی سازش مت ڈہونڈیے گا کہ اپریل کے ایک منگل کے دن جس وقت سندھ کی ایک اعلیٰ عدالت میں تھر کے بچوں کے بے موت مرنے پر بحث ہو رہی تھی، اسی وقت کبوتر چوک کی دوسری طرف یعنی عدالت کے بالکل سامنے سندھ کی قانون ساز اسمبلی میں سندھ کے منتخب بہوتار(وڈیرے) ایک دوسرے سے بے پرواہ خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ انہیں اعلیٰ عدالت میں صحرائے تھر کے بچوں کے متعلق چل رہی بحث کی کوئی پرواہ نہ تھی، اور ہونی بھی نہیں چاہیے کیوں کہ بھوتاروں نے سرکاری خزانے سے ایسے بہترین بیرسٹر مقرر کر دیے ہیں کہ جب وہ لندن بیرسٹری کرنے گئے تھے تو ان کو سندھ کے گاؤں پیر گوٹھ کی زبوں حالی سے لے کے سندھ کی تنزلی اور تباہی کا ذمہ دار یہ ہی بھوتار کلاس نظر آتی تھی ۔
پر سندھ میں وکالت کرنے کے بعد ان دونوں موروں کی جوڑی کو جلد ہی زمینی حقائق سمجھ میں آگئے اور انہوں نے یہ بہتر سمجھا کہ غریبوں اور مسکین لوگوں کے مفت کیسز کے جھمیلے سے اچھا ہے کہ سرکار کی ترکاری آفر کو قبول کر لیا جائے اور کیوں نہ عدالتوں میں سرکار دفاع کیا جائے، جہاں مقرر جج صاحبان بھی ان کی ڈگری اور انگریزی سے ضرور متاثر ہونگے۔مگر یہ ان کی بھول ثابت ہوئی اور سندھ کے شہروں کے سرکاری اسکولوں اور کالجوں سے پڑھ کے مشکل دن دیکھ کر وکالتیں کر کے ترقی حاصل کرنے والے جج صاحبان سوال کر بیٹھے کہ ” کیا سندھ حکومت کے پاس ضمیر نام کی کوئی چیز ہے کہ نہیں؟ صحرائے تھر میں بچے مر رہے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ سب ٹھیک ہے!“۔
عدالتی کمرے میں اٹھے ایسے تلخ سوال کا ای ای جی صاحب کے پاس ترنت جواب تو ایسا ہونا چاہیے تھا کہ چیف صاحب سندھ سرکار کے پاس ضمیر نام کی تو کوئی چیز نہیں البتہ بیرسٹر ضمیر صاحب ضرور ہیں۔ باقی تھر کے اندر تو سالوں سے خوراک کی کمی کی وجہ سے بچے مرتے آرہے ہیں، اس میں کوئی نئی بات تو ہے نہیں اور اس میں سندہ حکومت کا کیا دوش؟
بلکہ اس معاملے پر تو سندھ کے سابق چیف منسٹر بہتر وکالت کر سکتے تھے جو اشاروں سے بتایا کرتے تھے کہ تھر کی عورتیں کیسے بچوں کو جنم دیتی ہیں اور ان تھریوں کو گندم دینے کے باوجود اگر غربت ختم نہیں ہوتی تو چاول کا آٹا وغیرہ بھیجیں گے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو چیف جسٹس صاحب کی مہربانی، جس نے کاوش اخبار میں چھپی ہوئی اس خبر کا نوٹس لیتے ہوئے سندھ سرکار سے پوچھا کہ تھر میں خوراک کی کمی کی باعث بچوں اموات کیوں واقع ہو رہی ہیں؟ ان کے تدارک کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟
یہ عدالتی سچائی کا ثبوت ضرور ہے پر چیف صاحب کو شاید یہ اطلاع نہیں دی گئی کہ عوامی حکومت کے شاندار آٹھ سالہ کارکردگی کے باعث سندھ میں عملی طور پر سب ٹھیک ہے۔ یہ اس عوامی حکومت کے ”خدمتوں“ کا ہی کمال ہے، جو شکارپور ہو یا سانگھڑ آمریتی ادوار کے سیاستدان بھی اب عوامی حکومت کی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں۔ وہ عوامی حکومت کی ترقی سے متاثر ہوکر اپنی سوچ تبدیل کر رہے ہیں۔ سندہ کا تھر ہو یا کچے ، لاڑ کا علاقہ ہو یا شمالی سندھ، ہر طرف ”سب ٹھیک ہے“ کی رٹ لگی پڑی ہے۔ امن امان ایسا تو ”مثالی“ اور ”بہتر“ بن گیا ہے کہ بکری اور شیر ایک ہی گھاٹ سے پانی پی رہے ہیں۔
کوئی بندہ اغوا نہیں ہو رہا، نہ ہی سندھ کے لوگوں نے سالوں سے کسی قتل کی خبر سنی ہے۔ پولیس والے خود پریشان ہیں کہ اتنا زیادہ امن بھی ٹھیک نہیں، اب جرم اتنے کم ہو جائیں گے تو ان کی نوکریوں کا کیا ہوگا!؟ اس عمر میں وہ دوسرا کچھ کر بھی تو نہیں سکتے۔ پولیس کی ایسی پریشانی کو دیکھ کر بھوتاروں نے ان پر رحم کیا اور کچے کے علاقوں کے کیٹیوں سے کچھ جرائم پیشہ افراد کو بلا کر ان کی مدد کی کہ وہ کسی نہ کسی کیس میں الجھے رہیں۔ امن امان کی ایسی نگری کو دیکھ کر وفاق کو کچھ تکلیف ضرور ہوئی اور اس نے غلام قادر مری جیسے مثالی آبادگار اور اشفاق لغاری جیسے ہونہار انجنیئر کو راستے سے جاتے ہوئے اغوا کرایا۔ باقی تو امن ایسا ہے، کہ پولیس خود پریشان ہے!۔
ایسی ہی پریشانی جیکب آباد، لاڑکانہ، دادو، سانگھڑ سہون اور دوسرے چھوٹے بڑے شہروں کے باشندوں کی ہے۔ جہاں اربوں روپے کی لاگت سے اتنے خوبصورت ترقیاتی منصوبے مکمل کیے گئے ہیں، کہ دیکھ کے آنکھیں پتھرا جائیں اور لوگ حیران رہ جائیں۔ ان شہروں کے روڈ، راستے اور گلیاں ایسی تو ٹائلز، ماربلز سے تعمیر کی گئی ہیں، کہ لوگ پہلی مرتبہ دبئی گئے ہوئے کسی بھوتار(وڈیرے) کی طرح سوچ کر پریشان ہیں کہ اتنے اعلی راستوں پر اپنے میلے پیر رکھ کر کیسے گھومیں؟ کیسے اپنی گاڑیاں گھمائیں، کیسے اپنے گدہے گاڑیاں، اسکوٹر، چنگچی لے آئیں؟ ایسے تو سرکار کا سارا خرچا ڈوب جائے گا۔
ان شہروں میں پینے کے صاف پانی کی ایسی تو سبیلیں چل رہی ہیں کہ خیر ہو سرکار کی۔۔۔۔!!! اب وہ کوئی پرانی سندھ تھوڑی ہے، جہاں لوگ پینے کے صاف پانی کے لیے کولر اور بوتلیں لیکر منچھر جھیل کے مچھیروں کی طرح پانی کی ٹانکیوں پر رش کرتے تھے۔ اپنے گدھا گاڑیوں پر پانی کے بڑے ڈرم لیکر واپس جاتے تھے۔ وہ سندھ کی آمرانہ دور کی بدحال حکومت کے کام تھے، جو عوام دشمن تھی ، پر اب تو عوامی حکومت نے ہر گھر میں صاف گرم اور ٹھنڈے پانی کے الگ الگ پائیپ گھر گھر پھنچا دیے ہیں، پھر بھی اگر کسی کو اپنے گھر میں آرام نہیں تو روڈ رستوں پر بھی صاف اور ٹھنڈے پانی کی سبیلیں لگوادی گئیں ہیں۔
اور توچھوڑیں ہر شہر کے چوراہوں پر لگے ہوئے فواروں میں سے بھی منرل بوتلوں جیسا صاف اور ٹھنڈا پانی نکلتا ہے۔ کیونکہ حکومت اپنے عوام کی عادتوں سے اچھی طرح واقف ہے کہ ان کو گھروں میں آرام نہیں آتا اور وہ چوراہوں پے جاکے پانی پیتے ہیں۔ اب ان فواروں میں سے روزانہ شام کو ٹھنڈے پانی کے ساتھ ملک روز بھی بہا کرے گا، کیونکہ لوگ صحتمند اور تندرست رہیں۔ اتنی ترقی کے باوجود شہاب اوستو جیسے سڑیل وکیل عدالتوں میں گئے ہیں کہ سندھ کے عوام کو گٹر کا پانی پلایا جا رہا ہے۔ عدالت عالیہ نے بھی ان کی سنی ان سنی کردی، کمیشن بھی قائم کی مگر ملا کچھ نہیں، کیونکہ وہ سیاست میں ”سب پے بھاری“ سے مقابلہ نہیں کر سکتے اور جا کے عدالتوں سے رجوع کرتے ہیں۔
ایسی ہی شاندار ترقی آپ کو اسپتالوں میں ملے گی، جہاں دواؤں کے علاوہ فائیو اسٹار ہوٹلوں جیسی سہولتیں میسر ہیں۔ جہان مریضوں کو گھر سے اسپتال تک لانے کے لیے ایئر کنڈیشنڈ ایمبولینسز بھیجی جاتی ہیں۔ اسپتالوں کے آپریشن تھیٹرز میں نئی مشینیں دے کر ایسا تو ماحول بنایا ديا گیا ہے، کہ سندھ کے سادہ لوح مریض آتے ہی بے حال ہو کر چلتی آپریشن کے دوران ہی چل بستے ہیں، پر اس میں سرکار کا کوئی دوش نہیں۔
اسپتالوں کی اس ”بہترین“ حالت سے جل سڑ کر میڈیا والوں نے سہون بم دھماکے کے بہانے سے سیہون کے چھوتے اسپتال کو نشانہ بنایا، جہاں کے ڈاکٹر حضرات رات کے کھانے میں جامشورو کی کڑھائی گوشت کھانے کے لیے گئے تھے کہ پیچھے سے دھماکہ ہوگیا۔ اس میں ڈاکٹر حضرات یا چکن کڑھائی کا تو کوئی قصور نہیں نا۔۔۔ پر میڈیا نے ہنگامہ کھڑا کر دیا، ان کو بھی اپنی روزی روٹی کرنی تھی جو انہوں نے کی، مگر عوامی سرکار نے آج تک سیہون کے اسپتال کو جوں کا توں برقرار رکھا ہوا ہے۔
سندھ کے چیف جسٹس صاحب کی مہربانی جو انہوں نے صحرائے تھر کا نوٹس لیا، پر حضور اعلی تو شمالی سندھ سے تعلق رکھتے ہیں، ان کو شاید اندازہ نہیں کہ تھر کے لوگ تو غربت میں گذارنے کو ہی بہتر سمجھتے ہیں، تب ہی تو ان کو عوامی نعرہ ”روٹی کپڑا اور مکان“ اب بھی پرکشش لگ رہا ہے۔ تھر کے غریب تو چھوڑیں، امیر لوگ مسلمان تو چھوڑیں ھندو سیٹھوں نے بھی عوامی سرکار کی ایسے حمایت کی کہ ”نوجوان قیادت“ کے ہاتھوں کو چوم کر جھک کر کھڑے ہو گئے۔
جناب اعلی چیف صاحب کو کوئی بتائے کہ ھمارے تھری لوگ تو اس غربت اور غلامی میں خوش ہیں، کیونکہ سندھ کے اندر ”سب ٹھیک“ ہے۔ نہ صرف اتنا پر عوامی حکومت نے ”شاندار کارکردگی“ کے سبب پیے دینے والے کارڈ بانٹے، جسے ہر غریب عورت اے ٹی ایم مشین میں استعمال کر سکتی تھی۔ پر کچھ جلے سڑوں نے اس پروگرام پر بھی تنقید کی کہ عوامی حکومت غریبوں کو بھیک مانگنا سکھا رہی ہے۔ چند پیسوں کے عوض عورتوں کی تذلیل ہو رہی ہے۔
ان سڑیل لوگوں سے وہ عوامی کام برداشت نہ ہوئے، کیوں کہ وہ غربت اور تذلیل ہی ہے، جس کی وجہ سے وہ اقتدار میں ہیں۔ اگر سندھ کے سب ہی لوگ امیر ہوگئے تو انہیں ووٹ ڈالنے کون آئے گا، کوئی کسے یہ بھی بتائے گا کہ سندھ کے اندر کاروکاری کا کاروبار صدیوں سے چلتا آ رہا ہے، جسے جاری رکھنا ھمارے رسم و رواج میں شامل ہے۔
اس لیے اس سے سندھ کے اندر ہماری عوام ”خوش“ ہے، تبہی تو ان بھوتاروں (وڈیروں) کو منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجتے ہیں اور بھوتار کہتا ہے یا بھوتار کے وکلا فرماتے ہیں کہ ”سندھ میں سب ٹھیک ہے صاحب۔۔۔!“۔
صدیوں سے ”سب ٹھیک“ ہے کی راگنی آپ نے بھی کئی مرتبہ سنی ہوگی، لیکن اس اکیسویں صدی کی سجاگی والے دور میں بھی اگر غربت، جہالت، کرپشن، اقربا پروری، عورتوں پر تشدد، خوراک کی کمی، بچوں کی اموات، ایمبولینسز کی کمی اور ہسپتالوں میں بچوں کی لاشوں کو کتوں کے نوچنے والا دور دیکھتے ہیں تو یقیناً یہ ان بھوتاروں کی کوششوں سے آئی ہوئی ”عوامی بھلائی“ والی سندھ ہی ہے صاحب۔۔۔ جہاں لندن سے پڑھے ہوئے با ضمیر بیرسٹر آپ کو اس کرپٹ نظام کی وکالت کرتے ہوئے ملیں گے، جہاں غربت کی سبب صحرائے تھر کے غریب بچوں کا کوئی وکیل نہ ہوگا، جہاں ذلتوں کے مارے لوگ بھوتار کی لینڈکروزر کے آگے سر جھکائے با ادب کورنش بجا لاتے ہوئے کہتے ہوئے ملیں گے کہ ”سندھ میں سب ٹھیک ہے صاحب۔۔۔!“۔
♣