جج نے موکل سے پوچھا: ’’ وہ شخص دیکھنے میں کیسا تھا؟‘‘۔
آدمی نے جواب دیا:’’جناب عالیٰ! اگر اسے طویل القامت انسان کے ساتھ کھڑا کرکے دیکھا جائے تو کوتاہ قد اور ناٹے کے قریب کرنے سے وہ لمبا نظر آتا ہے‘‘۔
موازنہ ایک ایسا پیمانہ ہے جو ہمیں جذباتیت اور دھوکہ کھانے سے بچاتا ہے۔
ہمارے پاس چیزوں کی جانچ کے لئے انچ،فٹ،گزاور کلومیٹر،چھٹانک،پاؤ،کلو،من اور ٹن اور وقت،فی صد اور فاصلے کے پیمانے ہیں چنانچہ لمبائی اور چوڑائی معلوم کرنا ہو تو انچ،فٹ،گز اور کلومیٹر،وزن کے لئے چھٹانک،پاؤ ،کلو،من اور ٹن، رفتار کا اندازہ لگانا مقصود ہو تو وقت اور فاصلہ ناپتے ہیں رقم کی تقسیم میں انصاف کا اندازہ کرنا ہو تو فیصد اور حساب کتاب کے لئے پیسہ، روپیہ اورروپیہ کے سکے اور کاغذی کرنسی ہوتی ہے۔
ان کے ذریعے ہم جھوٹ اور مبالغہ کا پتہ لگا سکتے ہیں۔
ایک سیاسی یا مذہبی جماعت کا رہنماء دعویٰ کرتا ہے کہ اس کا کراچی میں اجتماع عظیم الشان تھا تو سننے والا پوچھ سکتا ہے کہ اس میں عوام کی تعداد کیا تھی اور کیا یہ ذوالفقار علی بھٹو کے سال۔۔۔میں۔۔کے جلسے سے بھی بڑا تھا جبکہ اس وقت ملک کی کل آبادی۔۔۔تھی۔
اخبارات کا مطالعہ اور ٹی وی شائقین نے یہ مشاہدہ کیا ہوگا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے صوبے کو رقم دی جاتی ہے تو تقسیم کرتے ہوئے فیصد کہنے سے عموماً گریز کیا جاتا ہے اور فقط رقم بتائی جاتی ہے چنانچہ اعلان کیا جاتا ہے کہ پختونخوا کو چھ ارب اور اسی کروڑ روپے دئیے جائیں گے سندھ کو دس ارب اور پچاس کروڑ کا اعلان کیا جاتا ہے چنانچہ کل رقم اور فیصد کا مسئلہ بیچ میں سے گول کردیا جاتا ہے۔
اگر رقم کی تقسیم فیصد میں بیان کی جاتی ہے تو اس سے ہمارے کان کھڑے ہوسکتے ہیں تشویش پیدا ہوسکتی ہے اور انصاف کا پتہ لگایا جاسکتا ہے چنانچہ ایک کروڑ روپے چار بندوں میں تقسیم کئے جارہے ہیں اور تقسیم کار ایک کو دس ، دوسرے کو چالیس اور تیسرے کو ساٹھ تو چوتھے کو ایک فیصد دیتا ہے تو لینے والے افراد کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کا کتنا کام تھا اور کتنا کچھ دیا گیا۔
اسی طرح ملک میں تیل مہنگا کردیا جاتا ہے حکومت کی جانب سے پہلا عذر عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کا پیش کیا جاتا ہے اور پھر یہ تسلی بھی دی جاتی ہے کہ پاکستان میں 85روپے فی لیٹر اب بھی غنیمت ہے ہمسایہ ملک بھارت میں110روپے فی لیٹر فروخت ہورہا ہے۔
کیا بھارت میں دیگر اشیاء بھی ہمارے ملک سے زائد قیمت پر فروخت ہورہی ہیں وہاں محنت کشوں کی ماہانہ اجرت اور مراعات کی کیا حالت ہے معیار زندگی ہم سے بہتر ہے یا بدتر ہے صرف تیل میں ہی کیوں موازنہ کیا جاتا ہے کیا دنیا کے دیگر ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے چنانچہ موازنہ اور مثال کا پیمانہ جہاں دھوکہ دینے کے لئے بروئے کار لایا جاتا ہے وہاں اسی دھوکے سے اس کے ذریعہ بچا بھی جاسکتا ہے۔
پختونخوا ملک کا ایک پسماندہ صوبہ ہے یہاں کے قبائلی علاقہ جات کی معاشی،سیاسی ،تعلیمی اور سماجی صورت حال اس سے بھی بدتر ہے یہاں قدیم رسومات،روایات،رواجات،اخلاقی قدریں اور عقائد اپنی فرسودہ صورت میں موجود ہیں اور ان کی موجودگی سے اس کے باسیوں میں ان گنت تضادات اور تنازعات بھی پائے جاتے ہیں اس لئے معمولی معاملات پر بھی ہاتھا پائی اور قتل تک نوبت پہنچ جاتی ہے اس ماحول میں جو بچہ بھی پیدا اور جوان ہوتا ہے اس میں یہ افعال اور تصورات بدرجہ اتم موجود ہوتے ہیں۔
اور وہ انہیں حرف آخر بھی سمجھتا ہے
اسی قبائلی علاقے کا ایک نوجوان ملازمت اور کاروبار کی خاطر پاکستان کے کسی بڑے صنعتی شہر آنے جانے لگتا ہے اسے معاش کا ذریعہ مل جاتا ہے تو وہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے اور مختلف تہذیبی و ثقافتی پس منظر رکھنے والے افراد سے میل جول رکھتا ہے اس کے بچے نئے ماحول میں پلتے ،بڑھتے اور تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ چند برسوں کے بعد اپنے گاؤں کار خ کرتا ہے تو ایک بدلا ہوا انسان ہوتا ہے۔
ناخواندہ والدین کا بچہ پڑھتا ہے اسے تعلیمی ادارے میں ترقی پسند ادب اور اساتذہ ملتے ہیں وہاں سے یونیورسٹی جانے لگتا ہے تو اسے اپنے دیہہ اور اس کے باسیوں کے آداب،رہن سہن سمیت ہر چیز پسماندہ اور فرسودہ نظر آنے لگتی ہے۔
پیسہ بھی انسان کے بدلنے میں کردار ادا کرتا ہے ایک غریب جوتے ساز کا بیٹا ملازمت یا کاروبار میں اچھا خاصا کما لیتا ہے گھر پیسہ آتا ہے کھانے کو لذیذ اور صحت بخش خوراک ملتی ہے لباس پوشاک بھی بدلنے لگتا ہے مکان میں الیکٹرانک اشیاء کی بھی افراط ہوجاتی ہے چارپائیاں ہٹاکر ان کی جگہ صوفے رکھ دئیے جاتے ہیں فریج مرغن غذاؤں اورالماری ڈرائی فروٹ سے ہمہ وقت بھری رہتی ہے تو اہل خانہ کی عادات میں بھی رکھ رکھاؤ آجاتا ہے ۔
یہی نہیں بلکہ رشتوں میں بھی شکست وریخت کا عمل چل پڑتا ہے اورنئے رشتے بننے لگتے ہیں
انسان اپنے ماحول کا قیدی ہوتا ہے یہ جوں جوں بچے سے لڑکا اور پھر جوان ہونے لگتا ہے اس عرصے میں اس کے آس پاس کی آبادی اوراس کے باسیوں کی روایات، رواجات، عقائد ،رسومات اور تصورات اپنا لیتا ہے ان سے جذباتی وابستگی بھی پیدا ہوجاتی ہے اور یہ جذباتیت اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک اسے متبادل نہیں ملتا ہے اور وہ اس کا اپنے ماحول سے موازنہ نہیں کرتا ہے۔
پختون پاکستان کی پسماندہ قوموں میں سے ایک ہے پختونخوا میں قدرتی وسائل کے خزانے ہیں مگر اس کے باسی روزگار اور پیٹ کی خاطر ملک کے صنعتی شہروں کا رخ کرتے رہتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وہاں کے ہوچکے ہیں ان کا جینا اور مرنا اور مفادات اس سے وابستہ ہے بلکہ ان ہی بڑے شہروں میں انہوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی بستیاں بھی بسالی ہیں مگر ان سب کے باوجود یہ ملک کے تمام شعبہ جات میں کم ہی نظر آتے ہیں جس کا بڑا سبب ان کی یہی بستیاں ہیں یہ قبائلی علاقہ جات اور پختونخوا سے جاتے ہیں تو ان ہی آبادیوں میں اپنے لئے رہائش اختیار کرکے وہی پیشے اپنا لیتے ہیں چنانچہ اس لئے ان کو ہم ان بڑے شہروں میں رہتے ہوئے بھی ڈرائیور، کنڈیکٹر،چوکیدار، پولیس،فوجی سپاہی،مالی، نائب قاصد، بیرا،ہوٹل مالک، مزدور اور محنت کے دیگر شعبہ جات میں کام کرتے ہوئے پاتے ہیں اگر کہیں پر منجمنٹ میں بھی ملتے ہیں تو نہ ہونے کے برابر ہیں اور یہاں بھی وہ بے بس ہیں۔
چنانچہ جس طرح کا سیٹ اپ ان کا پختونخوا اور قبائلی علاقہ جات میں بنا ہوا ہے وہاں بھی اسی نوعیت کا بن جاتا ہے یہ وہ بنیادی اسباب ہیں کہ یہ کل جہاں کھڑا تھا آج بھی قریب قریب وہیں کھڑا ہوا ہے
ہندو کے گھر میں پیدا ہونے والا بچہ ہندو ہی ہوتا ہے اور مسلمان یا عیسائی کے بچے کا بھی یہی حال ہوتا ہے ان میں اپنے مذاہب کے حوالے سے لچک نہیں پائی جاتی ہے مگر جہاں تمام مذاہب اور عقائد کے پیروکار نہ صرف بستے ہوں بلکہ ان میں بحث و مباحثہ کے دور بھی چلتے رہتے ہوں تو ان میں اپنے عقائد اور مذاہب کے ساتھ ساتھ روایات، رواجات اوررسومات سمیت ہر فعل اور عمل میں لچک پیدا ہوجاتی ہے اور وہ جذباتیت کا شکار نہیں ہوتے ہیں۔
حکومت،سیاست دان اور ملک کے بالا دست طبقات عوام کو قائل کرکے اپنے مقاصد کے لئے استعمال میں لاتے اور اپنی مرادیں اور عزائم پورے کرتے رہتے ہیں وہ جب چاہتے ہیں کہ ایک علاقہ کے باسی صرف اور صرف جنگجو پیدا کرتے رہیں تو وہ اس علاقے کی معاشی، سماجی، تعلیمی اور سیاسی صورت حال کا ایسا ڈھانچہ بنالیتے ہیں کہ پھر وہاں واقعی ہر ماں اپنی گود میں جنگجو پالنے پوسنے لگتی ہے۔
چنانچہ وہاں دور و نزدیک کہیں بھی کارخانہ دکھائی نہیں پڑتا ہے۔
زراعت بھی پسماندہ ہوتی ہے۔
جس سے غیر قانونی اور مہم جویانہ ذرائع کو تقویت مل جاتی ہے۔
تعلیم اور صحت کی سہولیات کا بھی فقدان ہوتا ہے۔
آدھی آبادی کو مفلوج اور خانہ داری تک محدود رکھا ہوتا ہے۔
سیاسی آزادیاں شجر ممنوعہ اور سیاست دانوں کے نام کنٹرول ایگزیسٹ لسٹ میں لکھے ہوتے ہیں۔
ا س علاقہ جات کو خطرناک مشہور کردیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کسی اور علاقہ کا باسی سو طرح کے خدشات لے کر داخل ہوتا ہے۔
کسی شہر کا رہائشی اس میں زمین نہیں خرید سکتا ہے ۔
اگر پولیٹکل ایجنٹ حوالات میں ڈال دیتا ہے تو عدالت سے اپیل نہیں کرسکتا ہے۔
بچہ پیدا ہوتا ہے تو سامنے دیوار پر پستول لٹکا ہوا دیکھتا ہے۔
آنکھ کھولتا ہے تو باپ اور بھائی کو کپڑے پہننے کے بعد پستول اور بندوق کو گلے میں لٹکائے باہر جاتے ہوئے پاتا ہے۔
سکول میں داخل ہوتا ہے گیٹ کے اوپر سکول کے نام پر نگاہ جاتی ہے تو وہ کسی شہید بچے، شہری یا سپاہی کے نام سے منسوب ہوتا ہے۔
اب اگر ان کو یہ بھی وقتاً فوقتاً یاد دلایا جاتا رہے کہ ان کو اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کے لئے پیدا کیا گیا ہے تو اسے سونے پر سہاگہ کہا جاتا ہے۔
غربت اور بدحالی کے باعث جنگ جھگڑے بھی ہوتے رہتے ہیں۔
توایسے ماحول کا نتیجہ ہر باہوش شخص جانتا ہے کہ کیا ہوتا ہے وہ علاقہ جنگجوؤں کی تعلیم و تربیت گاہ بن جاتا ہے ۔
برتن ساز، کمہار اور لوہار یہ جانکاری رکھتے ہیں کہ مخصوص اشیاء بنانے کے لئے مخصوص نوعیت کا سانچہ تیار کیا جاتا ہے یہ صورت حال اس وقت ہمارے قبائلی علاقہ جات کی ہے ان کو اپنے مخصوص سانچے میں ڈھالنے کا انتظام انگریز راج میں کیا گیا تھا اور ان کا مقصد اس وقت پورا ہوگیا جب افغانستان میں روس کو شکست ہوگئی اس کے ساتھ ہی روسی سوشلزم نے بھی دم توڑ دیا اور ہم یونی پولر دنیا میں داخل ہوگئے
چنانچہ موازنہ اور مثال کے ذریعہ ایک انسان کو تمام انسانوں اور انسانیت کے لئے مفید بنایا جاسکتا ہے تو اسے کلنگ مشین بھی بنایا جاسکتا ہے شاید اسی لئے چین کے ماؤ زے تنگ نے ایک جگہ لکھا ہے:۔
’’ یہ بندوق نہیں اس کے پیچھے انسان ہوتا ہے‘‘۔
چونکہ عالمی اور ساتھ ہی ملکی سطح پر بھی مفادات اور طبقاتی جنگ جاری ہے اس لئے کسی بیرونی طاقت سے یہ توقع رکھنا کہ وہ ہمارے لئے حالات سازگار بنا کر ہمیں تیار کھانا پکڑا دینے کے لئے بے چین بیٹھی ہے تو یہ یقیناً خود فریبی ہوگی لہٰذا اس کی ابتداء ایک علاقے کے اپنے باسی ہی کرتے ہیں کہ ان کے بھائی اور ہم وطن کو بندوق یا پھر قلم چلانا سکھانا ہے جس کے لئے راقم الحروف کا خیال ہے ۔
موازنہ اور مثال کا نسخہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھی بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔
موازنہ اور مثال کو ہمیشہ یاد رکھنے کے لئے بچوں کے لئے لکھی گئی اس چینی کہانی کو اپنے سرہانے رکھنا مفید ثابت ہوگا جس کا نام
ایک گھوڑی کے بچے نے ندی کو پار کیا ۔۔ہے ۔
♦