آصف جاوید۔ ٹورنٹو
ہچکچاہٹ، گومگوں، تذبذب، مخمصہ ، اردو کے یہ سارے الفاظ ایک ایسے انسانی رویّہ کے بارے میں ہیں، جن میں انسان شدید کنفیوژن کا شکار ہوکر فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے معذور نظر آتاہے۔
اگر کوئی انسان اپنی ذاتی حیثیت میں کنفیوژن کا شکار ہو توبات اتنی تشویش ناک نہیں ہوتی ، لیکن اگر کسی معاملے میں پوری قوم ہی کنفیوژن کا شکار ہو تو صورتحال تشویش ناک کے درجے سے نکل کر گمبھیر اور مہیب کے درجے میں داخل ہوجاتی ہے۔ قوموں کی ترقّی میں یہی مشکل ترین وقت ہوتا ہے۔
سماجیات کی تاریخ میں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اکثر قومیں اپنے ارتقائی مدارج میں قومی معاملات میں کنفیوژن کا شکار ہوجاتی ہیں۔ مہذّب اور ترقّی یافتہ اقوام کا وطیرہ یہ ہے کہ جب اجتماعی طور پر کسی معاملے میں کنفیوژن بہت بڑھ جاتا ہے ۔ تو اس قوم کے اہلِ فکر و دانش، اساتذہ اکرام، اہلِ ادب ، سیاستدان، ٹیکنوکریٹس،قانون داں، سِول سوسائٹی ، سماجی و ثقافتی تنظیمیں، اور دیگر معمارانِ قوم آگے بڑھ کر گفتگو، مکالمے، تبادلہ خیالات، بحث و مباحثہ کے ذریعے قومی مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔ سیاستدانوں اور قانون سازوں کو فکر و رہنمائی فراہم کرتے ہیں تاکہ یہ سیاستداں و قانون ساز ، مجلسِ قانون ساز میں بیٹھ کر قومی معاملات اور مسائل پرگفت و شنید اور بحث و مباحثہ کے ذریعے ان معاملات و مسائل کے قانونی حل تلاش کریں، قانون سازی کریں اور حکومتِ وقت عمل درآمد کے ذریعے قومی معاملات و مسائل کو طے شدہ لائحہ عمل کے تحت ایک نارمل سطح پر لائیں۔
وطن عزیز پاکستان میں مادری زبان میں تعلیم کا معاملہ کئی عشروں سے بحث کا شکار ہے۔ پہلے اس قسم کے مسائل عموما” اساتذہ اکرام، اہلِ علم و دانش کی فکری نشستوں، اہلِ ادب ، اور سِول سوسائٹی کی سماجی میٹنگوں یا والدین کی نجی گفتگو میں زیرِ بحث آیا کرتے تھے، مگر اب سوشل میڈیا پر عام آدمی کی رسائی کے بعد مادری زبان میں تعلیم کا معاملہ خواص سے نکل کر عوام کے زیرِ بحث آگیا ہے۔
مادری زبان میں تعلیم کے معاملے پر بحث و مباحثہ ، ریفرینڈم اور قانون سازی کرنے کے لئے یہ ایک بہترین وقت ہے۔ جمہوریت اپنے تسلسل میں ہے، سِول سوسائٹی، اساتذہ اکرام، اہلِ علم و دانش ، اہلِ ادب ، ٹیکنوکریٹس، سیاستدان اور مجلسِ قانون ساز پوری طرح فعال ہے ۔ ملک کو قائم ہوئے 70 سال ہوچکے ہیں۔ ان 70 سالوں میں تعلیمی اداروں اور اساتذہ اکرام کا تعلیمی تجربہ، طلباء و طالبات ، اساتذہ اکرام، والدین کے تجربات اور مشکلات کی روشنی میں قومی ترقّی کی رفتار میں نظام تعلیم اور ذریعہ تعلیم کی فعالیت کی جانچ پڑتال کے لئے اور مادری زبان میں تعلیم دینے یا نہ دینے کے مسئلے کی جانچ اور اِس گمبھیر قومی مسئلے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل کرنے کا یہ ایک بہترین اور نایاب موقعہ ہے۔
مادری زبان کی اہمیت اور ذریعہ تعلیم کے بارے میں میرے تجزئیے اور میری ذاتی رائے پر مشتمل میرےچند مضامین گذشتہ سالوں میں کینیڈا کے اردو اخبار “اردو خبرنامہ” میں شائع ہوچکے ہیں۔ اپنی افتادِ طبع اور لاابالی فطرت کی وجہ سے ان مضامین کی فائل کاپیوں کو میں محفوظ نہیں رکھ سکا ہوں، بہر حال انہیں تلاش کرنے کی ایک کوشش ضرور کروں گا، اگر دستیاب ہوگئے تو اپنی قارئین کی خدمت میں پیش کردوں گا، ورنہ حالات حاضرہ کے تناظر میں اس موضوع پر اپنا تجزیہ اور رائے چند نئے مضامین کی شکل میں اپنے قارئین کے گوش گذار کر تا رہوں گا۔
مادری زبان میں تعلیم کا موضوع بہت ہی حسّاس اور وقت کی شدید ترین ضرورت ہے۔ اس مسئلے سے روگردانی ایک قومی جرم کے مترادف ہے۔ مادری زبان میں تعلیم کے ساتھ ساتھ، تعلیمی مواد، نصابِ تعلیم، طریقہِ تعلیم، تعلیمی نظام ، اور تعلیم و تربیت کے ذریعے طالبعلموں کی کردار سازی و شخصیت سازی کے معاملات ،ملکی ضروریات اور گلوبلائزیشن کے تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں تعلیم یافتہ وتربیت یافتہ ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ کے موضوعات پر میرے مضامین قارئین کی خدمت میں پیش کئے جاتے رہیں گے۔ اگلے موضوع پر گفتگو کے وقفے تک قارئین سے اجازت چاہتا ہوں۔
کینیڈا میں موسم بہار کی رعنائیاں اپنے پورے عروج پر ہیں، آؤٹ ڈور سرگرمیوں میں معمول سے زیادہ اضافہ ہوگیاہے۔ ہیومن رائٹس اینڈ سوشل ایکٹیوسٹ ہونے کے ناطے سماجی رابطوں اور سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ چکّی کی مشقّت بھی جھیلنا پڑتی ہے۔ وقت کی کمی اور خیالات میں ہیجان کے سبب مشقِ سخن (کالم نگاری) میں تعطّل پیدا ہوجاتا ہے۔نیا زمانہ کے ایڈیٹر اور مہربان دوستوں کی طرف سے توجّہ دلانے پر اپنی کوتاہی پر شدید شرمندگی ہوتی ہے۔ کوشش کروں گا کہ قلم ساتھ لے کر چلتا رہوں۔ اور آئندہ کسی کو بھی شکایت کا موقعہ نہ ملے، میری معذرت قبول فرمائیے، ممنون رہوں گا۔
♣