مسعود قمر
بچپن میں ہمارے محلے میں ،، برف والے چوک ،، کی بڑی اہمیت تھی ، کیونکہ اس وقت ہماری پہنچ یہیں تک تھی ، جب گلی میں آنے والے چورن بابا ، لچے والا چاچا ، اور جب “بھیا زور دی “کے جھولے جھولتے دل اُکتا جاتا ، اور گھر آیا مہمان چونی کی بجائے اٹھنی دے دیتا تو ہم دوڑ کر برف والےچوک چلے جا تے اور ” امرتسری مٹھائی دی ہٹی ” سے بابے غنی سے اٹھنی کے چار لڈو خرید لیتے اور جب بابا غنی لڈو لینے کے لیے لڈوں کے تھال کی طرف رُخ کرتا تو بچے جلدی جلدی قریب پڑے بدانے کے تھال سے دو چار بدانے کے دانے اُٹھا کر منہ میں ڈال لیتے ، اگر ہماری چوری پکڑی جانی تو بابا غنی اپنے ہلتے ہوئے چہرے پہ بس ہلکی سی ہنسی ہلا دیتا، اگر بدانا چوری نہ کر پاتے تو لڈو لینے کے بعد کہتے بابا جی “چھونگا” وی دو ، بابا غنی ہلتے چہرے پہ ہنسی ہلاتے کہتا اُٹھا لو دو چار دانے ۔
بابا غنی کے والد دادا اور بابے غنی کے تائے کی مٹھایوں کی ہٹیاں امرتسر میں مشہور تھیں پاکستان بننے کے بعد بابا غنی امرتسرسے دو چار تھال ، دوچار کڑاھیاں ، کھویا بنانے کے لیے کھرپا لانے میں کامیاب ہو گیا تھا ، بابے غنی نے امرتسر سے لائل پور آکر پہلے کچی آبادی اور پھر لیبر کالونی جس کا نام بعد میں سمن آباد پڑ گیا تھا مٹھائی کی ہٹی کھول لی تھی اس کا آس پڑوس اور زیادہ تر گا ہک، امرتسر سے ہی اُس کے ساتھ چلے آے تھے ، وہ خالص دیسی گھی کی مٹھایاں بناتا تھا اُس دور میں دیسی گھی ہی استعمال ہوتا تھا ، چیزوں میں ملاوٹ کا ابھی زیادہ فیشن شروع نہیں ہوا تھا ، مگر سب سے اہم چیز جو اس ہٹی سے ملتی تھی وہ دودھ دہی اور لسی تھی ۔
تین دن سے زیادہ کی بنی مٹھایاں بابا غنی نہیں بیچتا تھا اور بچتی بھی نہیں تھیں جلبیاں تو وہ ہر وقت تازہ تازہ بنا کر دیتا تھا گھی کی کڑاھی چولہے پہ چڑھی رہتی نیچے آگ جلتی رہتی جب کوئی گا ہک آتا جتنی جلبیاں گا ہک مانگتا بابا غنی اُتنی ہی بنا کر دے دیتا ۔اگر کوئی گا ہک جلدی کا کہتا تو بابا غنی جلبیاں بنانے سے ہاتھ روک لیتا اور کہتا ،، بابو کسی اور دوکان سے جا کر لے لوِ ۔ایسا نہیں کہ بابے غنی کی دوکان پہ کھڑکی توڑ رش پڑا رہتا تھا ۔ بلکہ کئی دفعہ پورا پورا دن کوئی گاہک نہ آتا مگر بابے غنی کے ہلتے ہوئے چہرے پہ ہنسی ہلتی رہتی ۔
ایک بات خاص تھی کہ بابا یہ سب مٹھایاں دوکان کے اندرونی حصہ میں خود خفیہ طور پہ بناتا تھا اس عرصہ میں اُس کا بیٹا جھورا دوکان پہ آکر بیٹھ جاتا اور کسی کو بھی دوکان کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی ، بابا غنی مٹھائی کی قیمت پہ گا ہک کو بات کرنے اجازت نہیں دیتا تھا گاہک کو کسی اور دوکان پہ جانے کا مشورہ دے دیتا ۔
ہم نے دیکھا ایک دن ” برف والے چوک” کے دوسرے کونے میں ایک خوبصورت شو کیسوں سے سجی مٹھائی کی دوکان کھل گئی۔ اس کانام تھا“الحبیب سویٹ شاپ ِ ” بورڈ کے ایک کونے میں باریک لکھائی سے لکھا تھا دیسی گھی کی مٹھایاں، پتہ نہیں یہ عبارت اتنی باریک کیوں لکھی گی تھی دل میں کیا خوف یا چور تھا.۔
یہ کسی دوسرے شہر سے آنے والے نئے کرایہ دار حاجی حبیب نے کھولی تھی ، ساری مٹھایوں کے تھال شوکیسوں کے اندر رکھے تھیں دوکان میں صاف ستھرائی کا بہت خیال رکھا گیا تھا۔ دوکان میں ایک رجسٹرڈ بھی رکھا گیا تاکہ گایک اس دوکان میں بکنے والی مٹھایوں کی تعریف لکھ دیں ، یہ لوگ خود مٹھایاں نہیں بناتے تھے شہر سے مختلف دوکانوں سے مٹھایاں خرید کر اپنی دوکان پہ رکھ کر بیچتے تھے۔ اگر دیکھتے کہ لڈوؤں کی مانگ زیادہ ہے تو فوری اپنے ملازموں کو شہر میں دوڑتے اور مختلف دوکا نوں سے لڈو اکٹھے کر دوکان میں رکھ دیتے۔
اگر اگلے ہفتے برفی کی مانگ زیادہ ہوتی تو برفی اکٹھی کر لیتے اسی وجہ سے ان کی دوکان پہ بکنے والی مٹھایوں کا کوئی ایک ذائقہ نہیں تھا ، بس گاہک کی مانگ ہی ان کا ذا ئقہ تھا ، اگر کوئی مٹھائی کا سمجھنے والا ان کی دوکان سے مٹھائی خرید کر کھاتا تو اُسے ایک ڈلی چکھنے سے ہی فوری پتہ چل جاتا یہ اصلی دیسی گھی سے نہیں بنی۔ ویسے بھی اُس وقت ،، ڈالڈا بناسپتی ،، گھی مارکیٹ میں آچکا تھا گا ہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے حاجی حبیب نے دوکان میں مختلف پوسٹر بھی لگا رکھے ہیں جہاں مشہور ماڈل گرل نیم برہنہ لباس میں مٹھایاں کھا رہی ہوتی ۔ شام کو دوکان بند ہونے پہ حاجی حبیب دوکان پہ رکھا رجسٹرڈ ضرور دیکھتا کہ کتنے گایکوں نے مٹھایوں کی تعریف کی ہے ، جس دن تعریف کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا وہ پھولا نہ سماتا۔
فیس بک پہ بھی ، بابے غنی کی ” امرتسر ی مٹھائی دی ہٹی” اور ” الحبیب سویٹ شاپ “کی دوکانیں کُھلی ہوئی ہیں جہاں ایک طرف بابے غنی خالص گھی کی اپنے ہاتھوں سے بنی مٹھایاں لیے بیٹھے ہیں اور ان با بوں کی بنی مٹھایوں کا اپنا ذائقہ ہے جو ایک ڈلی چکھنے سے ہی پتہ چل جاتا ہے اور قیمت پہ بھی کوئی بحث نہیں کرتے اور فی البدیہ گاہکوں کو کسی دوسری دوکان پہ جانے کا مشورہ دے رہے ہیں اور اپنی دوکانوں پہ تعریف سے بھرے کوئی رجسٹرڈ بھی نہیں رکھتے۔
اور دوسری طرف ، الحبیب سویٹ شاپ کی دوکانیں کھلی ہیں ، جہاں مختلف ہاتھوں کی بنی مٹھایاں شوکیسوں میں سجی ہیں گاہک کے کہنے پہ فی البدیہہ مٹھا ئی بنا کر پیش کر دی جاتی ہے اور چکھنے سے پہلے ہی اُس کے آگے تعریف والا رجسٹرڈ کھول کر رکھ دیا جاتا اور قلم بھی اُس کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے اور تعریف لکھنے پہ ایک عدد پوسٹر بھی گا ہک کو مفت دیا جاتا ہے جس میں مشہور ماڈل گرل نیم برہنہ لباس میں ان کی دوکان کی مٹھائی کھا رہی ہوتی ہے۔
باقی تو فیس بک اور برف والے چوک کی مٹھایوں کی دوکانوں میں کوئی فرق نہیں بس ذرا گاہکوں میں فرق پڑ گیا ہے اگر کسی گا ہک کو اپکی دوکان کی کوئی مٹھائی پسند نہیں تو وہ فوری لٹھ بردار لے کر آپ کی دوکان میں آجاتا ہے کہ ، کل سے اگر تمھاری دوکان یہ برفی اور یہ لڈو دیکھا تو تم کافر اور وطن دشمن سمجھے جاؤ گے ۔ لہذا یہ کافر برفی اور وطن دشمن لڈو کل سے تمھاری دوکان پہ نظر نہیں آنا چاہیے۔
♥