یہ خبر پاکستان کے کسی اخبار میں شائع نہیں ہوئی ، نہ جانے کیوں؟ ممکن ہے میری نظر سے نہ گذری ہو۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردواں نے ہندوستان کے دو روزہ دورے کے دوران ، جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اعزازی ڈگری قبول کرتے ہوئے ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ہندوستان کو مستقل رکنیت دینے کی پر زور حمایت کی اور زور دیا کہ سلامتی کونسل میں اصلاحات ضروری ہیں ۔ صدر اردوان کا کہناتھا کہ ہندوستان کی آبادی ایک ارب تیس کروڑ ہے لیکن اس کے باوجود وہ سلامتی کونسل کا مستقل رکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح ایک ارب ستر کروڑ افراد عالم اسلام میں رہتے ہیں اور بھی سلامتی کونسل کا حصہ نہیں ہیں۔
پاکستان میں البتہ یہ خبر نمایاں طور پر شائع ہوئی تھی کہ صدر اردوان نے مسئلہ کشمیر پر ہندوستان کو ثالثی کی پیشکش کی تھی جسے نریندر مودی نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ مسئلہ ہے جسے دو طرفہ مذاکرات ہی سے حل ہونا چاہئے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران صدر اردوان کو یہ باور کرانے میں ناکام رہے ہیں کہ اس وقت جب کہ کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہا ہے ، اس تنازعہ کے ایک فریق کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنا کر اسے ویٹو کا حق دینا کسی طرح بھی انصاف قرار نہیں دیا جا سکتا۔ صحیح بات تو یہ ہوتی کہ جب صدر اردوان ہندوستان کے دورہ پر جا رہے تھے تو پاکستان کے حکمرانوں کو ان سے دوستی کا واسطہ دے کر درخواست کرنی چاہئے تھی کہ وہ نریندر مودی پر زور ڈالیں کہ کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق حل ہونا چاہئے، تاکہ کشمیریوں کو موجودہ عذاب سے نجات ملے اور کشمیر میں تعینات پانچ لاکھ ہندوستانی فوج اپنے گھر واپس آسکیں۔
صدر اردوان گذشتہ سال جب سرکاری دورے پر پاکستان آئے تھے تو ہمارے حکمرانوں نے اس موقع پر دوستی میں سرشار ہو کر کہا تھا کہ ہم صدر اردوان سے سیاسی وجدان حاصل کرتے ہیں،یہی نہیں بلکہ صدر ادوان کی خواہش کے مطابق پاکستان میں ان کے حریف فتح اللہ گولن کے پاک ترک تعلیمی ادارے بند کرنے اور ان اداروں کے ترک عملہ اور ان کے اہل خانہ کے ڈیڑھ سو افراد کو ملک بدر کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
لیکن کیا کیا جائے ہماری خارجہ پالیسی ایک عجیب و غریب یتیمی دور سے گذر رہی ہے۔ یہ واضح نہیں کہ کون پالیسی ساز ہے اور کون اس کا کھیون ہار ہے۔ اس سلسلہ میں لفظ خلفشار بہت ملائم لفظ ہے، کیونکہ خارجہ پالیسی ملک کے سیاسی مفادات اور قومی امیج کے ساتھ قومی سلامتی کے امور سے بھی وابستہ ہوتی ہے جس سے ہم نے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں۔اس سلسلہ میں نمایاں مثال ، اسلامی فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت کے فیصلہ کی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو غالبا اس کا احساس نہیں ہے کہ انہوں سوچے سمجھے بغیراسلامی فوجی اتحاد میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے اور اس پر غور نہیں کیا کہ پاکستانی فوج کے سابق سربراہ راحیل شریف کی خدمات جس عجلت میں سعودی عرب کے قائم کردہ اسلامی فوجی اتحاد کے سپرد کر دی ہیں اس کے کیا مضمرات ہوں گے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اسلامی فوجی اتحاد کا اصل مقصد کیا ہے۔ پہلے یہ کہا گیا تھا کہ اس اتحاد کا مقصد مسلم ممالک کو تمام دہشت گرد تنظیموں اور گروہوں سے تحفظ فراہم کر نا ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد دوم، اور وزیر دفاع محمد بن سلمان نے قیام کے وقت یہ اعلان کیا تھا کہ یہ اتحاد عراق، شام، لیبیا اور افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف کاوشوں میں رابطہ پیدا کرے گا۔ پتہ نہیں کہ ان چار ملکوں میں پاکستان کا نام کیوں شامل نہیں کیا گیا تھا، جب کہ پاکستان بھی دہشت گردی کے سنگین مسئلہ سے دوچار ہے۔ اس دوران یہ کہا گیا کہ اسلامی فوجی اتحاد کا مقصد بنیادی طور پر داعش کی دھشت گردی کا خاتمہ ہے۔ تو جہاں تک داعش کا تعلق ہے ، عراق ، شام اور دوسرے مقامات پر امریکی اور اس کے اتحادی پہلے ہی فوجی کاروائی میں مصروف ہیں تو کیا اسلامی فوجی اتحاد ، مغربی اتحاد سے نتھی ہوگا؟ کیا یہ اسلامی اتحاد ، امریکا اور اس کے اتحادیوں کا دوسرا محاذ ثابت ہوگا؟
گذشتہ سال جب راحیل شریف کو فوجی اتحاد کی سربراہی کی پیش کش کی گئی تھی تو یہ کہا گیا تھا کہ انہوں نے پیش کش قبول کرنے کے لئے تین شرائطپیش کی تھیں ان میں سے ایک شرط تھی کہ اس اتحاد میں ایران کو بھی شامل کیا جائے ۔ اب گذشتہ ماہ راحیل شریف اتحاد کی سربراہی سنبھالنے آخرکار سعودی عرب پہنچ گئے ہیں لیکن ابھی تک اس اتحاد میں ایران کی شمولیت کا کوئی اعلان نہیں ہوا ہے ۔ لبنان نے بھی ابھی تک اس اتحاد میں شامل ہونے پررضا مندی ظاہر نہیں کی ہے۔
بہت سے لوگوں کو حیرت اس بات پر ہے کہ فلسطین جو اسرائیل کی دہشت گردی کا بری طرح سے شکار ہے او رمحصور غزہ کئی بار اسرائیل کی جارحیت کا نشانہ بن چکا ہے ، اسے اس اتحاد میں یا تو شامل نہیں کیا گیا یاوہ اس اتحاد میں شامل نہیں ہوا ہے ۔ فتح اور حماس دونوں اس مسئلہ پر خاموش ہیں۔
یہ بات عیاں ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اسلامی فوجی اتحاد میں شمولیت اور راحیل شریف کی خدمات اتحاد کو پیش کرنے سے پہلے تمام مضمرات پر غور نہیں کیا۔ کیاان کی نظر سے یہ خبریں اور تجزیے نہیں گذرے جن میں کہاگیا تھا کہ اس اتحاد کے قیام کی غایت در اصل مشرق وسطی میں ایران کے سیاسی اور فوجی اثرو رسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔ ایسی صورت میں چاہے اس کا نام اسلامی فوجی اتحاد کیوں نہ ہو اس میں شمولیت سے پہلے پاکستان کے حکمرانوں کو یہ سوچنا چاہئے تھا کہ پاکستان کے قریب ترین ہمسایہ ایران کے پاکستان پر کتنے بھاری احسانات ہیں ۔
سنہ 1965کی جنگ میں جب امریکا اور برطانیہ نے پاکستان کو اسلحہ کی سپلائی بند کردی تھی اور پاکستان فوجی اعتبار سے بے دست و پا رہ گیا تھا تو اس کٹھن موقع پر ایران نے وہ امریکی اسلحہ جس پر پاکستان کا دارومدار تھا ، پاکستان کو فراہم کیااوراس کے بل پر پاکستان ، اپنا دفاع کر سکا۔ پھر اسی جنگ میں پاکستان کی فضایہ کے طیارے جو ہندوستان کے حملوں کی زد میں تھے انہیں ایران نے اپنی سرزمین پر تحفظ فراہم کیا۔ یہ حقیقت بھلائی نہیں جا سکتی کہ ایران نے 1971کی جنگ کے دوران اس وقت پاکستان کی بھرپور فوجی مدد کی تھی جب مشرقی پاکستان گنوادینے کے بعد پاکستان کو مغربی حصہ کے دفاع کے لالے پڑ گئے تھے ، اس احسان کو پاکستانی عوام کبھی نہیں بھلا سکتے۔ 1974سے 1977تک بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی مسلح شورش کے دوران ایران نے پاکستان کی فوج سے تعاون کیا تھا اور اس شورش کے خاتمہ میں مدد دی تھی۔
کشمیر کے مسئلہ پر ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ خامنہ ای نے تمام عالم اسلام سے پرزور اپیل کی تھی کہ وہ جموں و کشمیر کی آزادی کی تحریک کی حمایت کرے۔کشمیر کی آزادی کی تحریک کی حمایت میں اس سے زیادہ پر زور اپیل آج تک کسی اور ملک کے سربراہ نے نہیں کی۔
افسوس ہے کہ اس کے باوجود پاکستان نے اپنے قریبی پڑوسی ایران کے قایدین سے صلاح مشورہ کیے بغیر ، اور اس کے مضمرات پر غور کئے بنا، سعودی عرب کے اسلامی فوجی اتحاد میں نہ صرف شامل ہونے کا اعلان کر دیا بلکہ پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ راحیل شریف کو اس اتحاد کی سربراہی کے لئے پیش کر دیا۔
یہ فیصلہ اس بات کی دلیل ہے کہ پاکستان کی اس وقت کوئی مربوط خارجہ پالیسی نہیں بلکہ بہت سے لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ اس وقت پاکستان کی کوئی خارجہ پالیسی ہے ہی نہیں۔ایسی یتیمی صورت میں اس پالیسی کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے ؟
♥
2 Comments