ظفر آغا
اللہ رے ہندوستانی مسلمانوں کی بے حسی، پچھلے سال اُترپردیش میں اخلاق کو لوگوں نے گھر میں گھس کر مارا اور کروڑوں مسلمان اپنے اپنے گھروں میں سہمے سمٹے بیٹھے رہے۔ ابھی مشکل سے دو ہفتے قبل پہلو خان کو راجستھان میں پیٹ پیٹ کر ماردیا گیا اور پھر کہیں کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ لگتا ہے نفسیاتی طور پر مسلمان غلامی اور دوسرے درجہ کی شہریت کو قبول کرتے جارہے ہیں۔ یہ انتہائی خطرناک علامت ہے ، کیونکہ کسی بھی قوم کو غلام اور محکوم بنانے کی حکمت عملی ہمیشہ یہی رہی ہے کہ اس قوم کو مستقل خوف میں مبتلاء کردو۔
مثلاً ہندوستانی دلت ویسے ہی انسان ہیں جیسے کہ دوسری اعلیٰ ذات قومیں ہیں لیکن اعلیٰ ذاتوں نے دھرم کے نام پر صدیوں سے دلتوں کو ایک ایسے خوف میں مبتلاء کردیا ہے کہ اس نے خود اپنے کو اچھوت تسلیم کرلیا۔ اس کو کہتے ہیں ذہنی غلامی جس میں کوئی بھی شخص ایک نارمل انسان ہوتے ہوئے بھی خوف کی زندگی جینے کا عادی ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے خلاف ہونے والے ہرظلم و تشدد کے خلاف آواز اٹھانے کی بھی جرأت نہیں کرتا۔
سنگھ پریوار ان دنوں طرح طرح سے یہی حربہ مسلمانوں کے خلاف استعمال کررہا ہے تاکہ مسلمان ذہنی طور اور نفسیاتی طور پر اتنا خائف ہوجائے کہ وہ ہر ظلم کو خاموشی سے برداشت کرتا رہے۔ اس کے لئے اس نے ایک ایسی حکمت عملی بنا رکھی ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے خلاف ایک مستقل نفسیاتی جنگ چھیڑے رکھنا ہے اور اس کو کبھی ’ لوجہاد‘ کی آڑ میں نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی گاؤ رکھشا کے بہانے اس کو راہ چلتے مار دیا جاتا ہے تو کبھی تین طلاق کے مسئلہ پر بحث چھیڑ کر اس کو شرمندہ کیا جاتا ہے۔کبھی اذان کو نعوذ باللہ غنڈہ گردی کہہ کر اس کے عقائد پر چوٹ پہنچائی جاتی ہے۔
الغرض! یہ تمام حربے مسلمانوں کے خلاف سنگھ کی نفسیاتی جنگ کا ایک منظم سلسلہ ہے اور اس کا مقصد مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر اتنا خائف کرنا ہے کہ وہ خود کو اس قدر لاچار و مجبور محسوس کرنے لگے ، وہ اپنے اوپر ہونے والے ہر ظلم کو تسلیم کرلے۔ غلامی کی یہی پہلی منزل ہوتی ہے جو کسی بھی قوم کو محکوم اور دوسرے درجہ کا شہری بنادیتی ہے۔
پچھلے دو تین برسوں میں سنگھ کی اس منظم نفسیاتی جنگ کا شکار ہوکر مسلمان اس وقت خوف کی زندگی جینے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ اخلاق مارا جاتا ہے اور وہ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ پہلو خان کا قتل ہوتا ہے اور کہیں کوئی احتجاج نہیں ہوتا ہے۔ گوشت کی دکانات اور گوشت کے پکوان والے ہوٹل بند کردیئے جاتے ہیں اور کہیں کوئی آواز نہیں اٹھتی ہے۔ آخر یہ ہندوستانی مسلمانوں کو ہوا کیا ہے؟ کیا یہ وہی مسلم قوم ہے جو کبھی اسی ہندوستان پر حاکم تھی۔ کیا یہ وہی مسلمان ہیں جنہوں نے انگریزوں کے ظلم کے خلاف ایسی جنگ کی کہ انگریزوں کے دانت کھٹے ہوگئے۔
آج وہی مسلمان اپنے خلاف ہونے والے ظلم کو خاموشی سے برداشت کرتے ہیں اور خوف کی زندگی جینے کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ جبکہ ہندوستان وہ ملک ہے جہاں ہندوستانی مسلمانوں کو آئینی سطح پر وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو دوسرے شہریوں کو حاصل ہیں۔ ہر قوم پُرامن طریقے سے جدوجہد کررکے اس ملک میں اپنے حقوق حاصل کررہی ہے لیکن مسلمان آئینی طور پر اپنے حق حاصل کرنے کی کوئی بھی جدوجہد کرنے سے معذور نظر آتے ہیں، آخر کیوں۔؟
پُرامن آئینی جدوجہد وہی قوم کرسکتی ہے جو دور حاضر کے تقاضوں سے نہ صرف بخوبی واقف ہو بلکہ وہ ایک جدید حکمت عملی بناکر اپنے حقوق حاصل کرنے کی اہل بھی ہو۔ ہندوستانی مسلمانوں کیلئے مصیبت یہ ہے کہ وہ ماضی میں جینے کا عادی ہوچکا ہے۔ اس نے اپنی قیادت جدید فکر ونظر والوں کو نہیں بلکہ مدرسوں سے پڑھ کر نکلنے والے علماء کے ہاتھوں میں دے دی ہے۔ مدرسے دینی تعلیم کے مرکز ہیں ، وہاں سے نکلنے والے علماء شرعی مسائل تو حل کرسکتے ہیں لیکن دور حاضر کے پیچیدہ سیاسی مسائل پر ان کی دسترس نہیں ہوسکتی۔
یہی وجہ ہے کہ کسی بھی مسلم مسئلہ پر ہماری قیادت عموماً ایک جذباتی ردعمل کرتی ہے اور اس کا جواب فتویٰ یا شرعی حکم نامہ کی شکل میں جاری کرتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دوسری قومیں یہ سمجھتی ہیں کہ مسلمان یوں تو سیکولرازم کی دہائی دیتے ہیں لیکن خود اپنی ہر بات پر شریعت کی دہائی دیتے ہیں۔ اس طرح انہیں ان کی جدوجہد پر ہمدردی کے بجائے نفرت پر مبنی ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
لب لباب یہ ہے کہ محض مدرسوں کی تعلیم اور علماء کی قیادت سے اب مسلم مسائل حل ہونے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوتے جارہے ہیں اور ہماری روایتی قیادت نہ صرف بے اثر بلکہ منفی بھی ہوتی جارہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ چاروں طرف سے نت نئے مسائل سے گھرے مسلمان خوف کا شکار ہوتے جارہے ہیں اور یہ بے چارگی اس کو نفسیاتی غلام بناتی جارہی ہے، اس لئے وہ اخلاق اور پہلو خان جیسے مسائل پر خاموشی سے تکتا رہتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ اب روایتی قیادت کی جگہ ایک جدید قیادت کی تلاش ہو جو دور حاضر کے مسائل کو نہ صرف سمجھنے کی حامل ہو بلکہ آئینی حدود ے اندر اپنے مسائل کو تمام ہندوستانی عوام کو باور کروانے کی اہل بھی ہو لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے جس کا پہلا مقصد خود مسلمانوں میں پیدا ہوئے خوف کو ختم کرنا ہونا چاہیئے۔
کسی قوم کا خوف تب ہی مٹ سکتا ہے جب وہ اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کی اہل ہو۔ اس دور میں وہی اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکتا ہے جو جدید تعلیم سے لیس ہو۔ اس لئے ایسی قیادت درکار ہے جو پہلے سرسید کی طرح مسلمانوں میں جدید تعلیم کو گھر گھر پہنچا سکے اور قوم میں ایک جدید فکر و نظر پیدا کرنے کی بھی اہل ہو۔ یعنی مسلمانوں کی پہلی ضرورت خود اس کی سماجی اصلاح ہے، اس کے ساتھ ساتھ ایسی قیادت کو آئینی لب ولہجے کے ساتھ آئینی حدود کے میں رہ کر مسلمانوں کے سیاسی مسائل کو حل کرنے کی بھی اہلیت ہونی چاہیئے۔
مسلمان اس وقت جن سنگین حالات سے دوچار ہیں ان حالات سے نمٹنے کیلئے محض مدرسہ کی تعلیم اور روایتی قیادت ناکافی ہوچکی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ مسلمان اب بھی ایسے ہی قائدین کا شکار ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم مڈل کلاس پڑھالکھا تعلیم یافتہ طبقہ مسلم قیادت کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اس کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرے۔ اگر اب بھی ایسا نہیں ہوتا ہے تو مسلمان نفسیاتی غلام تو کیا جلد ہی باقاعدہ غلام ہوجائیں گے۔
روزنامہ سیاست حیدرآباد، انڈیا