آئی ایس پی آر کے بلند و بانگ دعووں کے باوجود آپریشن ضرب عضب کے تین سال بعد بھی بے گھر ہونے والے قبائلی اپنے گھروں میں واپس نہیں جا سکےاور ابھی تک خیموں میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ پاکستان آرمی کے علاقے کلئیر کرانے کے تمام دعوے جھوٹے نکلے۔ پاکستانی ریاست کی سیکورٹی پالیسیوں کا سب سے زیادہ خمیازہ قبائلی عوام نے بھگتا ہے۔
شمالی وزیرستان کے دتہ خیل اور نواحی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے علاقوں میں واپس جانے کے لئے حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اس مقصد کے لئے قبائلیوں نے پشاور اور بنوں میں احتجاج کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔لیکن مین سٹریم میڈیا بے گھر قبائلیوں کے حق میں آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔
شمالی وزیرستان کے عالقہ ڈانڈے درپہ خیل سے تعلق رکھنے والے بے گھر افراد کے سربراہ قادر زمان کا کہنا ہے، ’’ہم نے عالمی امن کی خاطر گھر بار چھوڑ کر خیموں میں رہنا گوارا کیا اور تین سال تک ڈھائی ہزار سے زیادہ خاندان اپنے ہی ملک میں بے گھر رہے لیکن آج ہماری واپسی میں مشکلات کھڑی کی جا رہی ہیں۔‘‘
ملک کے اندر ہی بے گھر ہونے والے ان افراد کا کہنا تھا کہ جب تک ان کی واپسی کے لئے تاریخ نہیں دی جاتی، تب تک وہ اسی طرح احتجاج کریں گے اور اس کے اگلے مرحلے میں اسلام آباد کا رخ کیا جائے گا۔
ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے قبائلی علاقوں کے لئے فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل محمد خالد خان کا کہنا تھا، ’’ابھی ان علاقوں میں لوگوں کو نہیں بھیج سکتے ۔ ان علاقوں کو کلیئر کرانا ابھی باقی ہے جب کہ اس کے بعد ان لوگوں کے لئے بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہوں گی۔ ایک جانب سکیورٹی کا ایشو ہے تو دوسری جانب ان علاقوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ بے گھر افراد کو ماہانہ بارہ ہزار روپے کے ساتھ ساتھ فوڈ اور نان فوڈ آئٹمز فراہم کی جا رہی ہیں۔ انکا کہنا تھا، ’’شمالی وزیر ستان کے میر علی اور میران سمیت دتہ خیل کے کئی علاقوں کو کلیئر کرانا ابھی باقی ہے اور جونہی یہ علاقے دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں سے صاف کئے جائیں گے ان لوگوں کی واپسی کا عمل شروع ہو جائے گا‘‘۔
فوج کی طرف سے قبائلی علاقوں میں چھپے جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کا اغاز ہوا تو مقامی لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں اور ان کے ساتھیوں کے خلاف آپریشن کی وجہ سے ان علاقوں کا بنیادی ڈھانچہ بری طرح تباہ ہو گیا ہے۔ قبائلی علاقوں کے انفراسٹرکچر کے ساتھ انتظامی ڈھانچے کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
قبائلی اُمور کے ماہر شمس مومند کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’تین عشروں سے قبائلی علاقے حالت جنگ میں ہیں، جس کی وجہ سے پہلے سے پسماندہ ان علاقوں کا انفراسٹرکچر بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اب ان علاقوں میں بنیادی سہولیات اور روزگار کا فقدان ہے، جس کی وجہ سے بعض لوگ واپسی سے کتراتے ہیں لیکن بعض ایسے علاقے ہیں، جہاں کاشت کار اور تجارت اب بھی کی جا رہی ہے۔
ان علاقوں کے لوگ واپس جانے کے لئے بے تاب ہیں کیوں کہ یہاں انہیں متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اب تو قبائلی عوام کی اکثریت بنیادی سہولیات کی وجہ سے قبائلی علاقوں کو جلد سے جلد خیبر پختونخوا کاحصہ بنانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔‘‘
♦