آصف جیلانی
اس کے علاوہ اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان سوتا رہا اور ہندوستان نے پاکستان میں جاسوسی اور دہشت گردی کے جرم میں فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے کلبھوشن یادو کی سزا کے خلاف ہیگ میں بین الاقوامی عدالت انصاف سے حکم امتناعی حاصل کر لیا ہے۔ بین الاقوامی عدالت کے صدر رونی ابراہم نے ، پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف کو حکم دیا ہے کہ ہندوستان کی درخواست کی سماعت اور اس پر فیصلہ تک کلبھوشن یادو کے خلاف سزائے موت پر عمل نہ کیا جائے۔
ہندوستان کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ کلبھوشن یادو کو ایران سے اغوا ء کیا گیا ہے جہاں وہ انڈین نیوی سے ریٹائر ہونے کے بعد بندرگاہ چہاہ بہار میں کام کررہا تھا۔ ہندوستان کی درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کلبھوشن کو ہندوستانی کاونسلر رسائی نہ دے کر اور اس کی گرفتاری کے باے میں تفصیلات فراہم کرنے سے انکار پر پاکستان نے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے۔
بین الاقوامی عدالت انصاف کے حکم کے بعد اب پاکستان بڑی حد تک بے بس ہوگیا ہے کیونکہ بین الاقوامی عدالت انصاف کے فیصلے مقدمہ کے دونوں فریقوں کے لئے پابند عمل ہوتے ہیں اور عدالت جو بھی فیصلہ دے اس کی کہیں اپیل نہیں کی جاسکتی۔
ملک میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ حکومت نے کلبھوشن یادو کے معاملے میں بے حد سست روی اور قدرے سرد مہری سے کام لیا ہے۔ کلبھوشن یادو کو 3مارچ 2016کو بلوچستان میں گرفتار کیا گیا تھا، 22روز بعد اس کا اقبال جرم وڈیو کی صورت میں سامنے آیا تھا۔ فوج کے اس زمانے کے ترجمان میجر جنرل عاصم باجوہ نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ یادو ایک جعلی پاسپورٹ پر ایران کی بندرگاہ چاہ بہار آیا تھا جہاں اس نے اپنا نام حسین مبارک پٹیل رکھا اور 2013میں پاکستان میں داخل ہو کر اس نے بلوچستان میں گڈانی میں اسکریپ ڈیلر کے بھیس میں کام شروع کیااور بلوچستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی کے لئے علیحدگی پسندوں کو منظم کیا اور کراچی میں دہشت گردی کے لئے رقومات تقسیم کیں ۔ عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ یادو کا اصل مقصد سی پیک کو تخریب کاری کا نشانہ بنانا تھا۔ ہندوستان نے یادو کے اس اقبالی بیان کے وڈیو کو ڈاکٹرڈ قرار دیا جس کا مقصد ہندوستان کو بدنام کرنا تھا۔
یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کلبھوشن یادو کے اس اقبالی وڈیو کو فی الفور پوری دنیا کے سامنے کیوں پیش نہیں کیا گیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان کس منظم طریقہ سے بلوچستان میں مداخلت کر رہا ہے اور علیحدگی پسندوں کو دہشت گردی پر اکسا رہا ہے۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف کو اچھا موقع ملا تھا کہ وہ گذشتہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کلبھوشن یادو کا اقبالی بیان پیش کرتے اور ساری دنیا کے سامنے ہندوستان کی مداخلت کا ثبوت رکھتے ۔ یہ سمجھ میں نہیں آیا کہ کلبھوشن کا اقبالی بیان دنیا کے سامنے پیش نہ کرنے میں کیا مصلحت تھی۔
پھر ایک سال تک کلبھوشن کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے بجائے اسے ایک نادر شے کی طرح چھپائے رکھا ۔ اس سال اپریل کی دس تاریخ کو یہ اعلان کیا گیا کہ کلبھوشن کے خلاف کورٹ مارشل میں مقدمہ چلانے کے بعد اسے سزائے موت سنائی گئی ہے ۔ کورٹ مارشل میں خفیہ مقدمہ چلانے کے بجائے بہتر یہ ہوتا کہ مقدمہ کی کھلی سماعت ہوتی جس میں پاکستانی اور بین الاقوامی صحافیوں کو شرکت کی اجازت دی جاتی ۔
اگر کورٹ مارشل کی کھلی سماعت میں ملک کی سلامتی کی حساس معلومات کے افشا ء کا خطرہ تھا تو سماعت جزوی طور پر بند کمرے میں ہو سکتی تھی۔ کورٹ مارشل کی سماعت میں صحافیوں کی شرکت سے کوئی آسمان نہیں گر پڑتابلکہ اس صورت میں کسی کو کلبھوشن کی سزائے موت پر اعتراض کا موقع نہ ملتا بلکہ اس کے خلاف سنگین الزامات سے ساری دنیا واقف ہوتی اور ممکن ہوتی کہ سزائے موت پر صاد کرتی۔
بلاشبہ کلبھوشن یادو کی سزائے موت پر بین الاقوامی عدالت انصاف کا حکم امتناعی پاکستان کے لئے شرمندگی کا باعث ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اس وقت جمود کا شکار ہے۔ میں یہ بات نہیں د ہراؤں گا کہ پاکستان کا کوئی کل وقتی وزیر خارجہ نہیں لیکن اس کے باوجود وزیر اعظم نواز شریف جو وزارت خارجہ کا قلم دان بھی اپنے پاس رکھتے ہیں ، پاکستان سے باہر نکل کر دوسرے ممالک سے روابط رکھ سکتے ہیں اور پاکستان کے موقف کی وضاحت کر سکتے ہیں۔
خاص طور پر جب کہ ہندوستان کے وزیر اعظم مودی نے اپنے غیر ملکی دوروں میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے ۔ پچھلے دو برس میں انہوں نے 49غیر ملکی دورے کئے ہیں اور زور ان کا مسلم ممالک کے دوروں پر رہا ہے۔ کلبھوشن یادو کے معاملہ میں وزیر اعظم نواز شریف ،غیر ممالک کے دوروں میں پاکستان کے داخلی معاملات میں ہندوستان کی سنگین مداخلت کے ثبوت پیش کرسکتے تھے اور اگر پاکستان کے ہم خیال نہیں تو کم از کم ہندوستان کے منصوبوں اور اقدامات سے ان ممالک کو باخبر رکھ سکتے تھے۔
آج جب کہ پاکستان اپنے چار میں سے تین ہمسایہ ملکوں سے کشیدگی کی کہر میں گرفتار ہے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو فعال بنانے کی اشد ضرورت ہے۔بہتر یہ ہوگا کہ وزارت اطلاعات کو ختم کر کے اس کا بجٹ غیر ممالک میں سفارت خانوں کو تفویض کر دیا جائے ،تاکہ یہ پاکستان کی امیج بہتر بنانے اور پاکستان کے موقف کی وضاحت کرنے کا کام زیاد ہ سے زیادہ موثر طور پر انجام دے سکیں۔
ویسے بھی اب اطلاعات و نشریات کی وزارت کا وجوددقیا نوسی بن چکا ہے۔ دنیا کے بیشتر ملکوں نے یہ عیاشی ترک کر دی ہے۔ یہ دلیل ناقابل فہم ہے کہ وزارت اطلاعات ملک کا امیج بہتر بنانے میں اہم کام انجام دیتی ہے۔ ملک کے اخباروں اور میڈیا کو کروڑوں روپے کے اشتہارات کی تقسیم سے امیج کسی طور بھی بہتر نہیں ہو سکتی۔ البتہ میڈیا کو خوش رکھا جا سکتا ہے۔
بہرحالٍ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہندوستان نے بین الاقوامی عدالت انصاف سے کلبھوشن کی سزائے موت پر حکم امتناعی حاصل کر کے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور ڈپلومیسی کو سراسر ناکام ثابت کر دیا ہے۔ دور دور تک کہیں کامیابی کا نشان نظر نہیں آتا۔ ۔۔ کہاں ہے منزلِ راہِ تمنا ہم بھی دیکھیں گے۔
♥