سبطِ حسن
انفرادی ارادے اور جاری بیانیے کے درمیان تعلق کا مطالعہ
قسط 4۔ بیانیہ اور سماجی تنظیم
کھیل کا میدان ہو یا سنیما گھر، ان میں آتے ہی سب لوگوں کی انفردیت ، مخصوص اجتماعی رویوں کے تابع ہو جاتی ہے۔ کھیل کے میدان میں سب لوگ اپنی اپنی پسند کی ٹیم کی جیت دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔ کھیل کا میدان عمومی طور پر دو حصوں میں بٹ جاتا ہے۔ دیکھنے والے اپنی اپنی ٹیم کی کارکردگی کو لمحہ بہ لمحہ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی حرکت یا سکور ٹیم کی جیت کا ا شارہ دے یا جیت کی طرف لے جانے کا عندیہ دے تو اس ٹیم کے شائقین میں جوش بھر جاتا ہے۔ اگر ٹیم کی کارکردگی توقع سے کم ہو تو شائقین اداس ہو جاتے ہیں۔
سٹیڈیم ہو یا کھیل کا میدان، ان میں آئے لوگ اپنی انفرادیت کو بھول کر ا پنے آپ کو ایک اجتماعی لگن کو سونپ دیتے ہیں۔ اسی طرح سنیما گھر میںآنے کے بعد سب لوگ ایک دوسرے سے ملتا جلتا چلن اختیار کرلیتے ہیں۔ سب لوگ قطار میں کھڑے ہو کر ٹکٹ لیں گے اور اپنی مقررہ نشست پر بیٹھ جائیں گے۔پاپ کارن خریدنا یا کھانے پینے کے لیے کچھ لینااعلیٰ سماجی حیثیت یا اس کی نقالی کے لیے ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ فلم کے دوران اگر مزاحیہ منظر آئے گا تو سب ہنسیں گے۔ اگر دردناک منظر ہوگا تو سب اپنے اپنے تخیل کے مطابق افسردہ ہونگے۔ سنیما گھر میں سب پر لازم ہے کہ وہ اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے رہیں۔ سنیما میں آنے والے سب لوگوں کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے۔ اسی داخلی خواہش کو پورا کرنے میں سنیما گھر کے آداب سب کی مدد کرتے ہیں اور اس طرح سنیما کا انتظام بھی ممکن ہو جاتا ہے۔ یعنی یہ کہ سنیما کے آداب اور وہاں آنے والے لوگوں کی اجتماعی خواہش میں ایک ربط ہوتا ہے۔
جس طرح سنیماگھر اور کھیل کے میدان کے آداب اجتماعی مقصد کو پورا کرنے میں مدد کرتے ہیں، اسی طرح کوئی بھی معاشرہ اپنے سماجی اہداف حاصل کرنے کے لیے روایات،رسوم اور آداب وغیرہ طے کرتا ہے۔جس طرح سنیما گھر او رکھیل کے میدان کا ایک بیانیہ ہوتا ہے اسی طرح کسی بھی معاشرے کا ایک بیانیہ ہوتا ہے۔بیانیہ محض آداب ، روایات یاقوانین کا مجموعہ نہیں ہوتا، یہ لوگوں کی زندگی کی دھڑکن ہوتا ہے۔ اسی طرح جیسے کھیل کے میدان میں مخصوص وقت کے دوران لوگوں کی زندگی کی دھڑکن ایک بیانیہ بن جاتا ہے۔
لوگ اپنے معاشرے کے بیانیے کے اسیر ہوتے ہیں اور ان کی زندگیوں کا ہر پہلو اسی بیانیے کے تحت معانی حاصل کرتا ہے۔مثال کے طور پر روایتی معاشرے میں ہر مرد اور عورت کے لیے ایک بیانیہ ہوتا ہے۔ اگر ایک لڑکے کی جنس تبدیل ہو جائے اور ڈاکٹر اسے آپریشن کرکے لڑکی بنا دیں تو معاشرہ اسےخالصتاً مرد یا خالصتاً عورت کا رتبہ نہ عطا کرے گا۔ تاہم اس کے لیے ایک ترکیب طے ہے اور وہ یہ کہ وہ مرد اور عورت کے درمیان ایک محنث کے بیانیے کے تحت زندگی گزار لے گا۔ مرد یا عورت ہونا دراصل مخصوص بیانیے کا نتیجہ ہے۔ یعنی یہ کہ مرد یا عورت سے منسوب مخصوص شعور اپنی ذات میں کچھ نہیں ،۔
یہ دراصل سماجی بیانیے کا عکس ہے۔ جب کسی گھر میں ایک لڑکی پیدا ہوتی ہے تو وہ عام بچوں کی طرح ایک انسان یا فرد نہیں ہوتی۔ جب اسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے توبچی خاموشی سے اس بیانیے کا شکار بننا شروع ہو جاتی ہے۔ اسے ہمیشہ جنسی تقابل میں لڑ کے کی مخالف جنس سمجھا جاتا ہے۔ لڑکا گھر سے باہر کھیل سکتا ہے، لڑکی ہر گز نہیں۔ لڑکی جسمانی، اخلاقی اور نفسیاتی طور پر کمزور ہے اس لیے اس کو مسلسل نگرانی میں رکھنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ خواہ دس سال کابھائی، پچیس سال کی لڑکی کے ساتھ ہو، وہ اکیلی گھر سے باہر نہیں جاسکتی۔
ہمارے ہاں انفرادی شناخت کے لیے چونکہ جنس کا تعیّن لازمی ہے اس لیے کسی فرد کی شناخت اس کے جسم میں موجود اعضائے مخصوصہ سے کی جاتی ہے۔ یہ اس زمانے کی یادگار ہے جب عورت اپنی ممتا کے فطری کردار کی اسیر تھی۔ اب سائنسی ترقّی کی بدولت عورت بچہ پیدا کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ بچہ پیدا کرنے پر عورت کے اختیار کے بعد انفرادی شناخت کے لیے جنس کا پیمانہ بے معنی ہو جاتا ہے۔ اب کسی بھی فرد کی شناخت اس کی تخلیقی صلاحیت اورکام کرنے کی اہلیت پر منحصر کرتی ہے۔ اگر جنسی تفریق کے بیانیے کو ختم کرکے سب کو آگے بڑھنے کے مساوی مواقع ملیں توانفردیت پر مبنی شناخت کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔
سماجی بیانیے میں بہت گہرائی میں ایک مخصوص فرد یا ذات کا تصور چھپا ہوتا ہے۔ جس زاویے سے بچیوں کو دیکھا جاتا ہے وہ دراصل ایک ترکیب ہو تی ہے۔ اسی ترکیب کے سائے میں بچی اپنے آپ کو نہ صرف دیکھتی ہے بلکہ ارد گرد لوگوں کے ساتھ رشتے بھی قائم کرتی ہے۔ جب ، بہت چھوٹی عمر میں اسے سمجھ آجاتی ہے کہ وہ ان چاہی زندگی گزار رہی ہے تو وہ اپنے آپ کو بھول کر، اپنی اصلیت سے قطع نظر دوسروں کو یہ ثابت کرنے میں جت جاتی ہے کہ وہ ان کو خوش کرنے کے لیے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ اس طرح اس کی زیست کے معانی دوسروں کی خدمت گزاری کے ساتھ منسلک ہوجاتے ہیں۔ اگر اسے خدمت گزاری کا موقع نہ دیا جائے تو وہ سمجھتی ہے کہ اس کے ارد گرد لوگ اس سے ناراض ہیں۔ برداشت کرنااس کا عمومی رویہ بن جاتا ہے۔
اسی طرح اس بیانیے میں مرد انگی کے لیے بھی ایک ترکیب ہے۔ اس ترکیب کے تحت ایک لڑکے کو سمجھایا جاتا ہے کہ وہ جیسا بھی ہے ، سب سے پسندیدہ ہے۔ جس طرح ایک بچّی بنانے کی ترکیب ایک فریب ہے اسی طرح بیٹا بنانے کی ترکیب بھی ڈھونگ ہے۔ اسے سمجھایا جاتا ہے کہ وہ مرد ہونے کے ناطے ایک اعلیٰ مراعات یافتہ درجے کا مالک ہے۔ اس درجے پر وہی بیٹھتا ہے جو حوصلہ مند ہو، جو جسمانی طور پر مضبوط ہو اور وہ معاشرے کا سربراہ ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ مردانگی کے اس معیا ر کے مقابل، چونکہ عورتیں ہوتی ہیں ، اس لیے وہ اپنا عورت پن یا نسائیت اسی تقابل میں سنوارتی ہیں۔ مثلاََ، اگر مردانگی کے لیے حوصلہ مند ہونا ضروری ہے تو وہ لا محا لہ ڈرپوک بن جائیں گی، خواہ ان میں حوصلہ مند ہونے کی پوری صلاحیت ہو۔
کسی بھی معاشرے کا بیانیہ مستقل بنیادوں پر اپنے اعتقادات، اخلاقی ترجیحات ، زندگی یا موت سے متعلق نظریات اور سب سے بڑھ کر لوگوں کی تشکیلِ ذات کی ترکیب طے کرتا ہے۔ اس بیانیے کی موجودگی میں لوگوں کو اپنے طور پر سوچنے کی حاجت نہیں رہتی۔ وہ ایک بنے بنائے راستے پر چلتے رہتے ہیں۔ اس صورتحال کا مطلب یہ ہے کہ معاشرہ ایک منزل پرآکر رک گیا ہے۔ اس بیانیے میں بسے لوگوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ ان کی زندگیاں تبدیل ہونگی اور نہ اس کی انھیں ضرورت ہے۔ کیا ایسے معاشرے میں رہنے والا شخص اپنی آپ بیتی لکھنے کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ یہاں بظاہر لوگ ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں، مگر ان کے شعور مشترک ہوتے ہیں۔ وہ سب اجتماعیت کا ہی پَرتو ہوتے ہیں۔ آپ بیتی دراصل اپنے آپ کو اجتماعیت کے نقطہ نظر سے دیکھنے کا سراب ہے۔
مثال کے طور پر کیا ایک جابرانہ نظامِ زندگی میں رہنے والی خواتین کی زندگیاں ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہیں؟ ان کی کہانیوں میں زمان و مکان ، نام یا واردات کی جزئیات میں فرق ہو سکتا ہے، دکھ اور اندوہ کا تجربہ مشترک ہو گا۔ اسی اشتراکِ غم کے باعث عورتوں کی دنیا مردوں سے سراسر الگ ہوتی ہے۔ ان کے چہروں پر اندوہ کی باقیات، ہر دوسری عورت آسانی سے پہچان لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلق ہو یا نہ ہو، وہ ہر وقت کم از کم گفتار کی حد تک ایک دوسرے کی غمخوار ہوتی ہیں۔ ان میں اسی اشتراک کے باعث اجنبیت نہیں ہوتی۔
ٓ
آپ بیتی کا مطلب ہے، اپنے ارادے اور اختیار کی بنیاد پر کسی کام کے کرنے یاہونے کا وسیلہ بننا۔ ایسے کام کا وسیلہ بننا، جس میں تخلیق اور جدّت ہواور اس کی بدولت دنیا اور انسانوں کی زندگیوں میں تبدیلی کے امکانات پیدا ہو سکیں۔ضروری نہیں کہ یہ عمل ہمیشہ کامیاب رہے۔ صرف ارادے اور اپنے کیے پر ذمے داری ہی ایک فرد کو اجتماعیت سے الگ ہونے کی استطاعت عطا کرتی ہے۔ اجتماعی بیانیے کے زیرِاثر انفرادی ارادے ، کچھ کرنے کی استطاعت اور اپنے کیے کی ذمے داری قبول کرنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس میں انفرادی ارادے اور کچھ کرنے میں وسیلہ بننے کو تقدیر کے نام پر چھین لیا جاتا ہے۔ کبھی فرد کی اپنی زندگی پر ذمے داری کی خواہش کو اخلاقی محاکمے کی بنیاد پر مسترد کر دیا جاتا ہے۔ انفرادی ارادے، کچھ کرنے میں وسیلہ بننے اور اپنی زندگیوں کی مکمل ذمے داری قبول کرنا ہی دراصل اپنی آپ بیتی لکھنا ہے۔
♥
قسط اول
کیا آپ بیتی لکھنا ممکن ہے؟-1
قسط دوم
کیا آپ بیتی لکھنا ممکن ہے؟-2
قسط سوم