آمریت کی بدبو پھر سے آنے لگی ہے

شہزادعرفان 

لگتا ہے آج کے بعد اب حکومت اور فوج کے درمیان ڈائیلاگ اور سرکاری لکھت پڑھت ٹویٹسکے ذریعے ہوا کرے گی حالانکہ یہ حق صرف عوام کے منتخب نمائیدوں کا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعہ اپنی عوام سے براہِ راست رابطہ میں رہیں امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر عوامی لیڈرز ٹویٹس کا استعمال عام کرتے ہیں جس کا مقصد عوام سے مخاطب ہونا اور جُڑنا ہے تاکہ ان کے مسائل،مطالبات اور ترجیہات کو سمجھا جاسکے۔

عوام کی اکثریت خود کو جمہوریت کا نمائندہ سمجھتے ہیں لہذا جمہوریت پر کسی بھی حملے کوعوام ہمیشہ اپنی آزادی پر حملہ تصور کرتے ہیں۔یقیناً ہم میں سےکوئی بھی کسی اکیسویں گریڈ کے سرکاری ملازم کو یہ حق نہیں دے سکتا کہ وہ ایک منتخب وزیراعظم کے فیصلے کی حُکم عدولی کرکے سزا جزا کا فیصلہ خود کرے جیسا کہ ممتاز قادری نے پنجاب کے گورنر سلیمان تاثیر کے ساتھ کیا۔

اگرآئینِ پاکستان کی بالادستی کےسوا کوئی بھی ادارہ بالادست نہیں ہےتو پھر ڈی جی آئی ایس پی آر کی اس ذاتیٹویٹیحرکت پر فوج کی اعلیٰ قیادت کو فوری  نوٹس لے کر اسے نوکری سے برخواست اور کورٹ مارشل کرنا چاہیے جس نے پاکستان کے آئین اور حلفِ وفاداری کو توڑا ہے۔افسوس تو یہ ہے کہ اس فاؤل پلے پر جمہوریت کا راگ الاپنے اور قافلہ شہیدوں کا قصہ سُنانے والے بھی حصول اقتدار کی خاطر اس غیر جمہوری عمل کی بھرپور حمایت کر رہے ہیں۔

اس پر ستم یہ کہ پاکستانی میڈیا سابقہ فوجی آمر ضیاء الحق کے آمرانہ دور سے بھی بدترین شکل میں عوام سے برسرپیکار نظر آرہا ہے جہاں بیوروکریسی کے حاضرسروس و ریٹائرڈ سرکاری ملازمین، مذہبی انتہا پسند دہشت گرد اور فوج کے حمائیتوں کا قبضہ ہے جوعوام کو گمراہ کرنے کے لئے ایک مخصوص سٹیریو ٹائپ بیانہ کا راگ چوبیس گھنٹے الاپتا رہتا ہے۔ یہ مخصوص ریاستی بیانیہ جذبہ حب الوطنی اور مذہبی بنیاد پرستی کے خوبصورت رنگین ریپر میں ملفوف کرکے دیا جارہا ہے تاکہ عوام کو عدم تحفظ کے نفسیاتی جال میں رکھ کر خوف کی مستقل فضاء کو برقرار رکھا جائے۔ 

 کیا ہم سب پاکستان کی تاریخ میں فوجی آمریت کے پنوں کوبھول چکے ہیں جسکی بدولت آج ہمارے وطن کی یہ حالت ہے کہ ہمارے قیمتی قومی ریاستی اثاثے اور نامورعالمی دہشت گرد صبح شام ٹی وی پر حب الوطنی اور شریعت کا درس دیتے نہیں تھکتے۔ یہ دھشت گرد چوہے آخر کس کی یقین دھانی پر اپنے بِلوں سے نکل کر باہر آگئے ہیں ؟ یہ ہزاروں بے گناہ معصوم شہریوں بچوں عورتوں کے گلے کاٹنے والے آخر اتنے پُراعتماد اور ُپرسکون چہرہ لئے کیسے ٹی وی پر اپنے انٹرویو دیتے پھررہے ہیں؟

 کیا یہ عمل بذاتِ خود دھشت گردی نہیں ہے کہ پاکستان کےغم زدہ لواحقین اپنے پیاروں کے قاتلوں کو اپنے گھروں میں سکرین پر ہنستا مُسکراتا دیکھنے پر مجبور ہوں اور ریاستی ادارے ایسے خونخوار بھیڑیوں کو تھپتھپا کر شاباشی اور معافی نامہ کی بات  مسکراہٹوں کے ساتھ کرتے پھریں؟

ان حالات میں دھشت کی فضاء اورمعاشی بدحالی کے روگ نے پاکستانی معاشرہ کو مکمل طور پربیمار اور مفلوج کردیا ہے۔ ایسے میں عوام کے لئے جمہوری عمل کو برقرار یا تسلسل میں رکھناتقریباً ناممکن ہوجاتا ہے جس سے کسی طور مثبت تبدیلی کی امید باقی نہیں بچتی ۔اس خوبصورت دھرتی پرآمریت کی بدبو پھر سے آنے لگی ہے۔

 اب یہاں کوئی ایسی اندیکھی قوت تو ہے نہیں جسکے خدوخال اور ہیئت کو نہ سمجھا جاسکے کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جوعوام کو ایک اندھے کوئیں طرف مسلسل دھکیل رہے ہیں؟ ۔ 

اس طرح کی حب الوطنی کا جذبہ اور مذہبی بنیاد پرستی کا درس بلآخر ہمیں دنیا کی ترقی سے دورکرتا ہوا پسماندگی اور تنہائی کی طرف گامزن کرچکا ہے۔ ہم دنیا کی دیگر ریاستوں سے مکمل طور پر کٹ کر رہ گئے ہیں۔—– آج سیاست، حکومت، ریاست،عوام، معیشت، ترقی،دین و مذہب، اخلاقیات، نظریات،فلسفہ، تاریخ، جمہوریت، صحت اور ماحولیات سب کچھ تباہی کے دہانے پر آکھڑا ہوا ہے۔

افسوس تو یہ ہے کہ جس کشتی پر یہ خود سوار ہیں اُسی کو چھید رہے ہیں خود تو ڈوبیں گے مگر معصوم عوام اور ہماری آنے والی نسلوں کو بھی اپنے ساتھ لے ڈوبیں گے۔

5 Comments