یوسف صدیقی
نوجوان کسی بھی قوم کا مستقبل ہو تے ہیں ۔کوئی بھی مہذب قوم اپنی تہذیب وتمد ن اور ثقافت و روایات کی امانت کو اگلی نسلوں تک منتقل کرنے کے لیے اپنی نوجوان نسل کی درست زاویوں پر تربیت کر تی ہے ۔ ساری دنیا میں نوجوانوں کی صلاحیتوں کو جلا ء بخشنے کے لیے کھیل کے میدانوں کوآبادکرنے سے لیکر تعلیم و تربیت کے اداروں قیام تک بہت سے مثبت اقدامات کئے جاتے ہیں۔مغربی ملکوں کی حکومتیں نوجوانوں کی فلاح و بہبود پر بھاری سرمایہ کاری کرتی ہیں،وہاں پر حکومتی پالیسی ساز کسی بھی پالیسی کو تشکیل دِیتے وقت اِس میں نوجوانوں کے مفادات کو مقدم رکھتے ہیں۔مغرب کے اندر جہاں نوجوانوں روزگار کو آسانی سے مل جاتا ہے ،وہی پر بے روزگارنوجوانوں کو وظیفہ بھی دِیا جاتا ہے ۔کیونکہ وہ لوگ نوجوان نسل کی قدر جانتے ہیں ۔لیکن پاکستان میں تاریخ کا پہیہ اُلٹا گھمایا جا رہا ہے ۔اس ملک میں نوجوانوں کے لیے کوئی نوکری دستیاب نہیں ہے ۔
’تجربے ‘اور’ مقابلے ‘کی فضا میں ہمارے نوجوان نہ صرف مستقبل سے مایوس ہو چکے ہیں ،بلکہ ان میں سوچنے کی صلاحیتیں بھی ختم ہوتی جارہی ہیں۔پاکستان کی کی اکثریتی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔اِ س وقت ہمارے ہاں بے روز گار نسل کی ایک ’فوج‘تیار ہو چکی ہے ۔ حکومت کے محکموں میں نوکری حاصل کرنا تو ایک خواب ہے ہی لیکن نجی شعبے میں بھی رشوت ،سفارش اور دیگر ناجائزذرائع استعمال کیے بغیر نوکری حاصل کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ نوجوان اِس وقت ’درجہ چہارم‘ کی نوکری کے لیے بھی مارے مارے پھر رہے ہیں ،مگر افسوس کہ ان کی اس چھوٹی سی ملازمت میں بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔سرمایہ دارانہ نظام میں غریب آدمی کی زندگی تو پہلے ہی اجیرن تھی ،لیکن اَب مڈل کلا س کا طبقہ بھی انتہائی تیزی سے ’معاشی پستی‘ کا شکار ہو رہا ہے ۔
نوجوان طبقہ تعلیم حاصل کر نے کے بعدبہت سے مسائل کاشکارہونے کے ساتھ ساتھ خود سے نفسیاتی جنگ بھی لڑ رہا ہے کہ آخر کیوں اسے ناکردہ جرم کی سزا دِ ی جا رہا ہے ؟۔اگر کبھی نوجوان نسل نے جناح کے پاکستان کی بازیافت کے لیے کوئی کو شش کی تو اُ سے قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا ۔لیکن سرمایہ پرستوں کے یرغمال بنائے ہوئے پاکستان میں اُسے نہ کبھی روزگار ملا اور ہی مکمل جینے کا حق!۔ہماری نوجوان نسل حالات کے جبر کو برداشت بھی کر رہی ہے ،اور اس کے دل میں اِس سرمایہ دارانہ نظامِِ حکومت کے متعلق نفرت کے اِنگارے بھی پھوٹ رہے ہیں ،کیونکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام اُسے مہنگی تعلیم تو دِیتا ہے لیکن روزگار نہیں دِیتا۔
دوسری دنیا میں حکومتوں کی طرف سے روزگارکے مواقع پیدا کیے جاتے ہیں جبکہ ہماری حکومت ’نجکاری ‘ کے ذریعے پہلے سے قائم ملازمتیں ختم کر رہی ہے۔بے روز گار نوجوان ہمارے حکمرانوں سے پوچھتے ہیں کہ یہ کیسی دانش مندی ہے کہ آپ سرمایہ پرستوں کے سرمائے میں اضافے کے لیے بینکوں،محکموں اور ملوں کی نجکاری کر کے لوگوں کو بے روزگار کرنے پر تُل گئے ہیں؟۔ہر چیز کی برداشت کی ایک حد ہوتی ہے ،جب برداشت ختم ہو جائے تو برداشت ’مزاحمت‘ کا روپ دھار لیتی ہے۔بیروزگار نوجوانوں کی زندگی کا المیہ یہی نہیں کہ یہ لوگ’ بے روز گار‘ ہیں ،بلکہ اس سے بڑھ کریہ کہ پیداواری صلاحیتوں کے عروج کے دور میںیہ لوگ دوسروں کے محتاج اور ملکی معیشت پربہت بھاری بوجھ بن چکے ہیں ۔
گھر والوں کی طرف سے نوجوانوں پر دباؤ ہو تا ہے کہ وہ پیسے کماکر لائیں تاکہ گھر کا چولہا جلے جب وہ مارکیٹ میں جاتے ہیں تو کوئی ایسا کام نہیں ملتا جو نوجوانوں کے معیار کا ہواگر کوئی ایسا کام مل جائے جو اِن کے معیار کا ہو تو صنعتکار اور سرمایہ دار اُسے کام پر رکھنے کے لیے سفارش یا پھر رشوت کا’مرثیہ ‘ سناتے ہیں ۔اکثر ایسا’ذہنی محنت‘ کے شعبوں میں ہو تا ہے۔دوسری طرف بے روزگارنوجوان کہیں انسانیت کے دشمنوں کے ہاتھوں غلط استعمال ہو رہے ہیں، تو کہیں نشے جیسی بری عادت کا شکار ہو کر زندگی کی ذمہ داریوں سے فرار حاصل کر رہے ہیں۔ان نوجوانوں کی غلط سوسائٹی میں جانے سے معاشرے میں جرائم کی رفتار بھی پہلے سے کہیں زیادہ ہو بڑھ گئی ہے ۔بہت سے نوجوان دہشت گردوں کے آلہ کار یا سہولت کار بن کر ملک میں افراتفری پھیلانے والوں میں شامل ہو رہے ہیں۔اورہمارے حکمران بھی تو نہیں چاہتے کہ پاکستان میں لوگ شعور کی تدریجی ترقی کی منازل طے کرے ۔
ہمارے حکمرانوں نے تعلیم کو اتنا مہنگا بنا دیا ہے کہ عام آدمی اپنے بچے کو اعلی تعلیم نہیں دِلوا سکتا ۔اور جو لوگ اپنی زندگی کی جمع پونجی اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کر دیتے ہیں وہ ڈگریاں ہاتھوں میں لے کر سڑکوں پر پھر رہے ہیں ۔فرسودہ نظام کے نمائندہ ذہنی طور پر مفلوج حکمرانوں نے قوم کو ذہنی و نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دِیا ہے۔بعض لوگ نفسیاتی طور پر تعلیم کو ’بے کار ‘سمجھنے لگے وہ اپنے بچوں کواسکو ل بھیجنا گوارا نہیں کر تے وہ اِنہیں چھوٹی عمر میں محنت مزدوری پر لگا دیتے ہیں کیونکہ وہ اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ پڑھ لکھ کر بھی سوائے ’’بیروزگاری‘‘کے کچھ ہاتھ نہیں آتا ۔
ہمارے معتبر سرمایہ پرستوں اور ان کے ایجنٹوں کی طرف سے فنونِ لطیفہ ،آرٹس اور دیگر عمرانی مضامین کو’ گھامڑ پن‘ سے تشبیہ دینے کی ’رسم ‘ ڈال دِی گئی ہے تاکہ لوگوں میں سیاسی شعور پیدا نہ ہو ۔لیکن ’ اطلاقی سائنس ‘کے مضامین میں مہنگی ڈگریاں لینے والے طلبہ بھی بار بار ’اپلائی ‘کر کے تھک چکے ہیں ۔اَب میڈیکل اور دیگر سائنسی مضامین میں مہنگی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کا مستقبل بھی سوالیہ نِشان ہے!۔ وزیروں کی تنخواہوں میں لاکھوں کا اضافہ کرنے والے نوجوانوں کے حوالے سے پالیسی واضح کرنے میں ناکام ہیں۔حکومتی اہلکا روں کے بیرونِ ملک دوروں اورمیٹنگوں پر آنے والے اخراجات لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہیں ۔اگر ہمارے حکمران وہی سرمایہ ٹیکنیکل تعلیم عام کر نے خرچ کریں تو بے روزگاری ختم ہو سکتی ہے ۔مگر حکمرانوں کی ترجیح اول اپنے اقتدار کو طول دینا بن چکی ہے۔
سیاسی جماعتیں ہر روز نئے سے نئے سیاسی مسئلے پر بیان بازی کرتیں ہیں ۔پریس کانفرنسوں،جلسوں،مظاہروں اوردھرنوں کا لامتناہی سلسلہ سال کے بارہ مہینوں میں جاری رہتاہے ،لیکن آج تک نوجوانوں کے مسائل خاص طور پر’’ بے روزگاری‘‘ جیسا مسئلہ ان کی توجہ نہیں حاصل کر سکا ۔ہر کوئی لیڈراپنی باری کے انتظار میں اور اپنے مفاد کو پورا کر نے لیے سیاست کر رہا ہے۔ہم لوگ ووٹ دیتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ یہ آدمی ہماری قیادت کے قابل ہے کہ نہیں؟۔ہم ووٹ دیتے وقت برادری ،سرمایہ داری اور دیگر ایسے اوصاف دیکھتے ہیں ۔ایسی متعصبانہ عادات کسی بھی قوم کے لیے سمِ قاتل ہیں ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں چاہیے کہ لوگوں میں سیاسی شعور پیدا کریں تاکہ لوگ ووٹ کا درست استعمال کر تے ہوئے پاکستان کو سرمایہ پرستوں کے چنگل سے نکال کر ایک ایسی سیاست کی بنیاد رکھیں جس کے ذریعے منتخب ہونے والے لوگوں کی حکومت میں تمام انسانوں کوبلاتفریق اِن کی قابلیت کے مطابق روزگار ملے ۔اوروہ حکومت سرمایہ دارانہ نظام سے پاک معاشرے کی بنیاد رکھیں اور اُس معاشر ے میں ضمیر فروشی،بے ایمانی ،ہیراپھیری ،دھوکہ دِہی اور فریب نام کی کوئی چیز نہ ہو !!!!۔
♦
One Comment