دو بڑے لکھاریوں کی تحریریں ہیں۔ایک پاکستانی ہے۔ دوسرا ہندوستانی ہے۔دونوں سکے بند قسم کے روشن خیال ہیں۔ان دونوں کے تازہ ترین کالم کا موضوع کشمیر ہے۔اور دونوں کے کالم پاکستان اور بھارت کے دو بڑے اور اہم اخبارات کے ادارتی صفحے پر چھپے ہیں۔
بھارتی لکھاری نے لکھا ہے کہ آج کشمیر کے حالات سے یوں لگتا ہے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کا یہ خیال درست تھا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں جو کبھی اکٹھے نہیں رہ سکتے۔آج کشمیر میں جناح کا یہ دو قومی نظریہ پورے عروج پر ہے۔لوگ بھارت کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ وہ پاکستان کا پرچم لہرا رہے ہیں۔پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔یہاں پر بھارت کا سیکولرازم ناکام ہو گیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ بھارت میں ہندوتوا بڑھ رہا ہے۔سیاست پر بڑی تیزی سے مذہب کا رنگ چڑھتا جا رہا ہے۔گاندھی اور نہرو کے سیاسی نظریات اور سماجی تصورات اہستہ اہستہ دھندلاتے جا رہے ہیں۔یہ روشن خیال اور روادار قوتوں کے لیے ایک مایوس کن صورت حال ہے۔
پاکستانی روشن خیال دانشور اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ کشمیر کے اندر ایک عرصے سے ایک انقلابی تحریک جاری ہے۔یہ تحریک کشمیریوں کی دلیری اور برداشت کا شہکار ہے۔ وہ صبر اور استقلال سے بھارتی افواج کے تشدد کا مقابلہ کر رہے۔ان پر جس طرح کے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں اس کے خلاف پاکستان میں بڑے پیمانے پر رد عمل ہونا چاہیے۔ مگر یہاں ایسا نہیں ہے۔ خصوصا مذہبی حلقوں میں کوئی اشتعال نہیں ہے۔ اس کے بجائے وہ پاکستان کے اندر ایک دوسرے کو کافر قرار دیکر قتل کر رہے ہیں۔یہاں ایسا ماحول بن گیا ہے جس میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔یہاں لوگوں کو توہین کے جھوٹے الزام لگا کر قتل کر دیا جاتا ہے۔ عدم برداشت کا ماحول ہے۔
غرضیکہ اس روشن خیال پاکستانی دانشور نے حالات کی جو تصویر کشی کی ہے وہ اس بات کا اظہار ہے کہ آج کا پاکستان اس پاکستان کے بر عکس ہے جس کا خواب بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے دیکھا تھا۔مستقبل کے پاکستان میں اقلیتوں کے تحفظ کے حوالے سے حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات و خیالات میں کوئی ابہام نہیں تھا۔ اس کا برملا اظہار انہوں نے اپنی گیارہ اگست والی تقریر کے علاوہ کئی بار زور دیکر کر دیاتھا۔ان کی کابینہ میں ایک احمدی اور ایک ہندو شامل تھا۔
مگر پاکستان کی باگ ڈور آہستہ آہستہ ان لوگوں کے ہاتھوں میں آتی گئی جن کے خیالات قائد اعظم کے نظریات اور خواہشات سے متصادم تھے۔ ان لوگوں نے یہاں ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ قائد اعظم کی اپنی کابینہ کے وزیر جوگندر ناتھ مینڈل کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔پھر یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا۔یہاں تک کہ پاکستان ایک با ضابطہ تھیو کریٹک سٹیٹ بن گیا۔ رہی سہی کسر ایک مارشل لاء نے پوری کر دی۔ اور ایک مرد مومن نے مارشل لاء کے سائے میں اسلام کے نام پر وہ گھناؤنا کھیل کھیلا کے قائد اعظم کا یہ حسین خواب پاکستان میں اقلیتوں، روشن خیال لوگوں اور بائیں بازو کی قوتوں کے لیے ایک ڈارؤنا خواب بن گیا۔
یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اگر قائد اعظم اس سیاہ دور میں زندہ ہوتے تویہ عر صہ جیل میں گزارتے یا کسی جھوٹے قتل کیس میں پھانسی چڑھا دئیے جاتے۔ہو سکتا ہے کہ ہندوستان کے بارے میں قائد اعظم کے اندازے اور خیالات درست ثابت ہو رہے ہوں مگر اس حقیقت پر شک و شبے کو کوئی گنجائش نہیں کہ پاکستان کے بارے میں ان کے اندازے بالکل غلط ثابت ہوئے۔
آج اس ملک میں جو ماحول بن گیا ہے وہ قائد اعظم کے خیالات، نظریات اور طرز زندگی سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔یہ صورت حال پاکستان اور بھارت کے عام شہریوں اور یہاں کے روشن خیال اور رواداری کی قائل قوتوں کے لیے مایوس کن ہے۔
♦
One Comment