مسعود قمر
چیخیں باہر نکلنے کے لیے گلے تلاش کر رہی ہیں ، آنسو باہر نکلنے کے لیے آنکھیں تلاش کر رہے ہیں ۔
بچے کے ہونٹوں سے خون اور آئس کریم ساتھ ساتھ بہہ رہی ہے ، کنسرٹ کا ٹکٹ پکڑے چھوٹی سیئ انگلیاں کنسرٹ ہال کے دروازے کے ساتھ کٹی پڑی ہیں۔
مائیں اپنے بچوں کے چیھتڑے اکٹھا کر رہی ہیں ، بچی کا گلہ اپنے آخری قہقہے سمیت کٹا پڑا ہے ، بسیں اور ٹیکسیاں میت والی گاڑیاں بن چکی ہیں ۔۔۔
ہونٹوں میں دبا پاپ کارن اور پاپ کارن پکڑے ہاتھ الگ الگ کٹے پڑے ہیں۔
مگر ۔۔۔ مگر
ہمارا معاشرہ میڈیا اردو فیس بک اور داعش جشن منا رہا ہے۔
اخبارات رو رو کر دہائی دے رہے ہیں کہ بنی گلہ کے مکان کی تحقیق کیوں کی جا رہی ہے ، سپریم کورٹ کے باہر آنسوؤں سے رومال بھیگ رہے ہیں کہ ہائے پانامہ میں منی ٹریل کیوں پوچھی جا رہی ہے۔
بلاگر کو گرفتار کرنے کی خبریں دی جا رہی ہیں، چکری کا راجپوت ہمیں بتا رہا ہے کہ فوج اور عدلیہ سے کیسے تمیز سے بات کرنی ہے ۔
جی ہاں وہی فوج جو بنگالیوں کو تمیز سکھانے گئی تھی تو ان کے مورچوں سے بنگالی عورتیں تمیزدار حاملہ پیٹ لے کر باہر نکلتی تھیں۔
جی ہاں وہی عدلیہ جو ہر بد تمیز سول حکومتیں کی برطرفی اور تمیزدار مارشل لا کو جائز قرار دیتیں آئی ہے ، کسی تنظیم اور سیاسی پنڈتوں نے مانچسٹر کے المیے پہ دو حرف کہنے کی زحمت نہیں کی۔
اردو فیس بک پہ آنکھ میں موم بتی جلنے کی تصویر کے ساتھ اپنی دو نمبر کی گھٹیا غزلوں اور نظموں کا آج بھی میلہ لگا ہوا ہے ، ہر پانچ منٹ بعد دیکھا جا رہا ہے کہ لائیک کرنے والوں کی تعداد کتنی ہو گئی ہے ۔۔ گہرےبادلوں کی تصویر فیس پہ لگائی جا رہی ہے اور پوچھا جا رہا ہے”اس بادلوں کی تصویر میں کس کس کو لڑکی کے پستان نظر آئے ہیں“۔
لگے رہو منا بھائی لگے رہو
♦