نجیب اللہ
آج 28 مئی ہے۔ جو غدار نہیں، انہیں پتا ہی ہوگا کہ اس دن پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک ایٹمی قوت بن کر ابهرا۔ کسی نے اس دن کو پاکستان کا تیسرا بڑا دن کہا۔ لیکن مجال ہے کوئی چاغی گیا ہو، کسی نے چاغی کی بات کی ہو، کسی چینل نے کوئی رپورٹ بنائی ہو۔ یہ چاغی کی بد بختی نہیں بلکہ سیاستدانوں کی نااہلی ہے۔۔
چهوڑیے ان باتوں کو، آئیے میں آپ کو چاغی لیے چلتا ہوں جہاں ساتواں ایٹمی ملک وجود میں آیا۔
اٹھائیس مئی 1998 کو جونہی ایٹمی دھماکے ہوئے تو بگ بنگ تهیوری کی طرح پہاڑ کا جو حصہ ٹهنڈا ہوا وہ کرشماتی طور پر ورلڈ کلاس یونیورسٹی بن گیا۔ اللہ کے فضل سے آج بیرون ممالک سے لوگ یہاں پڑهنے آتے ہیں۔ پانچ سال بعد طلبا نے چاغی میں ایک انڈسٹریل اسٹیٹ کی بنیاد رکھی۔ سیندک اور ریکوڈک سے جو مال نکلتا ہے اس صنعت میں کندن بن جاتا ہے۔ صنعت کاروں نے ایک میڈیکل کمپلیکس بنایا۔ اس سے عوام کے دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہوئے۔ لوگوں کو نوکری مل گئی۔
آج حالت یہ ہے کہ جو شخص صرف اپنا نام لکهنا جانتا ہو اسے چاغی میں نوکری مل جاتی ہے۔یہاں سے جو ریوینیو جنریٹ ہوتا ہے اس پر صوبائی حکومت کا اختیار ہے، وفاق آنکھ اٹھا کر دیکھ بهی نہیں سکتا اور ہاں سرداروں کو مکمل اختیار دیا جاچکا ہے کہ اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں۔
سنہ 1998 سے پہلے لوگ خیموں اور کچے مکانات میں رہتے تهے آج سترہ سال بعد ڈبل سٹوری عمارتیں کهڑی کر ہو چکی ہیں۔
تفریح کے لیے وفاق نے وائلڈ لائف کی مدد سے ایک شاندار پارک اور ایک چڑیا گهر تعمیر کرایا۔ محکمہ زراعت نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوا کروڑ سے زائد درخت لگائے۔ یہ درخت اتنے اونچے ہو گئے ہیں خطرہ ہے اگلے سال کسی کو پہاڑ پہ جانے کے لیے جنگل سے گزرنا نہ پڑ جائے۔ اسی لیے شہر سے راسکوہ تک ایک موٹر وے زیرِ تعمیر ہے اور حکومت ایک دہائی سے معذرت خواہ ہے۔
دھماکوں کے بعد ایک اور معجزہ رونما ہوا۔ پانی کی سطح اوپر کو آگئی۔ 28 مئی سے پہلے اگر پانی 1400 فٹ نیچے تها تو آج 4 فٹ کی گہرائی پہ مل جاتا ہے۔ کئی جگہوں سے تو چشمے نکل آئے۔ یقین نہ آئے تو انگلیوں کی مدد سے گهڑا کهود کے دیکھ لیں یا پهر زور سے ‘پانی’ پکاریں، بارش شروع ہو جائے گی۔
پہلے عورتیں اور بچے کوسوں دور جاکے کسی کنویں، تالاب یا جوہڑ سے پانی لاتے تهے لیکن آج حالات کافی مختلف ہیں۔ اب کلفٹن بورڈ والے یہاں سے پانی لے جاتے ہیں اور کراچی چاغی واٹر پائپ لائن منصوبہ اگلے سال مکمل ہوجائے گا۔
چاغی انڈسٹریل اسٹیٹ نے پچهلی حکومت کے دور میں بجلی کا ایک بہت بڑا منصوبہ شروع کیا تها جس کا افتتاح ہو چکا ہے۔ لوگوں کی قسمت بدل گئی ہے۔ لالٹین کی جگہ انرجی سیورز نے لیا ہے، چارج ایبل لیمپ اب صرف کباڑ ی کے پاس ملتے ہیں۔ چاغی افغانستان سے لے کے سینٹرل ایشیا تک بجلی فراہم کرے گا۔ پہلے مرحلے میں ایران کو ایکسپورٹ کی جائے گی۔
صحت کا یہ عالم ہے کہ عالمی تنظیم صحت نے چاغی کو سب سے زیادہ صحت افزا مقام قرار دے دیا ہے اور محکمہ بہبود آبادی نے اس بات پہ تشویش کا اظہار کیا ہے کہ یہاں شرح مرگ کم کیوں ہے۔
نوازشریف نے دهماکے کے بعد ایک پهونک بهی ماری تهی۔ عینی شاہدین کے مطابق وہاں ایک بزرگ بیٹها تها جو اچانک جوان ہوا۔ ایک بچہ جو کینسر کی بیماری میں مبتلا تها وہ آج امریکہ میں بزنس کر رہا ہے۔ یہ پهونک بیماریاں دور کرنے کے لیے ماری گئی تهی۔ ابهی بهارت نے دھماکوں کی آواز بهی نہیں سنی تهی کہ علاقے والے تمام امراض سے نجات پا گئے تهے۔
قرب و جوار والے کسی بهی بیماری سے بچنے کے لیے صرف پہاڑ کی طرف دیکهتے ہیں۔ جو دور رہتے ہیں وہ راسکوہ کی جانب رخ کر کے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرتے ہیں اور جنہیں سمت کا نہیں پتا وہ صرف پہاڑ کا نام لے کے متاثرہ جگہ پر ہاتھ رکهتے ہیں اور پهر بیماری فوراً غائب۔ سنہ 98 سے پہلے لوگ نزلہ سے مرتے تهے آج موذی مرض سے بهی نہیں ڈرتے۔
یہاں کے لوگوں کا ذریعہ معاش کهیتی باڑی اور گلہ بانی تها۔ چونکہ اب ہر کوئی آفیسر ہے لہذا عوام کوئی خاص دلچسپی نہیں لیتا۔ ہاں چند لوگ شوق کی خاطر مویشی پال رہے ہیں۔ اس جذبے کو دیکھ کر حکومت نے ان کے لیے دو بڑے فارم بنوائے۔ کچھ آدمی جانوروں کی دیکھ بهال کرتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے علاقوں سے لوگ آکے زمینیں سنبھال چکے ہیں۔ الغرض آج چاغی میں دودھ کی نہریں بہتی ہیں۔
سب سے زیادہ خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن نے اپنے ریجنل دفتر کا سنگ بنیاد اسی پہاڑ کے دامن میں رکھا اور پہلی سالگرہ پر اس کا افتتاح بهی کروایا۔ یہ دفتر ایک غار میں ہے جسے چاغی والے “اٹامک غار” کہتے ہیں۔ اس غار میں موجود ہر شےیورینیم سے بنی ہے۔ یورینیم سے بنا مینار پاکستان، شاہی قلعہ، فیصل مسجد اور مزار قائد کے ماڈل قابلِ دید ہیں۔
جس پہاڑ نے پاکستان کو پہلا اسلامی ایٹمی ملک بنایا اسی پہاڑ سے یو فون نے اپنی ٹیسٹ ٹرانسمیشن کا آغاز کیا تها۔ عمران خان ہر سال کینسر کے حوالے سے ٹپس لیتے اور سب سے زیادہ فنڈز اسی علاقے سے اکٹھے کرتے ہیں۔
اس ترقی، امن و خوشحالی کو دیکھ کے بین الاقوامی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی شاخیں چاغی میں کهولنے پر بضد ہیں جیسے ٹویوٹا، ایپل وغیرہ۔ سوئس بنک بهی دلچسپی لے رہا ہے۔ آئی اے ای اے نے بهی اپنا ہیڈکوارٹر چاغی شفٹ کرنے کا سوچا ہے لیکن بهارت نہیں مان رہا۔
سب سے اہم بات یہ کہ ہر سال 28 مئی کو لاکھوں سیاستدان و فوجی اس پہاڑ کا دیدار کرتے ہیں، پهول رکهتے ہیں، خراج تحسین پیش کرتے ہیں، بهارت کو گالی دیتے ہیں اور غریبوں کے لیے لنگر کا انتظام کر کے سڑک کے راستے واپس چلے جاتے ہیں۔
♦