لُٹ خانہ
بلوچستان مین سیاست کا نقشہ ایسا الٹا ہے کہ اسے اب راہ راست پر لانے کیلئے صدیاں درکار ہوں گی کیونکہ اب یہاں پر کالک اور کریڈٹ میں کوئی فرق باقی نہیں رہا گویا کالک اور کریڈٹ مترادف الفاظ ہیں کیسا عجیب زمانہ آیا ہے کہ الفاظ کے معنی اور مغویت بھی گم ہو گئے ہیں جس کردار پر شرمندہ ہونے کی ضرورت تھی اسے وہ اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں اور حالت یہ ہے کہ الفاظ کے ساتھ ساتھ اب کتابوں کو بھی مذاق کی علامت بنایا جا رہا ہے۔
یہ تمہید …. ہمارے ان نیشنل پارٹی کے کارکن وغیرہ حصرات کےچند اسٹیٹس بشمول اس سٹیٹس سے متعلق ہیں جس میں انہوں نے اختر مینگل پر طعنہ زنی کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پڑھتے نہیں …. گویا نیشنل پارٹی کے لیڈر صاحبان سارا سارا دن ساری ساری رات کتابیں پڑھ پڑھ کر اپنی بینائی ختم کرتے جا رہے ہیں ۔ ہمیں اس معاملے میں اختر مینگل سے کوئی سروکار یا ہمدردی نہیں ایک سیاسی لیڈر کیلئے مطالعہ ‘ مشاہدہ ‘ فکر و سوچ آکسیجن کی طرح مسلمہ ہے ۔
اگر بات مطالعے کی ہے یا دانشورانہ سیاسی رہنماؤں کی تو اس ضمن میں بھلا نواب خیر بخش مری کا ہم پلہ کون ہو سکتا ہے ماضی میں جائیں بھی تو بلوچستان نے اتنے عظیم مدبر کو جنم نہیں دیا …. اگر مستقبل کی جانب دیکھیں بھی تو اس سطح کی شخصیت ہزاروں سال تک دکھائی نہیں دیتی لیکن عجیب بات ہے کہ نیشنل پارٹی کے کتابی کیڑوں اور اعلیٰ پائے کے دانشوروں نے نواب مری کے مقابلے میں ریاست کے بیانیہ کا ساتھ دیا …. جس کی وجہ سے نواب مری نیشنل پارٹی والوں کو مددگار کے نام سے پکارتے تھے۔
کیا نیشنل پارٹی کے خود ساختہ مفکروں کو کسی کتاب میں یہ بات نہیں ملی کہ ضمیر کی آواز کیا ہوتی ہے ! سر زمین سے وفاداری کے تقاضے کیا ہیں ؟ شہداءکے لہو کا مطالبہ کیا ہوتا ہے ؟ یہاں مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے کہ ہندوستان پر برطانیہ کے قبضے کے دوران ایک انگریز افسر نے ملکہ برطانیہ کو ایک عجیب و غریب خط تحریر کیا جس میں انہوں نے لکھا کہ یہ عجیب ملک ہے یہاں گنگا مکمل طور پر الٹی بہہ رہی ہے یہاں اگر کسی سے غلطی سرزد ہو جائے اور اس کی سرزنش کی جائے تو وہ شرمندہ ہونے کی بجائے اپنی بیتسی دکھائیگا یہ لوگ اپنے آپ سے زیادہ اپنے فاتحین کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں طوق غلامی ان کے گردن میں ہونے کے باوجود یہ اپنے آقاؤں کی نقالی کرتے ہیں ایک دوسرے کی مخبری کر کے خوش ہوتے ہیں ۔ان پر عالم فائنل ہونے کا ضبط بھی ہے حیرت انگیز امر یہ ہے کہ سائنس اور سوشل سائنسز سے متعلق جتنے تصورات ‘ نظریات اور تھیوریز ہیں وہ سب یہاں آ کر دم توڑ جاتے ہیں لہذا یہاں سے کسی اور ملک میں تبادلہ کر دیا جائے یا پھر میرا استعفی قبول کیا جائے ۔ اس کے جواب میں ملکہ برطانیہ نے لکھا کہ تم نے ہندوستانیوں کے جتنے عیوب یہاں کئے ہیں اگر یہ نہیں ہوتے تو ان پر ہمارا قبضہ کیسے ہوتا ؟
آج بھی دیکھ رہے ہیں کہ نیشنل پارٹی شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار نہیں ہوئی۔ سی پیک کے حوالے سے نیشنل پارٹی کے درجہ اول کے دانشور کبھی کچھ اور کبھی کچھ گل افشانی کرتے ہیں ۔ دراصل نیشنل پارٹی کے وکلاءاور خود ساختہ دانشور حضرات کالک اور کریڈٹ کا فرق کبھی کا بھول چکے …. اور ہر کالک کو کریڈٹ قرار دے کر نیشنل پارٹی کے منہ پر ملا جا رہا ہے ۔ جمہوریت و سوشل ڈیموکریسی کا راگ اور پشتونخواہ کے وزیر پہ سیخ پا ہونا اس اسٹیٹس پہ اک شاعر کی یاد دلادی کہ “کہ وہ بوٹ(پشتونخواہ) بھی چمکائے جو فوجی بھی نہیں تھے“۔
ایسے وقت میں جب ہزاروں بلوچ لاپتہ اور سینکڑوں مسخ شدہ لاشیں برآمد ہو رہی تھیں تو نیشنل پارٹی کے ” بقراط “ یعنی ڈاکٹر مالک کی وزارت اعلیٰ کی پرچی سابق کور کمانڈر عالم خٹک کی جیب سے ہوتی ہوئی محمود خان اچکزئی کی جیب تک پہنچی۔ جمہوریت ‘ جمہوریت کا سارا وقت رات الاپنے والے ‘ یہ بتانا بھول گئے کہ ایک اقلیتی جماعت کس بنیاد پر حکومت سازی کرتی ہے …. اس میں نیشنل پارٹی کا کوئی کمال نہیں تھا …. بلکہ بلوچ مزاحمتی تحریکوں کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کیلئے ‘ عالمی راہ عامہ کو گمراہ کرنے کیلئے نیشنل پارٹی کو اقتدار دیا گیا تاکہ دنیا کو بتایا جا سکے کہ بلوچوں کی مین سٹریم کی ”نیشنلسٹ “ اور عوام میں ” پاپولر “ جماعت ووٹ کے طاقت سے نہ صرف فیڈریشن آف پاکستان پر یقین رکھتی ہے بلکہ عملی طور پر بلوچستان کی آزادی کے فلسفہ کو مسترد کرتی ہے ۔
اور یہ بات کون نہیں جانتا کہ بلوچستان میں رئیسانی حکومت میں گورنر راج کے پس پردہ مقاصد نیشنل اور پشتونخوا پارٹیوں کو آگے لانا تھا مطلب یہ کہ بغیر کسی مشن کے؟ …. انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ پشتونخوا کو وہ نشستیں بھی دی گئیں جن کا حصول ایک لطیفہ سے کم نہیں۔ تاریخ ان دونوں پارٹیوں کے ان دھوکوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کرے گی ۔ یہ ہوا کہ اس خود ساختہ دانش ور پارٹی کے فنانس کے مشیر کو سیکرٹری خزانہ سمیت اربوں روپے کی کرپشن کے خلاف گرفتار کیا گیا اور اس مقدمہ کا اس قدر بھونڈے انداز میں پروپیگنڈہ کیا گیا کہ بلوچ قوم کو شرمندہ ہونا پڑا۔ ٹینکیوں سے ‘ برتنوں سے ‘ درختوں سے حتیٰ کہ بیکریوں سے بھی نوٹ برآمد کئے گئے۔
اگر یہ کرپشن کی واردات درست تھی تو اب تک پارٹی نے خالد لانگو کے خلاف کیا تادیبی اقدامات اٹھائے ہیں؟ اگر یہ واقعہ غلط ہے تو پارٹی ڈٹ کر سامنے کیوں نہیں آئی ؟ کیاریاست سے وفاداری کا یہی صلہ تھا جو انہیں ملا؟ …. لیکن بعض واقف حال کہتے ہیں کہ ٹینکی کرپشن سیکنڈل میں بڑے بڑے مگرمچھوں کے ساتھ خود ڈاکٹر مالک کا نام بھی لیا جاتا ہے ایک اور کالک ‘ جسے آپ جمہوریت کا حسن قرار دے کر نیشنل پارٹی کے منہ پر اچھی طرح سے مل سکتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ سینٹ کے انتخابات میں ڈاکٹر مالک کسی طور کبیر محمد شہی کو سینیٹر بنانے پر آمادہ نہیں تھے وہ چاہتے تھے کہ یہ نشست ڈاکٹر یاسین کو ملے۔ سب سے پہلے ڈاکٹر موصوف نے اپنی پارٹی کے نادر چھلگری سے رابطہ کیا کہ وہ کوئی کیس بنا کر ان کا راستہ روک دیں لیکن وہ خالد لانگو ‘سردار بنگلزئی ‘ نواب شاہوانی کی مخالفت سے ڈرتے تھے اسی لئے سامنے نہیں آئے۔
اس کے بعد ڈاکٹر موصوف نے خود ہی الیکشن کمشنر بلوچستان سے رابطہ کر کے انہیں کہا کہ کسی نہ کسی طرح سے کبیر محمد شہی کے کاغذات پر کوئی اعتراض لگا دیں لیکن انہوں نے بھی اس دانشورانہ گیم میں کوئی پارٹ ادا کرنے سے دور رہا پھر جب سرداران سراوان کو معلوم ہوا تو وہ فوراً اپنے خود ساختہ دانشور کے پاس پہنچے اور خوب اپنے بقراط کی خبر لی۔ شاید نیشنل پارٹی کے فیس بک کی وکلاءٹیم اسے بھی جمہوریت کا حسن قرار دے۔
گورنر راج کے بعد اس وقت کے چیف سیکرٹری یعقوب بابر فتح محمد نے وائسرائے کا کردار ادا کیا اور نیشنل پارٹی کو حد سے زیادہ نوازا گیا جبکہ میں نے پڑھا اور سنا ہے کہ جو حقیقی دانشور ہوتے ہیں جو ہر دور کے اسٹیبلشمنٹ اور بادشاہٹ یا دربار سے دور رہتے ہیں لیکن یہاں تو معاملہ اس کے برعکس ہے نیشنل پارٹی کی کتاب دوستی اور وطن فروشی پر لکھنے کیلئے تو دفتروں کے دفتر ضرورت پڑتے ہیں
اس سے پہلے نیشنل پارٹی کے یہ خواہ مخواہ کے دانشور پنجاب اور بالخصوص مسلم لیگ کے بڑے مخالف اور ایک طرح سے باغی تھے لیکن 2013ءمیں نیشنل پارٹی نے بلوچ شہداءکے لہوا پر حکومت حاصل کی اور اس کے دور میں مشکے ‘ آواران پر ٹنوں کے حساب سے بم پھینکے گئے پوری کی پوری آبادیوں کو گھر بار ترک کرنے پر مجبور کیا گیا اور اسی زمانے میں بلوچوں کی اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں پتہ چلا کہ ان مسخ شدہ لاشوں کے معدے بھی خالی تھے یعنی ان کو کئی کئی دنوں سے بھوکارکھا گیا تھا۔
اس رپورٹ کو مالک اینڈ کمپنی نے اخبارات میں غیر اہم جگہوں پر چھپورا کر خاموشی اختیار کر لی ۔ ڈاکٹر مالک کے دور میں ان کے سابق پارلیمانی لیڈر کچکول علی بلوچ کے صاحبزادے کو کراچی سے اٹھا لیا گیا اسی طرح ان کے ایک اور قریبی ساتھی اکرم بلوچ کے قریبی عزیزوں کو اغواءکیا گیا اور ڈاکٹر موصوف اپنی بے بسی کا رونا روتے رہے ۔ ڈاکٹر موصوف کے بڑے بھائی غفار ندیم اکثر نجی محفلوں میں یہ انکشاف کیا کرتے تھے کہ ان کا بھائی تو باتھ روم بھی کسی میجر یا کرنل کی اجازت کے بغیر نہیں جاتا ۔
اس کے بعد ایک اور مختصر سی کہانی شہید غلام محمد بلوچ نے لکھی جس میں انہوں نے ڈاکٹر کبیر ( ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ ) اور ڈاکٹر اصغر (ڈاکٹر مالک بلوچ ) کے نام سے بیان کر کے ان کے اصل چہروں کو عوام کے سامنے پیش کیا کہ یہ حضرات مضمون میں دانش مری کا خول پہنا ہے اصل میں کس کے نمائندے ہیں اور کس کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ یہ اک اپنی جگہ سوال ہے؟ اسی طرح جب ایف سی کی بندوبست میں نیشنل پارٹی کا 2014ءمیں کونسل سیشن منعقد کیا گیا تو اسلم بلیدی کی تنقید پر برا منایا گیا اور ان کو ان کے بھتیجے فتح بلیدی کے ہمراہ شوکاز نوٹس جاری کئے گئے۔ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ بھی دراصل اسی متوسط نعرہ کے تخلیق کار تھے ۔ یہ شوکاز نوٹس بھی جمہوریت کے چہرے پہ کریڈٹ سمجھ کر مل دیا گیا خود اچھا بدلہ نیشنل پارٹی نے لیا اور ان کی جگہ حاصل خان کو بٹھایا گیا جو اسٹیبلشمنٹ اور خاص کر نواز شریف کے سب سے بڑے حامی سمجھے جاتے ہیں۔
جب پی بی 4اور پی بی 5 اور پی بی 6 سے بلوچوں کو شکست دے کر تمام نشستیں پشتونخوا پارٹی کی جیب میں ڈال دی گئیں تو حاصل خان صاحب نے نرالی منطق دیتے ہوئے کہا کہ ان سیٹوں پر بلوچ امیدوار بہت تھے اس لئے پشتونخواءکامیاب ہوئی لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ پی بی 2اور پی بی 6پر ہزارہ کمیونٹی کے ساتھ کیا کیا گیا کیونکہ پی بی 6 کے ہزارہ کمیونٹی تو اپنا ووٹ سو فیصد ہی استعمال کرتے ہیں لیکن ان کے بیلٹ پیپر بھی کچرہ دانوں سے برآمد ہوئے۔
اسی طرح محمود خان اچکزئی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں اور تمام محکموں میں بلوچوں کی حق تلفی کا نیک فریضہ بھی انہوں نے سر انجام دیا گورنر امیرالملک مینگل کے بعد ڈاکٹر مالک نے بھی بلوچستان میں نیب کو متحرک کیا اور اس ادارے نے ماضی کی طرح چن چن کر بلوچوں کا شکار کیا لیکن مجال ہے کہ کسی پشتون پنجابی تو کجا کسی مہاجر کا بھی احتساب ہوا ہو ۔
لوگ نیشنل پارٹی کی جانب سے جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں وہ یہ تو بتائیں کہ حاصل کیسے اور کب نیشنل پارٹی میں آئے اور صدارت کی کرسی بھی سنبھالی اسی طرح ان کے کزن طاہر بزنجو کو بھی اعلیٰ عہدوں پر بٹھایا گیا حالانکہ یہی طاہر بزنجو ہیں جنہوں نے اپنی ایک کتاب میں ڈاکٹر مالک اور ان کے تمام قریبی دوستوں کا اس طرح سے پول کھولا ہے ان کے ناموں سے گھن آنے لگتی ہے ۔
کیا جمہوریت یہی ہے کہ بی این پی عوام کے چپراسیوں ‘ کلرکوں اور ماسٹروں کو تنگ کرنے کی خاطر ان کا تبادلہ کرایا جائے ۔ کیا جمہوریت یہی ہے کہ متوسط طبقہ کے دانش ور سرداروں اور اشرافیہ کو ملا کر حکومت بنائیں۔ ڈاکٹر مالک کی حکومت میں صرف ایک ایسا نام بتایا جائے جو غریب یا عام طبقہ سے تعلق رکھتا ہو ۔ فتح بلیدی جس نشست سے کامیاب ہوئے یہ نیشنل پارٹی کی واحد پکی نشست ہے لیکن اس کو وزارت نہیں ملتی اس کی بجائے مجیب الرحمان محمد حسنی کو ملتی ہے حالانکہ انہوں نے ایم پی اے بننے کے بعد اس شرط پہ کہ ان کو وزیر بنایا جائیگا نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ۔
اسی طرح سارے سردار قبائلی وڈیرے بھی ان کی حکومت کا حصہ تھے رئیسانی حکومت سے وہ اور پشتونخواءکرپٹ قرار دیتے تھکتے نہیں …. ان کی اپنی کابینہ میں رئیسانی حکومت کے بعض وزراءجس طرح کہ اسلم بزنجو وغیرہ شامل تھے ان کو بھی وزارتیں دی گئیں ۔ پشتونخوا اب بھی نیشنل پارٹی کی اتحادی جماعتیں لیکن اس کی دیدہ دلیری کا عالم یہ ہے کہ وہ میڈیا میں آ کر کہتے ہیں کہ سریاب میں آبادی نہ ہونے کے برابر ہے لیکن اس پر نیشنل پارٹی کے اہل حکمران کی خاموشی شاہد ان کے دانش ور ہونے کو ظاہر کرتی ہے ۔
نیشنل پارٹی کے وکلاءنیشنل پارٹی سے متعلق گفتگو کو تخریب قرار دیتے ہیں لیکن ان کو اس دن سے ڈرنا چاہئے جب عوام خود اٹھیں اور احتساب کرنے لگیں۔ ان کا یہ کہنا کہ نیشنل پارٹی پر کیچڑ اچھالی جا رہی ہے دراصل ان کی تاریخ سے عدم واقفیت کا اظہار اور ایکسپوز ہونے کے باوجود ڈھٹائی سے بتیسی دکھانے کے مترادف ہے۔ ان کو نیشنل پارٹی کے خلاف ہر ایک بات منافقت پر مبنی نظر آتی ہے …. لیکن وکیلان نیشنل پارٹی کو یہ معلوم نہیں کہ ان کے کتنے وزراءصاحبان ہیں جو آج بھی ڈیتھ سکواڈ کا کردار ادا کرتے چلے آ رہے ہیں ۔ان کے کتنے وزراءہیں جو اخلاقی طور پر صاف ستھرے کردار کے مالک ہیں۔
وکیلان نیشنل پارٹی تعمیری بات کرتے ہیں لیکن غداروں کی بھی بات کریں 1857ءکی جنگ آزادی کے خلاف جن غداروں نے حکومت برطانیہ کا ساتھ دیا حکومت برطانیہ نے برملا کہ ان صاحبان وفا کے تعاون کی وجہ سے انہیں غدر کو ختم کرنے کا موقع ملا …. لیکن آج کا مورخ ان کا نام لے کر ان میں سے ایک ایک کی غداری پر لعنت ملامت کر رہا ہے۔ اب جو باتیں فیس بک کے ذریعے وکیلان نیشل پار ٹی کر رہے ہیں یہ اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی بھونڈی سی کوشش ہے ۔
پہلے انہی نے متوسط طبقہ کے نعرہ کی تخلیق کی اور ریاست سے قریب ہونے کی کوشش کی لیکن خاص پذیرائی نہیں ملی اب اگر ان کو پذیرائی مل رہی تو اس کی بنیاد پر بلوچوں کا بننے والا خون ہے ۔کیا اگر آج بلوچ قومی تحریک مزاحمت نہ ہوتی تحریک ڈاکٹر مالک وزیراعلیٰ بنتے ؟ شاید خواب میں بھی نہیں ۔ میرے اے خود ساختہ دانشورو ‘ کتاب سے جانکاری اور اس کو سمجھنے سے پہلے ذرا نوشتہ دیوار کو بھی پڑھنے کی کوشش کرو کہ وہاں کیا لکھا ہوا ہے ؟ کم از کم کریڈٹ و کالک میں ہی تمیز کرلیتے۔
♦