روشن لعل
وزیر اعظم کے ماتحت ایک سرکاری افسر کے ’’ ٹویٹ ‘‘ کے تناظر میں آج کل آئینی استحقاق، آئینی اختیارات اور آئینی حیثیت جیسے معاملات تقریبا ہر مجلس و مذاکرے کا موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔آئینی معاملات پر گفتگو اور مباحث میں وسعت اس لحاظ سے حوصلہ افزا عمل ہے کہ صرف عام آدمی ہی نہیں بلکہ دانشور تصور کیے جانے والے بعض ایسے افراد بھی ان میں حصہ لے رہی ہے جو قبل ازیں بعض مصلحتوں کے تحت اس طرح کے موضوعات پر بات کرنے سے گریزاں نظر آتے رہے۔
ماضی میں جو لوگ آئین کی بالادستی اور آئین میں دیئے گئے عام لوگوں کے حقوق کے متعلق بے دھڑک بات کرتے رہے ان میں محترمہ عاصمہ جہانگیر ، ان کے قبیل کے کچھ لوگ اور ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران سرگرم کردار ادا کرنے والی سیاسی جماعتیں اور افراد قابل ذکر ہیں۔ عرصہ دراز سے عام لوگوں کے آئینی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے اگر آج بھی آئین کی بالادستی کی بات کرتے ہیں تو ان کے منہ سے ایسی باتیں قطعاً عجیب نہیں لگتیں۔
اس کے برعکس ایسے افراد جنھیں ماضی میں کبھی بھی عام لوگوں کے آئینی حقوق سے کوئی واسطہ نہیں رہا وہ اگر کسی خاص آدمی کے آئینی اختیارات کے حوالے سے اس کے آئینی استحقاق اور دوسروں کی آئینی حیثیت کی بات کرتے ہیں تو ایسی باتیں سمجھ جانے کے باوجود ہضم کرنے میں کافی دشواری پیش آتی ہے۔
یاد رہے کہ کسی فرد واحد کے آئینی اختیارات، اس کا آئینی استحقاق اور دوسروں کی آئینی حیثیت جیسی باتیں بہت اہم ہو سکتی ہیں مگر ان جزیات سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل مجموعی طور پر خود آئین ہے جسے مختصر مگر جامع معنوں میں حقوق و فرائض کا پیکیج کہا جاتا ہے۔ چند ریاستی مراتب کو ایک طرف رکھ کر اگر صرف حکومتی عہدوں کی بات کی جائے تو نظر آئے گا کہ آئین کے مطابق حکومتی عہدے کے مقام اور حاصل اختیارات میں راست تناسب موجود ہے ، یعنی جیسے جیسے عہدہ بڑھتا ہے اسی طرح سے اختیارات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے وزیر اعظم کا عہدہ پاکستان میں سب سے زیادہ اختیارات کا حامل ہے۔ عہدے اور اختیارات کے تناسب کے برعکس اعلیٰ ترین حکومتی عہدے اور حاصل حقوق میں تناسب معکوس ہے۔
اس حقیقت سے بہت کم لوگ آگاہ ہیں کہ آئین پاکستان کے مطابق سب سے زیادہ حقوق عام انسان کو حاصل ہیں نہ کہ وزیر اعظم پاکستان۔ وزیر اعظم پاکستان کے اگر اختیارات زیادہ ہیں تو ان کے اختیارات کے استعمال کے تقاضوں کے مطابق اس کے فرائض بھی اتنے ہی زیادہ ہیں۔ آئین پاکستان کی رو سے طاقت کا ماخذ وزیر اعظم نہیں بلکہ ریاست ہے اور وزیر اعظم کی ذات میں جو اختیارات مرتکز ہیں وہ ریاست کے دیئے ہوئے ہیں۔
ریاست کی طاقت ڈیلی گیشن آف پاور کے اصول کے تحت کسی بھی وزیر اعظم کی ذات نہیں بلکہ عہدے میں منتقل ہوتی ہے۔ اگر کسی نے ریاست کی طاقت کو سمجھنا ہو تو وہ ایک سیاسی جماعت کے اس نعرے پر غور کر سکتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’’ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘‘ یہ نعرہ اصل میں جمہوری نظام حکومت کی عکاس اس تعریف کا نچوڑ ہے جو کچھ یوں ہے ’’ عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے اور عوام کے لیے‘‘۔
اس تمہید کا مقصد اس ٹویٹ کا ذکر ہے جس نے ملک بھر میں ہنگامہ برپا کر رکھا ہے۔ اس بات پر دو رائے نہیں ہو سکتیں کہ جب ریاستی اختیارات بلحاظ عہدہ ہیں تو پھر کسی ماتحت کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر کوئی عمل کرے۔ اگر اس طرح کی صورتحال پیدا ہو جائے تو جواب آں غزل کے طور پر ٹویٹ درٹویٹ معاملات الجھانے کی بجائے ایک حل تو یہ ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان اس طاقت کا استعمال کریں جو انہیں ریاست نے عطا کر رکھی ہے۔
اصل میں تمام تر ریاستی طاقتوں کا حامل ہونے کے باوجود وزیر اعظم تمام اعصاب شکن معاملات کو اپنے دفتر سے باہر میڈیا ہاؤسز کے ذریعے طے کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ہمارے وزیر اعظم اس پالیسی پر عمل پیرا نہ ہوتے اور اپنے دفتری معاملات تمام تر آئینی اختیارات رکھنے کے باوجود غیر آئینی حیثیت کے حامل اپنے عزیزو اقارب کے ذریعے حل کرانے کی کوشش نہ کرتے تو ڈان لیکس جیسا وہ مسئلہ کبھی پیدا ہی نہ ہوتاجس کے تسلسل میں اس وقت ٹویٹ در ٹویٹ کا سلسلہ جاری ہے۔
اب ایک سوال ان لوگوں سے (عاصمہ جہانگیر کے علاوہ) جنہیں ٹویٹ میں پنہاں کوئی غیر آئینی عمل نظر آرہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے لوگوں کوماتحتوں کی طرف سے حکم عدولی جیسا کوئی عمل صرف اس وقت ہی کیوں غیر آئینی محسوس ہوتا ہے جب وزیر اعظم کی کرسی پر میاں محمد نواز شریف جیسا کوئی شخص براجمان ہو۔ اس کی بجائے اگر کوئی مراد علی شاہ اپنے ماتحت اے ڈی خواجہ کی جگہ اس کے ہم پلہ کسی دوسرے شخص کو اپنی ٹیم کا حصہ بنانا چاہے اور اس کی بات نہ مانی جائے تو پھر یہ معاملہ غیر آئینی کیوں نہیں ہوتا؟ آئین کے تحت ایک شخص کو وفاق میں عظیم ترین عہدے اور دوسرے کو صوبے میں اعلیٰ ترین عہدے کے اختیارات کے استعمال کا حق حاصل ہے تو پھر ایک کے لیے شور وغوغا اور دوسرے کے لیے چپ کا روزہ رکھنے میں کونسی آئینی وضعداری اور حکمت پنہاں ہے۔؟
واضح رہے کہ آئین چند شقوں کا نہیں بلکہ ایک مکمل اور جامع پیکیج کا نام ہے۔ آئین کی بالادستی کا مطلب کسی فرد واحد کی ذات کو تقویت دینا نہیں بلکہ اس سے مراد عام لوگوں کے خلاف طاقت کے بے جا استعمال کو روکنا ہے۔ اگرکسی فرد یا افراد پر آئین کے تحت ملنے والے اختیارات کی طاقت کے بل پر ماڈل ٹاؤن میں بے گناہ انسانوں کے خون بہانے جیسے واقعات کی پشت پناہی کا الزام ہو اور وہ ایسے الزامات کی تہہ تک پہنچنے والی جوڈیشل انکوائری رپورٹ کو منظر عام پر نہ آنے دیں تو کیا ایسے افراد کے متعلق سوچا جا سکتا ہے کہ انہیں آئین میں دیئے گئے عام لوگوں کے حقوق کا احترام ہے۔
جن لوگوں نے ماضی میں ا پنی ذات کو طاقت ور ترین بنانے کے لیے امیر المومنین بننے کی خاطر آئین کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش کی تھی وہ آج بھی اسی مقام پر کھڑے معلوم ہوتے ہیں جہاں وہ پہلے موجود تھے۔ آئین کی بالادستی صرف کسی وزیر اعظم کا نہیں بلکہ تمام حکومتی اور غیر حکومتی سیاستدانوں کا مسئلہ ہونا چاہیے ۔ مگر جس وزیر اعظم پر چھوٹے صوبوں کے سیاستدان سی پیک کے معاملات میں غیر منصفانہ طرز عمل کے الزامات لگا رہے ہوں ، کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کے وہ ایسے وزیر اعظم کے پیچھے غیر مشروط طور پر کھڑے ہوں۔
جن لوگوں کو عوام الناس کے آئینی حقوق کی پامالی کاکوئی احساس نہیں ،جائز ہونے کے باوجود بہت عجیب لگتا ہے کہ آئین کی بالادستی کے نام پر صرف ان کے آئینی اختیارات کے تحفظ بات کی جائے۔
♥