ڈاکٹر اشتیاق احمد
ترجمہ: لیاقت علی ایڈووکیٹ
پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی آبادی محض تین فی صد ہے ۔ آبادی کے اعتبار سے اتنا کم ہونے کے باوجود ان کی سماجی خدمات انتہائی شاندار ہیں۔ تعلیم،صحت اور ملکی دفاع کے میدانوں میں مذہبی اقلتیوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور اداروں نے قابل قدر خدمات سرانجام دی ہیں لیکن پاکستانی سماج کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کرنے کے باوجود مذہبی اقلیتیں اکثریتی آبادی کے ہاتھوں مسلسل خوف اور دہشت کا شکار ہیں۔
گذشتہ تین چار دہائیوں سے انھیں کبھی توہین مذہب کے نام پر خوف زدہ کیا جاتا ہے تو کبھی ان کی نابالغ بچیوں کو اغوا کرکے زبردستی تبدیلی مذہب کروا کر ان سے نکاح کر لیا جاتا ہے۔ خانیوال کا شانتی نگر، لاہور کی جوزف کالونی اور گوجرہ کی مسیحی بستی کو آ گ کے شعلوں کی نذر کرنے والے عناصر نہ صرف ہمارے سماج میں نمایا ں طور پر موجود ہیں بلکہ ان کے ہمدرد حکومتی عہدوں پر بھی فائز ہیں۔
جب کبھی اقلیتوں کے خلاف ظلم وزیادتی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو جہاں پاکستان کے روشن خیال شہری اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کے خلاف آ واز اٹھاتی اور اقلیتوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتی ہیں وہاں اقلیتوں کی پاکستان کے لئے شاندار خدمات کا ذکر بھی کیا جاتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل ، دفاع کے حوالے سے گروپ کیپٹین سیسل چوہدری، عدلیہ میں جسٹس کارنیلس وغیرہ وہ روشن نام ہیں جن کا ذکر کرکے پاکستان کے لئے اقلتیوں کی خدمات کو سراہا اور جتایا جاتا ہے۔
قیام پاکستان کے حوالے سے مسیحی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت ایسی بھی ہے جس کا ذکر بار بار یہ کہہ کر کیا جاتا ہے کہ اگر وہ پنجاب اسمبلی میں قیام پاکستان کے حق میں ووٹ کاسٹ نہ کرتی تو پاکستان کا وجود میں آ نا ممکن نہ تھا ۔ یہ شخصیت ایس ۔پی۔ سنگھا ہیں جن کے بارے میں یہ متھ مشہور ہے کہ اگر وہ ’پنجاب اسمبلی کے سپیکر کی حیثیت سے پاکستان کے حق میں اپناووٹ نہ دیتے تو پنجاب پاکستان میں شامل نہ ہوتا ‘ ۔
کیا تاریخی طور پر یہ بات درست ہے یا یہ بھی دیگر بہت سی متھس کی طر ح محض مفروضہ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جس طرح اور بہت سے فرضی واقعات کو ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ بنا دیا گیا ہے اسی طرح ایس۔پی۔ سنگھا اور ان کے ووٹ کا قصہ بھی محض افسانہ ہی ہے ۔
متحدہ ہندوستان کو دو آزاد اور خودمختار ممالک میں تقسیم کا فیصلہ آخری برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مسلم لیگ او ر کانگریس کی قیادت سے طویل اور لا حاصل مذاکرات کے نتیجے میں کیا تھا۔ہندوستان کی تقسیم کا طریقہ کا ر کیا ہوگا اس کا قانونی اظہار 3 جون 1947 کے منصوبے میں کیا گیا تھا ۔ 3 جون کے منصوبے کے مطابق پنجاب اور بنگال کی صوبائی اسمبلیوں کو بذریعہ ووٹ یہ فیصلہ کرنا تھا کہ وہ اپنے صوبے کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنا چاہتی ہیں یا پھر متحد رکھنے کی خواہش مند ہیں۔
اراکین اسمبلی کی رائے معلوم کرنے کے لئے جو طریقہ کار تجویز کیا گیا تھا اس کے مطابق ان اسمبلیوں کے اراکین کو۔۔۔ مسلمان اکثریتی گروپ اور غیر مسلم اکثریتی گروپ کی بنیاد پر تقسیم کر نا تھا ۔اگر صوبائی اسمبلی کا کوئی ایک گروپ تقسیم کے حق میں ووٹ دے گا تو صوبہ تقسیم ہوجائے گا ۔ 3 جون 1947 کے منصوبے میں مندرج فارمولے کے مطابق پنجاب قانون ساز اسمبلی کو دو گروپوں۔ مغربی پنجاب کے ارکان اسمبلی پر مشتمل مسلم اکثریتی گروپ اور مشرقی پنجاب کے ارکان پر مشتمل غیر مسلم اکثریتی گروپ میں تقسیم کر دیا گیا ( یہ تقسیم 1941 میں ہوئی مردم شماری کی بنیادپر کی گئی تھی)۔
پنجاب اسمبلی کے دونوں گروپوں کے اجلاس 23جون 1947 کو منعقد ہوئے تھے۔مغربی پنجاب کے مسلم اکثریتی گروپ کے اجلاس کی صدارت مسیحی سپیکر دیوان بہادر ایس۔پی۔سنگھا نے کی جب کہ مشرقی پنجاب کے غیر مسلم اکثریتی گروپ کے اجلاس کی صدارت ڈپٹی سپیکر سردار کپور سنگھ نے کی تھی۔مغربی اضلاع کے اراکین اسمبلی ( یہ گروپ 17اضلاع پر مشتمل تھا ) کی اکثریت نے تقسیم پنجاب کی قرار داد 69ووٹوں سے مستر د کردی تھی ۔قرار داد کے حق میں 27ووٹ پڑے تھے۔
اسی طرح مشرقی پنجاب کے 12 اضلاع کے اراکین اسمبلی نے مسلم لیگی رہنما خان آ ف ممدوٹ کی قرارداد جس میں پنجاب کو متحد رکھنے کا کہا گیا تھا50 ووٹوں کی اکثریت رائے سے مسترد کر دی تھی جبکہ 22اراکین اسمبلی نے اس قرار داد کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ دونوں گروپوں کے اجلاسوں میں فیصلہ کن ووٹ کا مرحلہ درپیش ہی نہیں ہوا تھا۔ لہذا سپیکر ایس۔پی۔سنگھا کے فیصلہ کن ووٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوا تھا۔
مشرقی پنجاب کے اراکین اسمبلی کی اکثریت نے پنجاب کو تقسیم کرنے کے حق میں قرار داد منظور کی تھی جس کے مطابق پنجاب کو تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مذہبی وابستگی کے پس منظر میں دیکھا جائے تو پنجاب اسمبلی کے 88ارکان جن میں پنجاب کے سابق وزیر اعظم خضر حیات ٹوانہ اور یونینسٹ پارٹی کے سات دوسرے ارکان، دو ہندوستانی مسیحی( ایس۔پی۔سنگھا اور فضل الہی) اور ایک ا ینگلو انڈین مسیحی مسٹر گبن نے متحدہ پنجاب کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
ہندو ، سکھ اورپسماندہ ذاتوں سے تعلق رکھنے والے 77 اراکین پنجاب اسمبلی نے پنجاب کو تقسیم کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ تاہم جولائی 1947 میں جب پنجا ب کی مختلف سیاسی پارٹیوں نے پنجاب باؤ نڈری کمیشن کے روبرو اپنے دعاوی پیش کئے تو ایس۔پی۔سنگھا اور مسٹر گبن نے متحدہ پنجاب کی وکالت کی تھی اور موقف اختیا کیا تھا کہ اگر پنجاب کو متحد رکھنا ممکن نہ ہو اور تقسیم ناگزیر ہونے کی صورت میں ان کی کمیونٹی پاکستان میں شمولیت کو ترجیح دے گی ۔
ایس۔پی ۔سنگھا کے حریف مسیحی رہنما مسٹر بینر جی نے کمیشن کے روبرو موقف اختیا کیا کہ وہ متحدہ ہندوستان کے حق میں ہیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو ان کی کمیونٹی بھارت میں شامل ہونے کو ترجیح دے گی ۔پنجاب میں مسیحیوں کی تعدا د دوسری مذہبی اقلیتوں کی نسبت بہت کم تھی اور ان کی قیادت کے بڑے حصے کا تعلق لاہور سے تھا۔
ایس ۔پی ۔سنگھا لاہوری تھے اور قدرتی طور پرمقامی مسیحیوں کی قیادت کے وہی دعویدار تھے ۔ وہ چاہتے تھے کہ متحد ہ پنجاب پاکستان شامل ہو لیکن ان کی حمایت کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ انہوں نے کوئی فیصلہ کن ووٹ پنجاب اسمبلی کے اجلاس منعقدہ 23 جون 1947میں پنجاب کی پاکستان میں شمولیت کے حق میں دیا تھا ۔ یہ فیصلہ کن ووٹ محض متھ ہے اس کا تاریخی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
♦