علی احمد جان
کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان ایک غیر سرکاری ادارہ ہے جو سالانہ پورے ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اپنی رپورٹ شائع کرتا ہے۔یہ رپورٹ ایک آزادانہ مستند دستاویز ہوتی ہے جو کمیشن برائےانسانی حقوق کے ممبران دن رات انتھک محنت سے تیار کرتے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ کام کرتے ہوئے مجھے بھی بیس سال ہونے کو ہیں اس دوران میں نے دیکھا ہےکہ اس شعبے میں ایسے کام عموماً پیشہ ورانہ کاروباری لوگوں سے یا اپنے ہی ادارے کے چھوٹے ملازمین سے بیگار میں کروائے جاتے ہیں ۔
لیکن اس دفعہ میں نے خودکمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان کی سابقہ چئر پرسن محترمہ عاصمہ جہانگیر کو گلگت میں لوگوں سے ملتے، شواہد اکھٹے کرتے اور دور دراز علاقوں تک سفر کرتے دیکھا ۔ اور پھر آج تک میں نے تو کم از کم یہ نہیں سنا کہ ان کی کسی رپورٹ کے مندرجات کو کسی عدالت میں غلط ثابت کیا ہو۔ یہ اور بات ہے کہ یہاں حکومتیں چاہے جمہوری ہوں یا غیر جمہوری اور ہر دور کے ریاستی ادرے ایسی رپورٹ نہ پڑھتے ہیں اور نہ درخور اعتنا سمجھتے ہیں۔
یہ رپورٹ بہت سارے پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے جو ریاستی اداروں ، قانون سازی،عدالتی نظام ، صحت ،تعلیم اور ماحولیات سمیت بہت سارے شعبہ ہائے زندگی میں بنیادی حقوق کی صورت حال پر اعداد و شمار پیش کرتی ہے۔ ہمارے لئے پوری رپورٹ کا اختصاریہ ان صفحات میں سمونا مشکل ہے اس لئے اس کے چیدہ چیدہ پہلو قارئین کی نظر کرتے ہیں۔
اس سا ل کی رپورٹ بھی ویسی ہی ہے جیسے یہاں ہوا کرتی تھی۔ غیرت کے نام پر قتال جاری و ساری ہے۔ صرف گلگت بلتستان میں درج کئے گئے قتل کے ۲۳ مقدمات میں سے ۱۳ غیرت کے نام پر قتل کے تھے۔ خیبر پختونخواہ میں سال کے دس مہینوں میں ۱۸۷ عورتیں قتل ہوئیں جن میں سے ۴۰ غیرت کی بھینٹ چڑھ گئیں۔
سال2016 میں ملک کی عدالتوں میں تیس لاکھ مقدمات زیر التواء رہے۔ وکلاء اور ججوں کے خلاف تشدد بڑھ گیا ہے۔ دس مسلمانوں اور پانچ غیر مسلموں پر توہین مذہب کے مقدمات قائم ہوئے۔ دو مسلمانوں سمیت کئی ایک مسیحیوں کو توہین مذہب میں سزائے موت سنائی گئی۔ ایک شخص کو چار سال جیل میں رہنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے توہین مذہب کے الزام سے بری کیا۔ ایک شخص کواکتوبر میں قتل کے ایک مقدمے میں پھانسی کےایک سال بعد سپریم کورٹ نے بے گناہ قرار دیا۔ ایک اور شخص کو ۱۹ سال بعد قتل کے الزام سے عدالت نے بری کیا جبکہ اس کی وفات کو بھی دو سال مکمل ہو چکے تھے۔
سال2016 میں کم از کم تین انسانی حقوق کا دفاع کرنے والوں کا قتل ہوا۔ پنجاب پولیس نے ۳۴۰ مجرموں کو ۲۹۱ پولیس مقابلوں میں ماردینے کا دعویٰ کیا۔ سندھ پولیس نے ۲۴۸ ڈاکو ، ۹۶ دہشت گرد اور گیارہ اغوا برائے تاوان کےملزمان ماردئے۔ بلوچستان میں ۲۲۹ مشتبہ دہشت گرد مارئے گئے جبکہ قبائلی علاقوں میں ۳۱۵، خیبر پختونخواہ میں ۴۰اورگلگت بلتستان میں ۴ مبینہ دہشت گردوں کے ماورائے عدالت قتل کے اعداد بتائے گئے ہیں۔
سال 2016میں ۴۲۶ مجرموں کو مختلف عدالتوں نے موت کی سزا سنائی جن میں سے ۸۷ کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔ ۷۲۸ لوگوں کی جبری گمشدگی ہوئی ہے جو گزشتہ چھ سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔
اقلیتوں کے عدم تحفظ کی وجہ سے نہ صرف نقل و حرکت محدود ہوئی ہے بلکہ بہت سوں کو جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ احمدیوں کے خلاف تشدد کا رجحان بڑھ گیا ہے اس برادری کے قتل ہونے والوں میں چار ڈاکٹر بھی تھے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے مختلف مسالک کے لوگ جن میں زیادہ تر سنّی ، اور شیعہ شامل ہیں فرقہ ورانہ تشدد کا شکار ہوئے ہیں جس میں ان کی مساجد ، عبادت گاہوں اور درگاہوں پر حملوں کے نتیجے میں ۱۱۰ لوگ مارے گئے ۔
چھ صحافیوں اور بلاگرز کے قتل نے صحافت کے شعبے کو خود ساختہ سنسر شپ پر مجبور کردیا ۔ سائبر قوانین نے آزادی اظہار رائے کو مزید مسدود کردیا کیونکہ یہ قوانیں حکام کو لوگوں کی اظہار رائے میں مداخلت کی اجازت دیتے ہیں جس کی وجہ سے انسانی حقوق کے علمبردار اور سیاسی کارکن زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ سماجی کارکنان امن کی پرچار کرنے پر حملوں کا شکار ہوئے ہیں۔
سا ل 2016 میڈیا اور ٹی وی چینلز ،اخبارات اور پریس کلبوں پر مذہبی انتہا پسندوں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی طرف سے حملوں کے لئے بد ترین سال تھا۔ سیاسی جماعتوں کی طرف سے عام لوگوں کی نقل و حمل پر بندشوں کے واقعات سے ہسپتال بر وقت نہ پہنچنے سے اموات بھی ہوئی ہیں۔ بعض سیاسی جلسوں اور ریلیوں میں خواتین کارکنان کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات بھی پیش آئے۔
ملک بھر میں غیر رجسٹرڈ مزدوروں، گھریلو ملازمین اور طلبہ کی حق انجمن سازی کا مسئلہ ۲۰۱۶ میں بھی حل نہ ہوسکا۔ بلوچستان کے وکلا ء کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا جس میں ۷۰ وکیل مارے گئے۔ غیر سرکاری تنظیموں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پرزیر عتاب رکھا گیا ۔
خواتین کی سیاسی، معاشی اور سماجی میدان میں بہتری نہیں آسکی۔ تحفظ نسواں کے مختلف قوانین کے باوجود خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں کوئی خاطر خواہ کمی نہیں آئی۔ خواتین کا مزدور وں میں ۲۶ فیصد حصہ ہونے کے باوجود صنعت یا کسی اور شعبے میں ۳۰ فیصد سے زیادہ خواتین ملازم نہ ہو پائیں۔ خواتین کا تعلیم میں بھی مردوں کی نسبت تناسب کم رہا اور قابل علاج بیماریوں سے شرح اموات زیادہ رہی۔
سال 2016 میں ۲۵۰۰ خواتین تشدد کا شکار ہوئیں جس میں جنسی تشدد، جسم جلانا اور اغوا کے واقعات شامل ہیں۔ بچوں پر جنسی تشدد ، ان کے فحش فلموں میں استعمال اور اغوا کے واقعات مجرمانہ حد تک بڑھ گیئں۔ سال ۲۰۱۶میں بچوں کے اغوا، غائب ہونے اور کم عمری کی شادی کے 4139 واقعات ہوئے جوروزانہ گیارہ کے حساب سے سال۲۰۱۵ سے دس فیصد زیادہ بنتے ہیں۔
سال ۲۰۱۶ میں سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد ۲۵ ملین سے کم ہوکر ۲۴ ملین ہوگئی لیکن شرح خواندگی ۵۸ فیصد سے کم ہوکر ۵۶فیصد پر آگئی۔ ملک کے ۴۸ فیصد سکولوں میں بیت الخلاء ، چاردیواری اور پینے کا پانی نہیں۔ بڑے دعوؤں کے باوجود وفاقی حکومت ، حکومت پنجاب اور بلوچستان کی صوبائی حکومت نے تعلیم کے بجٹ میں کمی کی۔ مفت تعلیم کا وعدہ کہیں بھی پورا نہ ہوسکا اور نہ ہی جسمانی طور پر معذور لوگوں کی تعلیمی سہولیات میں کوئی بہتری آئی۔
پاکستان اپنی جی ڈی پی کا صرف اعشاریہ نو فیصد صحت کے شعبے پر خرچ کرتا ہے جہاں ایک ۱۰۳۸ لوگوں کے لئے صرف ایک ڈاکٹر، ۱۶۱۳ لوگوں کے لئے ایک ہسپتال کا بستر اور ۱۱۵۱۳ افراد کے لئے ایک دانتوں کا ڈاکٹر دستیاب ہے جو انتہائی ناکافی ہیں ۔ پاکستان پیدایش کے دوران بچوں کی اموات میں دنیا کے ممالک میں سب سے آخر میں آتا ہے۔ ملک میں پانچ کروڑ لوگ ذہنی امراض میں مبتلا ہیں جن کے لئے ملک کے طول و عرض میں پانچ نفسیات کے ہسپتالوں میں صرف 320ماہر نفسیات دستیاب ہیں۔
پاکستان موسمیاتی تبدیلی سے متاثر ہونے والے ممالک میں دنیا میں ساتویں نمبر پر آتا ہے جس کا مجموعی قومی پیداوار کا نو فیصد سالانہ نقصان ہوتا ہے۔ اسی فیصد لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ 2016 میں پشاور اور راوالپنڈی بالترتیب دنیا بھر میں دوسرے اور چوتھے نمبر پر گندے ترین شہر رہے۔
♣