انصاف کی دیوی کو دوبارہ بنگلہ دیش کے سپریم کورٹ کے سامنے نصب کر دیا گیا۔اس پر کچھ لوگ جشن منا رہے ہیں۔کچھ ماتم کناں ہیں۔بنگلہ دیش میں ہماری طرح سیکولر اور مذہبی قوتوں کے درمیان کشمکش بہت پرانی ہے۔حالانکہ تا ریخی اعتبار سے بنگلہ دیش ایک سیکولر سماج رہا ہے۔راجے مہاراجے اور نواب مجموعی طور پر سیکولر انداز میں بنگال کا انتظام و انتصرام چلاتے رہے۔بنگال کی سول سوسائٹی بھی مجموعی طور پر سیکولر رہی ہے۔عوامی سطح پر ہونے والی زیادہ تر ثقافتی سر گرمیاں بھی سیکولر رہی ہیں۔
لیکن باقاعدہ آئینی اور قانونی طور پر 1972میں سرکاری سطح پر سیکولرازم کو تسلیم کیا گیا۔آزاد بنگلہ دیش کے 1972 کے آئین میں چار اصولوں کو ریاستی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ان میں پہلا اصول نیشنلزم تھا۔قوم پرستی کا یہ اصول پا کستان سے علیحدگی اور دو قومی نظریے کے تناظر میں اپنایا گیا تھا۔دوسرا اصول جمہوریت تھا۔جمہوریت عالمی سطح پر مسلمہ طرز حکمرانی تو تھی ہی لیکن عوامی لیگ کے لیے اپنے تاریخی تجربے کے تناظر میں اسکی ایک خصوصی حیثیت تھی۔اگر جمہوریت کو تسلیم کر لیا جاتا تو عواامی لیگ ظاہر ہے صرف بنگلہ دیش کی ہی نہیں پورے پاکستان کی حکمران جماعت قرار پاتی۔تیسرا اصول سیکولرازم تھا۔اس طرح بنگلہ دیش کی سیکولر ثقافت، روایات اور سیاست کو باقاعدہ آئینی حیثیت دی گئی۔چوتھا اصول سوشل ازم تھا۔
یہ چاروں اصول اس وقت صرف بنگلہ دیش میں ہی نہیں پورے برصغیر میں عوامی سیاست کے مقبول نظرئیے تھے۔ہندوستان میں کانگرس اور کمیونسٹ پارٹی کا طوطی بولتا تھا۔ پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی اور ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی جیسی بائیں بازوں کی سوشلسٹ اور نیشنلسٹ پارٹیاں عوام کا بھاری مینڈیٹ رکھتی تھیں۔یہ اچھے وقتوں کا قصہ ہے ۔تب مذہب کو سیاست میں گھسیٹنے کا کاروبار ابھی کامیاب نہیں ہوا تھا۔حالانکہ یہ کوشش تقسیم برصغیر سے پہلے جاری تھی۔اور قیام پاکستان کے فورا بعد یہ کوششیں تیز تر ہو گئی تھی۔اور قراداد مقاصد سمیت اس سمت میں کئی اقدامات اٹھائے گئے تھے۔
مگر مذہب کو سیاست میں گھسیٹنے کی سب سے پہلی کامیاب کوشش بھی بنگلہ دیش میں ہی ہوئی۔اس کوشش کی کامیابی کے پیچھے ملاں ملٹری اتحاد تھا۔یہ کام جس جنرل نے کیا اس کا نام بھی اتفاق سے ضیا تھا اور وہ بھی چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر تھا۔آزادی کے اس ہیرو نے یہ کام ملک کی مذہبی بنیاد پرست قوتوں کے ساتھ مل کر کیا۔عوامی لیگ کی بے پناہ مقبولیت کا مقابلہ کرنے کے لیے جنرل ضیا الرحمن نے مذہب کو کھلے عام بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا۔
اس نے بنگلہ دیش نیشنسلٹ پارٹی تشکیل دی جس نے سیکولر بنگالی قوم پرستی کی جگہ اسلامی بنگالی قوم پرستی کے نظریات کا پرچار شروع کیا۔1977 میں بنگالی پارلیمنٹ نے 1972کے آئین میں ترامیم کا سلسلہ شروع کیا۔انہوں نے سب سے پہلے مذکورہ بالا چار ریاستی اصولوں یعنی نیشنل ازم، سیکولرازم،جمہوریت اور سوشل ازم پر حملہ کیا۔آئین کے دیباچے میں سیکولرازم کو ہٹا کر خدا کی ذات پر مطلق یقین اوراعتماد کو تمام اعمال کی بنیاد قرار دیا گیا اور آئین سے مذہبی آزادی کے الفاظ کو حذف کر دیا گیا۔
سنہ1988 میں ایک اور فوجی آمر جنرل حسین محمد ارشاد نے اسلام کو باقاعدہ بنگلہ دیش کا سرکاری مذہب قرار دے دیا۔فوجی آمریتوں کے ساتھ مل کر مذہبی بنیاد پرستوں نے اقلیتوں کے خلاف کئی اقدامات کیے۔ بعد میں جمہوریت کی بحالی پر سول سوسائٹی نے آئین میں ترامیم کے خلاف آواز اٹھائی۔عدالتوں نے بھی کئی ایک فیصلوں کے ذریعے ان آئینی ترامیم کو غیر قانونی قرار دے دیا لیکن ملاں ملٹری اتحاد کے اقدامات کے ذریعے بنگلہ دیش کی سیکولر روایات اور ثقافت کو جو ناقابل نقصان پہنچ چکا تھا اس کا پورے طریقے سے ازالہ شائد کبھی ممکن نہ ہو۔
ان اقدامات سے بنگلہ دیش میں بنیاد پرست اور شدت پسند قوتوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔چنانچہ وہ آئے دن نت نئے مطالبات لیکر سامنے آتے ہیں۔سپریم کورٹ کے سامنے سے انصاف کی دیوی کا مجسمہ ہٹانے کا مطالبہ کرنا اور درحقیقت سرکار کو یہ مجسمہ ہٹانے پر مجبور کرنا اس کی ایک واضح مثال ہے۔
دوسری طرف حکومت کی طرف سے اس مجسمے کودوبارہ نصب کرنا اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ابھی تک پاکستان کی طرح بنگلہ دیش کی سیکولر اور روشن خیال قوتوں نے رجعت پسندوں کے آگے مکمل طور پر سرینڈر نہیں کیا ہے اور وہ ابھی تک سماج میں اپنی جگہ کی حفاظت کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔انصاف کی دیوی کے مجسمے کو ہٹانا یا دوبارہ نصب کرنا بظاہر ایک چھوٹا اور معمولی واقعہ ہی سہی لیکن ایسے واقعات کسی سماج کا نظریاتی رخ متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
♦
One Comment