شام میں جاری خانہ جنگی میں ،داعش،عالمی طاقتوں اُور ترک فوجیوں کی وحشت نے صورتحال کو سنگین بنا دِیا ہے ۔اِس خانہ جنگی میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ساڑھے چار لاکھ سے زائد لوگ مارے جاچکے ہیں۔جبکہ دس لاکھ سے زائد زخمیوں کی تعداد بتائی جاتی ہے ۔اسی طرح بارہ ملین کے قریب لوگ ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ستر فیصد آبادی کے پاس پینے کے پانی کی سہو لت بھی نہیں ہے ۔ اِس خانہ جنگی نے ایک المیے کو جنم دِیا ہے ۔
بروقت علاج نہ ہو نے کی وجہ سے شرحِ اموات میں بھی تیزی آ رہی ہے۔ہر چوتھا شامی شہری اِس وقت غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔شام کے مہاجرین نے بھی پوری دُنیا کو ہلا کر رکھ دِیا ہے ۔یورپ کے ساحلوں کے نزدیک شامی پنا ہ گزین بچوں کی لاشیں گردش کر تی رہتی ہیں۔اقوامِ متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے مطابق شام کےتقریباً 48 لاکھ مہاجرین اس وقت ترکی ،لبنان ،اُردن ،مصر اور عراق میں ہجرت کر چکے ہیں۔
اِس سارے بحران میں صرف دس لاکھ وہ مہاجرین ہیں، جنھوں نے یورپ میں پناہ کے درخواستیں دیں ہیں۔بہت سے مہاجرین کئی ملکوں کے بارڈروں پر ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔2011ء میں تیونس میں محمد بوعزیزی کی خود سوزی کے گرد بننے والی تحریک نے جلد ہی مشرقِ وسطی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔اس تحریک نے عرب ممالک میں رائج آمریتوں کا خاتمہ کیا ،لیکن رجعتی عناصر نے ان تحریکوں کی کمان سنبھال کرخطے کو مستقل خون خرابے میں دھکیل دِیا ۔
فروری 2011ء میں السذا جتہ ابا زید نامی شامی نوجوان نے اپنے اسکول کی دیوار پر ’ڈاکٹر اسد (بشار الاسد ) اب تمھاری باری ہے‘لکھا ۔اِس جرم کی پاداش میں ابا زید کو حکومت نے گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بنایا ۔مارچ 2011ء میں حکومت کے اِس اِقدام پر جمہوریت کے حامیوں نے شا م کے جنوبی شہر ڈیرہ میں احتجاج کیا ۔حکومت نے سختی سے نپٹتے ہو ئے احتجاج کو پر تشدد طریقے سے منتشر کردیا۔اِس رِیاستی جبر کے خلاف عوام نے ایک تحریک کا آغا ز کر دیا۔
پہلے پہل شامی قوم کے تمام مطالبات سیاسی نوعیت کے تھے۔ لیکن جوں جوں تحریک آگے بڑھتی گئی تو معاشی سماجی مطالبات کے ساتھ یہ تحریک پورے نظام کو چیلنج کر نے لگ گئی ۔بشار الاسد کو اِیران،رُوس اُور ایران کی حمایت یافتہ بنیاد پرست تنظیم حزب اللہ کی مدد حاصل ہے ۔جبکہ باغیوں کو سعودی عر ب ،ترکی اُور امریکہ کی مدد حاصل ہے۔ بشار الاسد کافی عرصے سے اقتدار پر قابض ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرقِ وسطیٰ کے ابھرتے ہوئے شیعہ مذہب کی حمایت اُسے حاصل ہے ۔
سعودی عرب کی بنیاد پرست قیادت شیعہ کمیونٹی پر بہت ظلم و جبر کر رہی رہے ۔سعودی عرب کے رجعتی قوانین کے تحت آدھا سعوی عرب’ کا فر‘ ہے کیونکہ وہ ’وہابی ‘ نہیں ہے،شیعہ بھی اِسی زمرے میں آتے ہیں۔سعودی حکومت شام میں سنی مسلمانوں کی حمایت کر کے شیعہ کو بے دست و پا کر نے پر تُلی ہوئی ہے۔ایران میں کٹر شیعہ مذہب کے پیروکاروں کو اقتدار حاصل ہے ۔ایرانی ملاں سعودی عرب کے مقابلے میں اپنے ایران میںَ رجعتی قوانین نافذ کر رہے ہیں ،اُور شام میں اَپنے فرقے کو بر سرِ اقتدار رکھنے کے لیے بشار الاسد کا ساتھ بھی دَے رہے ہیں۔
اِس وجہ سے شام میں سنی ،شیعہ جنگ کے امکانات کا خیال کرنا تو دُور کی بات بلکہ معاملہ فریقین کے جنگ وجدل کی صورت بھی اختیار کر چکا ہے ۔امریکہ کو درمیان میں آ کر ویسے ’بدنام ‘ ہونے کا شوق ہے ۔وہ فریقین کے جنگ و جدل سے لطف اندوز بھی ہو رہا ہے ۔اُور اَپنا حصہ بھی ڈال رہا ہے ،تاکہ معرکہ حق و باطل جاری رہے۔رُوس اپنے سامراجی مقاصد رکھتا ہے ۔اِس لیے اس لڑائی میں وہ بھی حصہ ڈال رہا ہے۔
’ بنیاد پرستی پر مبنی قوانین ‘ اُور ’ ان کا کردار‘ کسی حدود قیود ،رنگ و نسل ،مذہب کے قائل نہیں ہوتے ۔اَپنی بادشاہت قائم کرنے کی ضد پوری کرنے کے عمل میں ہماری بنیاد پرست عرب رَجعتی عناصر جہاں بہت سے لوگوں کا قتل کر تے ہیں وہاں اپنی بادشاہت کو قائم کر نے کے لیے انگریز کے ساتھ جن کو یہ مشرکین کہتے ہیں ’سائیکس پیکو،سان ریمو اور لوزوان ‘ جیسے معاہدوں پر دستخط بھی کر لیتے ہیں ۔اگرچہ سعودی عرب،ترکی ،ایران اور افغانستان جیسے ممالک میں بنیاد پرست عناصر کا ابھار ہوا۔ تا ہم افغانستان میں ان کو دبا دیا گیا ۔
یہ علیحدہ موضوع ہے کہِ اس چیز کا پس منظر کیا ہے ۔لیکن رجعتی عناصر کے مقاصد ملفوف نہیں بلکہ برہنہ ہو تے ہیں ۔آزادی اظہارِ رائے پر پابندی ،خواتین پر پابندیا ں اور ان کو گھروں میں قید کر نا،اقلیتوں سے انتہائی بدتر سلوک ،ہم جنس پرستوں کو پھانسیوں پر لٹکانا،خواجہ سراؤں سے دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک ،جبری غیر مسلموں کو مذہب تبدیل کر نے پر مجبور کر نا ،مذہب کا سیاسی استعمال اور مذہب کی تشریح و توضیع پر قبضہ کر نا جیسے اقدامات رَجعتی ہوتے ہیں ۔
ایسے اقدامات کر کے یہ لوگ اپنا اقتدار مضبوط کر تے ہیں۔ ترکی ، سعودی عرب اور ایران میں یہ نظام قائم ہیں ۔ان ملکوں میں خدا کی کتنی رحمتیں ہو رہی ہیں یہ سب آپ کے سامنے ہیں؟۔ شام کے بارے میں بنیاد رست تنظیم داعش کی سوچ یہ ہے کہ شام اسلام کا قلعہ بنے۔ اور شام سے دنیا بھر کو فتح کر نے کے لیے منصوبہ بندیاں کی جائیں۔سیدھے اور سادہ لفظو ں میں بات یہ ہے کہ شام کے اندر پتھر کے دور کا نظام نافذ کر نا داعش کا خواب ہے اُور وہ اِس کی تعبیر پانے کے لیے کئی وحشیانہ طریقے اختیار کر چکی ہے اُور کر رہی ہے ۔
مثلاً لوگوں کو آہنی سلاخوں کے پنجروں میں بند کر کے زندہ جلانا اور کسی اُونچی عمارت سے نیچے کی طرف دھکا دے کر قتل کر نا داعش کے دھشت گردوں کا روزمرہ کا معمول ہے ۔گویا بنیاد پرست اپنی رجعتی سوچ کو نافذ کر نے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہو گئے ہیں ۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بشار الاسد بھی اَب قابل نفرت حکمران بن چکا ہے ۔اِس کے جرائم کی وجہ سے کوئی بھی باشعور آدمی اِس کی حمایت نہیں کر سکتا ۔دوسر ی طرف باغیوں کے ہاتھ بھی خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ان کا دامن بھی جرائم کے دھبوں سے صاف نہیں ہے ۔سوا ل یہ ہے کہ شام میں عوام کس کے ساتھ ہیں؟؟؟ ۔
یہ بہت اہم سوال ہے ۔اس سوال کا جواب اکثر تجزیہ کار اس لیے نہیں دیتے کہیں ان کی تحریر میں رجعت کی مخالفت نہ آ جائے ۔اکثر بشار الاسد یا پھر اپوزیشن کو سپورٹ کر تے دکھائی دیتے ہیں۔لیکن شام کے نوجوانوں نے سچے جذبوں سے جو تحریک شروع تھی ،وہ نہ بشار الاسد کے خلاف تھی اور نہ ہی کسی مذہب کی حمایت میں تھی ۔بلکہ شام کی عوام نے بشار الاسد کے بجائے اُس کی آمریت اور مذہبی رجعت پسندی کے خلاف لازوال اور تاریخی جدوجہد کی ہے ۔شام کے عوام مذہب (علوی فرقے ) کو اقتدار سے علیحدہ کر کے ایک ایسا جمہوری سیکولر معاشرہ قائم کر نا چاہتے ہیں جس میں سب کو حقوق ملیں اور کوئی اونچ نیچ نہ ہو ۔ظاہر ہے کہ لبرل بنیادوں پر قائم ہو نے والے معاشرے میں ہی اچھے اور سچے لوگ سامنے آ سکتے ہیں۔
دنیا کا کوئی انسان بھی اس حقیقت کو فراموش نہیں کر سکتا کہ اس وقت جو لوگ شام میں خون کی ہو لی کھیل رہے ہیں یا پھر نجات دہندہ بن کر ابھررہے ہیں، وہ سب مذہبی انتہا پسند ہیں ۔اگرایک طرف بشار الاسد کٹر شیعہ رجعتی ہے۔ تو دوسری طرف جو لوگ بغاوت پر اتر آئے ہیں وہ بھی سعودی عرب اور ترکی وغیرہ کے نمائندے ہیں۔ان اپوزیشن سے عوام کو کوئی اچھی امید وابستہ نہیں ہے ۔اس لیے اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ رجعتی عناصرکی جگہ اعتدال پسند لبرل قیادت کا ابھار ہو جو نہ صرف مسائل کا حل کر ے بلکہ شام کے عوام کو حقیقی معنوں خوشحال اور ترقی پسند قوم بنائے ۔شام کے عوام کی تحریک جاری ہے۔ اس انقلابی تحریک میں لبرل قیادت بھی بہت جلد اُبھرنے والی ہے ۔جب یہ قیادت ابھرے گی تبھی اِنسان حقیقی معنوں میں ’’اِنسان‘‘ بنے گا!!!! ۔
♦