مسعود قمر
ہمارے ہاں ایک محاورے کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے
” ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانا”
اس محاورے کےمفہوم کو غالب نے اپنی پنجابی غزل کے ایک مصرعے میں اس طرح بیان کیا ہے
“تینوں ایویں رقیب کرا پایا”
کسی زمانے میں زمانہ جنگ میں حکومتیں ایک دوسرے کی فوجوں پہ اس محاورے کا استعمال کرتی تهیں اور ایک دوسرے پہ فتح پاتی تهیں۔ پھر حکومتوں نے اپنی حریف سیاسی پارٹیوں پہ اسمحاورے کا استعمال کر کے انتخابات پہ فتوحات حاصل کیں مگر اب یہ محاورہ ہماری زندگی کا اس طرح حصہ بن گیا ہے جس طرح چهتری انگریز کے لباس کا حصہ ہوتی ہے۔
آج کل اس محاورے کا سب سے زیادہ استعمال پاناما کیس اور ڈان لیکس میں ہورہا ہے۔
ہم فی الحال اس پہ بحث نہیں کرتے کہ کیا یہ خبر خبر تھی یا لیک تھی کیا یہ ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ تھی اور اس کو ملک کی سلامتی کے لیے خطرہ کیوں سمجھا گیا۔
جب سے ڈان لیکس کا سکینڈل شروع ہوا ہے تمام چینلز پہ بغیر وردی پہنے اینکر اس جملے سے پروگرام کا آغاز کرتے ہیں کہ نواز شریف اپنے لوگوں اور خاص طور پہ اپنی بیٹی مریم نواز کو بچانے کے لیے دوسروں کو قربانی کا بکرا بنائے گا اور انہیں اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے فوری وزیر اطلاعات پرویز رشید کی برطرفی کا نوٹس بھی مل گیا ( یہ بات اہم ہے کہ پرویز رشید سے استعفا نہیں لیا گیا بلکہ انہیں بر طرف کیا گیا ہے)۔
اس سے پہلے نواز حکومت اپنے ایک اور وزیر مشاہد اللہ کو بھی برطرف کر چکی ہے جس نے انکشاف کیا تھا کہ نواز شریف نے فوج کے آئی ایس آئی کی دهرنوں کے درمیان عمران خان کے ساتھ ہونے والی گفتگو کی ٹیپ جنرل راحیل کو سنا دی تهیں ۔یہ وزیر اس وقت ایک سرکاری دورے پہ غیرملک میں تھے اس کے ملک واپس آنے کا بھی انتظار نہیں کیا گیا اس کو وہیں برطرف کر دیا گیا تھا ۔
حالانکہ صورت حال بالکل اس کے بر عکس ہے جب اس سکینڈل کی تحقیقات شروع ہوئی تھیں عسکری قیادت اور سول قیادت میں اس پہ رضا مند ہو گئی تھی کہ اس میں نواز شریف اور ان کے خاندان کے کسی فرد کو نامزد نہیں کیا جائے گا کمیشن بنا ہی اس رضا مندی کے بعد تھا اور سب نے دیکھا کہ کمیشن نے نواز شریف کے خاندان کے کسی فرد کو اس میں نامزد نہیں کیا ۔ خاص طور پہ کچھ لوگوں کی خواہش منہ سے رال بن کر ٹپکتی حسرت تھی کہ اس میں مریم نواز کو نامزد کر کے اسے سزا دی جائے اور تا حیات اسے نااہل قرار دیا جائے ( مریم نواز کو اس میں کیوں نامزد نہیں کیا گیا اور مریم نواز کو پاناما کیس میں بھی کلین چٹ کیوں ملی اس پہ الگ سے لکھوں گا)۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جب سارے کام مفاہمت سے ہو رہے ہیں تو پھر عسکری ونگ نے اس رپورٹ کو یہ کہہ کر کیوں مسترد کر دیا کہ اس رپورٹ پہ عمل درآمد پہ جو مفا ہمت ہوئی تھی اس طرح سے اس پہ عمل نہیں ہو لہذا ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔
اب لوگ ٹرک کی اس بتی کے پیچھے لگے ہوئے ہیں کہ عسکری ونگ اس میں مریم نواز کو بھی نامزد کرنا چاہتا ہے اس لیے فوج نے اس رپورٹ کو مسترد کیا ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ سزا کے طریقہ کار پہ اختلاف ہوا ہے۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کی اگر صدام حسین معافی مانگ لیتا تو امریکہ عراق پہ حملہ نہ کرتا۔ جب کہ واقعات بتاتے ہیں کہ اگر صدام معافی مانگ بهی لیتا تو امریکہ نے حملہ کرنا تھا۔ مسئلہ صدام حسین کو ختم کرنے کا نہیں تھا مسئلہ اس خطے پہ اپنا تسلسل قائم کرنا اور اپنی دہشت دکهانی تھی اور اس دہشت کو برقرار رکھنا تھا کہ اگر کوئی بھی آئندہ اس طرح کی جرات کرے گا تو اس کا اور اس کے ملک کا یہی حال ہوگا۔
یہاں بھی یہی ہو رہا ہے نواز شریف نے طارق فاطمی کے مشیر کے عہدے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا ہے جبکہ عسکری ونگ طارق فاطمی کو بھی برطرف کر کے اسی طرح بے عزت کر کے سزا دے کر نکالنا چاہتی تھی جس طرح اس سے پہلے پرویز رشید اور ایک دوسرے وفاقی وزیر مشاہد اللہ کو برطرف کر کے بے عزت کر کے نکالا گیا تھا تاکہ بتایا جا سکے کہ اگرکسی نے دوبارہ اس طرح کی جرات کی تو اس کا علاج بهی اسی طرح یا اس سے بھی برا ہوگا۔ اسے حامد میر بهی بنایا جا سکتا ہے یا اس کی لاش کو مسخ کر کے بلوچستان میں کہیں پھینکا بھی جا سکتا ہے۔
اس دفعہ نواز شریف اپنے ساتھی کی اس طرح بے عزتی پہ رضامند نہیں ہوئے۔یہ ہے اصل خبر۔۔۔ اب نواز شریف اپنی اس وضع داری پہ کتنی دیر قائم رہتے ہیں ؟
تیل دیکھیں تیل کی دھار دیکھیں۔
♦